پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں ڈاکٹروں کی ہڑتال بدستور جاری ہے۔ موجودہ صورتحال کے پیش نظر او پی ڈیز بحال رکھنے کے لیے حکومت نے دارالحکومت پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ہر شعبے کے سربراہ کو کنسلٹنٹ کے طور پر خدمات سرانجام دینے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ دوسری جانب ڈاکٹرز کونسل کے نمائندوں کو بروز منگل وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ میں مذاکرات کی دعوت دے کر انہیں ہڑتال ختم کرنے کی درخواست بھی کر دی گئی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے کل شام گورنر ہاؤس پشاور میں خطاب کے دوران واضح کیا تھا کہ حکومت ڈاکٹروں کے ان کے آبائی اضلاع میں تبادلوں کے فیصلے پر قائم رہے گی اور اگر ڈاکٹر اس فیصلے کو بنیاد بنا کر اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے سے انکار کرتے ہیں تو ہم ہسپتالوں کے لیے کچھ اور بندوبست کرلیں گے۔
کل رات سوشل میڈیا پر یہ خبر بھی گردش میں تھی کہ اتوار کے دن سے خیبر پختونخوا کے ہسپتالوں میں پاک فوج کے ڈاکٹر ڈیوٹی سرانجام دیں گے۔ اس خبر میں کتنی صداقت ہے اور ہڑتال کرنے والے ڈاکٹروں کے ساتھ مذاکرات کسی مثبت نتیجے پر نہ پہنچنے کے نتیجے میں کیا لائحہ عمل اپنایا جائے گا، اس حوالے سے صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہسپتالوں میں فوجی ڈاکٹروں کی ڈیوٹیاں لگانے کی خبر غلط ہے۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’یہ کسی کی اپنی قیاس آرائی ہوگی۔‘
ڈاکٹروں سے مذاکرات کے حوالے سے وزیر اطلاعات نے کہا: ’ہم تو پہلے دن سے ہی مذاکرات کرنے کی دعوت دیتے آرہے ہیں۔ لیکن یہ ڈاکٹر ایشو بنانا چاہتے ہیں اس کا حل نہیں چاہتے۔ اگر ایک ڈاکٹر کا وزیرِ صحت یا کسی اور سے جھگڑا چل رہا ہے اور اگر وہ سمجھتا بھی ہے کہ زیادتی اس کے ساتھ ہوئی ہے تو اس کی سزا وہ پورے صوبے کو تو نہیں دے گا۔‘
یاد رہے کہ چند روز قبل خیبر پختونخوا کے وزیر صحت ڈاکٹر ہشام انعام اللہ کی جانب سے ڈاکٹر ضیاء الدین پر تشدد کی خبروں کے بعد صوبے بھر میں ڈاکٹروں نے احتجاج کے طور پر ماسوائے ایمرجنسی کے تمام او پی ڈیز بند رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔
جب شوکت یوسفزئی سے سوال کیا گیا کہ وزیراعظم کہتے ہیں کہ ڈاکٹروں کی ’ہٹ دھرمی‘ کے نتیجے میں کچھ اور بندوبست کرلیا جائے گا، ایسے میں حکومت کے پاس کیا متبادل و لائحہ عمل ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: ’ہم نے اپنا بندوبست پہلے سے کرلیا ہے۔ ہم اشتہار دے رہے ہیں تاکہ نئے ڈاکٹر بھرتی کیے جائیں۔‘
شوکت یوسفزئی کے مطابق: ’خیبر پختونخوا میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے ڈاکٹر ہیں جنہیں یا تو ملازمت نہیں مل رہی یا پھر وہ کم تنخواہوں پر نجی ڈاکٹروں کے ساتھ ملازمت کرنے پر مجبور ہیں۔ ہم نے سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹروں کو بہت زیادہ مراعات دی ہیں، نئے ڈاکٹر بخوشی نوکری کرنے آئیں گے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’ہڑتال کرنے والے ڈاکٹروں کے تمام گلے شکوے دور کیے جائیں گے لیکن اصلاحات کا فیصلہ کسی صورت واپس نہیں لیا جائے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ ’اپنے آبائی اضلاع جانے والے ڈاکٹروں کو بہترین تنخواہیں ملیں گی۔ مثال کے طور پر جس ڈاکٹر کی تنخواہ 50 ہزار تھی، اس کی تنخواہ ڈیڑھ لاکھ یا اس سے اوپر ہوجائے گی۔‘
ڈاکٹروں کی جانب سے دی جانے والی دھمکیوں اور مسلسل ہڑتال کے باعث صوبے کے عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے، جس کا اظہار وہ سوشل میڈیا کے مختلف فورمز پر کر رہے ہیں کہ اگر خدانخواستہ ڈاکٹروں نے مریضوں کا علاج کرنے سے مکمل بائیکاٹ کردیا تو پھر لوگ کہاں جائیں گے۔
ڈاکٹروں کے حق میں نعرے لگانے والوں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر لوگوں کی جانیں بچاتے ہیں، وقت بے وقت، راہ چلتے، ہر طرح کی تقریبات میں ان سے مفت مشورے لیے جاتے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں مشینری کی خرابی یا عدم موجودگی کا غصہ ڈاکٹروں پر اتارا جاتا ہے اور مریضوں اور ان کے رشتہ داروں کی گالیوں کا رخ ہمیشہ ڈاکٹروں کی طرف ہی ہوتا ہے، لہذا بقول ان کے صوبائی حکومت کا ڈاکٹروں کے ساتھ موجودہ رویہ سراسر ناانصافی پر مبنی ہے-
دوسری جانب دوردراز کے دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں معمولی بیماریوں کے لیے بھی سینکڑوں میل دور جانا پڑتا ہے اور اکثر ایمرجنسی کی صورت میں مریض شہر کے ہسپتال تک پہنچتے پہنچتے راستے میں دم توڑ جاتے ہیں۔ اب جب حکومت نے ڈاکٹروں کو اپنے اضلاع بھیجنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو ڈاکٹر اس فیصلے کو نہیں مان رہے۔اب طے کیا جائے کہ ظلم کون کر رہا ہے؟