جنون، نون، یا تیر۔۔۔؟
کون ہو گا حکمرانِ آزاد کشمیر۔۔؟
یہ آج کا سب سے بڑا سوال ہے اور جواب تلاشنے کے لیے کچھ زیادہ محنت بھی نہیں کرنا پڑے گی۔
کشمیری ہونے کے ناطے نہ صرف پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے انتخابات میں میری دلچسپی کافی گہری ہے بلکہ علاقے کے سیاسی اتار چڑھاؤ اور جھکاؤ سےبھی بخوبی واقفیت ہے۔
ایک بات تو سب سے پہلے ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں انتخابی تاریخ کا جھکاؤ ہمیشہ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں حاکم جماعت کی طرف ہی رہتا ہے۔ اس کی وجہ انتہائی سادہ ہے کہ کشمیر والوں کو اسلام آباد سے ترقیاتی منصوبے، فنڈز اور نوکریاں ملنے کی توقع ہوتی ہے جو کہ ظاہر ہے برسرِاقتدار حکومت ہی فراہم کر سکتی ہے۔
دوسری اہم بات کہ اب تک کشمیر نے حکمرانی کے لیے مسلسل دوسری بار ایک ہی جماعت کو موقع فراہم نہیں کی۔ 2006 میں اگر مسلم کانفرنس برسرِاقتدار رہی تو 2011 میں پیپلز پارٹی کو حکومت ملی، پھر 2016 میں مسلم لیگ ن حکمراں رہی۔ اس بار پاکستان تحریکِ انصاف کو اسلام آباد میں اقتدار حاصل ہے اور یہی وجہ ہے کہ 25 جولائی کے الیکشن میں پی ٹی آئی کی جیت کے امکانات زیادہ روشن ہیں۔
سب سے پہلے تو کشمیر قانون ساز اسمبلی کی ساخت اور پھر مختلف اہم حلقوں اور پورے کشمیر میں تینوں بڑی سیاسی جماعتوں تحریکِ انصاف، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی پوزیشن سمجھ لیجیے۔
کشمیر اسمبلی کی کل 45 نشتیں ہیں جن میں سے 33 ریاست کی اور 12 مہاجرین کی ہیں۔ حکومت بنانے کے لیے کسی بھی جماعت کو 23 سیٹیں درکار ہوتی ہیں۔
آج سے پندرہ بیس دن پہلے تک مجموعی طور پر تحریکِ انصاف کی پوزیشن اکثریتی سیٹوں پر بہت زیادہ مضبوط تھی اور وِننگ پوزیشن میں تھی لیکن درمیان میں اوّل تو مریم نواز کی بھرپور اور طوفانی الیکشن مہم نے پی ٹی آئی پر کافی ڈینٹ ڈالا اور ووٹر کا ذہن تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس وجہ سے کچھ حلقے ڈانواں ڈول ضرور ہوئے ہیں اور دوسرا پی ٹی آئی کشمیر کے اندرونی اختلافات نے جماعت کی سویپنگ (sweeping) جیت کے امکانات کوضرور مجروح کیا ہے۔
مہاجرین کی 12 نشتوں پر میرے اندازے اور تجزیے کے مطابق تحریکِ انصاف چھ سے سات حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ مسلم لیگ ن کو چار سے پانچ جبکہ پیپلز پارٹی دو نشتوں پر کامیاب ہو سکتی ہے۔ اس بات کے بھی امکانات ہیں کہ مسلم لیگ ن کی ایک سیٹ زیادہ بھی ہو جائے لیکن وہ پی ٹی آئی کی نشست نہیں ہوگی بلکہ اس صورت میں پیپلز پارٹی اپنی ایک سیٹ کھو سکتی ہے۔
کشمیر کے بڑے اور کڑے مقابلوں میں سے ایک ایل اے تین میرپور شہر کے حلقے کا مقابلہ ہے جہاں پاکستان تحریک انصاف کے صدر بیرسٹر سلطان چوہدری الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کے چوہدری محمد سعید ہیں جنہوں نے 2016 میں بیرسٹر سلطان چوہدری کو ہی ہرا کر بڑا اَپ سیٹ کیا تھا۔
ان دونوں امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔ یہ مقابلہ یوں بھی انتہائی دلچسپ بن جائے گا کیونکہ بیرسٹر سلطان چوہدری وزیر اعظم کشمیر کی نشست کے بھی امیدوار ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بیرسٹر سلطان چوہدری کے مخالفین بھی بڑے تگڑے ہیں اور ان کی ہر ممکن کوشش ہے کہ بیرسٹر صاحب کو وزیر اعظم بننے اور اسمبلی تک پہنچنے سے روکا جائے۔
یہی وجہ ہے کہ چوری چھپے بیرسٹر سلطان کے مخالفین ان کےمدمقابل مسلم لیگ ن کے چوہدری محمد سعید کی حمایت کرنے میں لگے ہیں۔ اس حلقے کے ووٹر کا بیرسٹر سلطان چوہدری سے ایک بڑا شکوہ یہ رہا ہے کہ بیرسٹر صاحب جیتنے کے بعد ہمیشہ اسلام آباد میں زیادہ موجود رہتے ہیں اور اپنے حلقے اور کشمیر کو وقت نہیں دیتے۔
اب وزیراعظم بننے کی دوڑ میں بیرسٹر سلطان چوہدری نے اپنے ووٹرز کو رام کرنے کے لیے بھرپور تسلی تو دی ہے کہ وہ انہیں ووٹ ڈالیں وہ یقیناً اپنے حلقے اور کشمیر کے عوام کے درمیان موجود رہیں گے لیکن اب دیکھنا یہ ہو گا کہ میرپور شہر کے اس حلقے کا معصوم مگر انتہائی سمجھ دار ووٹر کیا بیرسٹر سلطان چوہدری کے وعدوں پر اعتبار کرتا ہے یا نہیں۔
اس حلقے میں 2016 کی جیت کے بعد چوہدری محمد سعید نے کئی ترقیاتی کام بھی کروائے جن کی وجہ سے ووٹر ان سےخوش ہیں۔ نیز اس حلقے کے خاموش ووٹر کا کسی بھی امیدوار کی جیت کے لیے بڑا اہم کردار ہو گا۔ اسی لیے پلڑا کسی بھی جانب جھک سکتا ہے اور مقابلہ کانٹے کا ہونا یقینی ہے۔
کشمیر کے وزیر اعظم کی نشست کے لیے بیرسٹر سلطان چوہدری کے علاوہ پاکستان تحریکِ انصاف میں سے دو مزید تگڑے بڑے امیدوار بھی میدان میں ہیں۔ یہ تنویر الیاس اور چوہدری انوار الحق ہیں۔ اگر چانسز کے حوالے سے بات کی جائے تو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نمبر ون مضبوط چانس تنویر الیاس کا ہے، دوسرے نمبر پر چوہدری انوار الحق اور تیسرا نمبر بیرسٹر سلطان چوہدری کا آتا ہے۔
ان تینوں پہلوان امیدواروں کی آپس کی چپقلش اور اختلافات نے، جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کی ریاستی الیکشن میں تحریکِ انصاف کی سویپنگ (sweeping) سچوایشن کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ اب اِن کے آپسی اختلافات کی ہلکی سی جھلک آپ تک پہنچا دوں۔
مضبوط ذاتی ووٹ بنک ہونے کی وجہ سے چوہدری انوار الحق بھمبر شہر کے ہمیشہ سے ایک تگڑے امیدوار رہے ہیں اور ہمیشہ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑتے آئے ہیں۔ مسئلہ صرف یہاں درپیش آتا ہے کہ اسی حلقے میں بیرسٹر سلطان چوہدری کا خاندانی ووٹر بھی موجود ہے جس کا کم از کم تین ساڑھے تین ہزار ووٹ بنتا ہے۔ یہی ووٹ آر یا پار کی فیصلہ کُن صورت حال بھی اختیار کر جاتا ہے۔
2016 کے الیکشن میں چوہدری انوار الحق جیت کے لیے مضبوط امیدوار تھے لیکن الیکشن سے پہلے آخری رات کو بیرسٹر سلطان چوہدری نے اپنا برادری کا ووٹ مخالف امیدوار مسلم لیگ ن کے چوہدری طارق فاروق کو ڈلوا کر انہیں جتوا دیا۔ انہوں نے تیس ہزار جبکہ چوہدری انوار الحق کے آزاد حیثیت میں ستائیس ہزار ووٹ تھے۔ گویا صرف انہی تین چار ہزار کے فیصلہ کن ووٹ نےچوہدری انوار کی بازی الٹ دی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اِس حلقے میں پی ٹی آئی کی پوزیشن 2016 سے انتہائی کمزور تھی۔ 2016 میں پی ٹی آئی نے یہاں سےصرف 1600 ووٹ حاصل کیے۔ اسی لیے تنویر الیاس کی مسلسل کوششوں اور ملاقاتوں کے بعد اس بار چوہدری انوار الحق کو پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑوایا جا رہا ہے۔ اس میں تنویر الیاس اور بیرسٹر سلطان چوہدری کی آپسی چپقلش اور اختلافات کا بھی بہت بڑا کردار ہے۔
اب بھی اسی حلقے ’ایل اے سات بھمبر شہر‘ سے چوہدری انوار الحق کے مقابلے پر مسلم لیگ ن کے چوہدری طارق فاروق الیکشن لڑ رہے ہیں اور مقابلہ بڑا کڑا متوقع ہے۔ یہ حلقہ کشمیر الیکشن کے ایک اور دلچسپ مقابلوں میں سے ایک ہو گا۔ دیکھتے ہیں تنویر الیاس بمقابلہ بیرسٹر سلطان کس کی سیاسی چال یہاں زیادہ کامیاب ہوتی ہے۔
ایک اور اہم اور دلچسپ مقابلے کا حلقہ تنویر الیاس ہی کا باغ کا ہے جہاں ان کا مقابلہ مسلم لیگ ن کے مشتاق منہاس سے ہے۔ اس حلقے میں تنویر الیاس کی پوزیشن مضبوط ہے۔ توقع ہے کہ وہ یہاں سے آسانی سے جیت جائیں خاص طور پر جماعت اسلامی کے رشید ترابی کے ان کے حق میں دستبردار ہونے سے ان کی پوزیشن مزید مضبوط ہوئی ہے۔ اس حلقے میں رشید ترابی کے کم از کم سات/آٹھ ہزار ووٹ ہیں۔
اس سیٹ پر مسلم کانفرنس کے راجہ یاسین بھی اچھے امیدوار ہیں تاہم ان کے متعلق بھی یہی توقع ہے کہ شاید عین وقت پر وہ بھی تنویر الیاس کے حق میں دستبردار ہو جائیں۔
یہاں سے پیپلز پارٹی کے سابق سینیئر وزیر سردار قمر زمان کے صاحبزادے ضیا القمر بھی امیدوار ہیں مگر ان کی پوزیشن تنویر الیاس کے مقابلے میں زیادہ مضبوط نہیں اور ان کے تیسری پوزیشن پر آنے کی توقع ہے۔
کشمیر کے الیکشن کی ایک اہم بات ذہن نشین رکھنی بہت ضروری ہے کہ یہاں جماعتوں سے زیادہ شخصی اور برادری کی بنیادوں پر ووٹ ڈالا جاتا ہے۔
الیکشن کا ایک اور دلچسپ حلقہ راجہ فاروق حیدر، مسلم لیگ ن کا ہو گا جو بیک وقت دو حلقوں گڑھی دوپٹہ (جو کہ ان کا آبائی حلقہ ہے) اور وادی لیپہ سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ آبائی حلقے سے راجہ فاروق حیدر کے مقابلے پر پیپلزپارٹی کے تگڑے امیدوار اشفاق ظفر موجود ہیں اور یہاں مقابلہ ففٹی ففٹی کا سا ہے۔
جیت کا پلڑا کسی بھی جانب جھک سکتا ہے اور مقابلہ اس قدر کانٹے کا متوقع ہے کہ جس بھی امیدوار کی جیت ہوئی اس کی لیڈ ہزار پندرہ سو ووٹوں سے زیادہ کی نہیں ہوگی۔ دوسرے حلقے وادی لیپہ میں راجہ فاروق حیدر کی پوزیشن کمزور ہے اور وہاں تحریکِ انصاف کے دیوان چغتائی کی جیت کے امکانات بظاہر روشن دکھائی دیتے ہیں۔
مجموعی طور پر اگر محتاط اندازے کے تحت بات کی جائے تو میرے تجزیے کے مطابق پاکستان تحریکِ انصاف 18 سے 20 سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی اور اس طرح مسلم کانفرنس یا کسی دیگر جماعت سے اتحاد کے بعد کشمیر میں حکومت بنانےکی آسان پوزیشن میں آ جائے گی۔
مسلم کانفرنس کی چار سے پانچ سیٹیں ہو سکتی ہیں جن میں سردار عتیق، فاروق سکندر، شفیق جرال، ملک نواز اور مہرالنسا شامل ہیں۔ پیپلز پارٹی 12 سے 14 سیٹیں حاصل کر سکتی ہے جبکہ مسلم لیگ ن آٹھ سے نو نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔
2016 میں مسلم لیگ ن نے کشمیر قانون ساز اسمبلی میں 39 سیٹیں حاصل کیں تھیں لیکن جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ الیکشن میں کشمیریوں کا جھکاؤ اسلام آباد میں حکمران جماعت کی طرف رہتا ہے اسی لیے تحریکِ انصاف کی کشمیر میں حکومت یقینی ہے۔
پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات نہ ہوتے تو یقیناً اکثریتی نشستیں بھی حاصل کی جا سکتی تھیں۔ ان کے اختلافات کا ردعمل دیکھیے کہ کشمیر میں پی ٹی آئی کے صدر تو بیرسٹر سلطان چوہدری ہیں مگر الیکشن مہم کے سربراہ وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور بنائے گئے جبکہ ڈپٹی چئیرمین تنویر الیاس کو بنا دیا گیا۔
اس کی ایک اور مثال وزیر اعظم عمران خان کے میرپور میں جلسے کے موقع پر (جو کہ بیرسٹر سلطان نے منعقد کروایا) بھمبر میں ان کا جلسہ جان بوجھ کر نہیں رکھوایا گیا تھا۔ مگر تنویر الیاس کو اس کی خبر ہوتے ہی انہوں نے اپنے اثرورسوخ کا استعمال کیا اور زبردستی وزیر اعظم عمران خان کا بھمبر میں بھی جلسہ منعقد کروایا۔
مزیدار بات یہ ہوئی کہ لائن آف کنٹرول کے قریب حلقہ سمانی میں امیدوار علی شان سونی جو کہ پہلے آزاد امیدوار تھے لیکن اس بار الیکشن میں تنویر الیاس نے انہیں پی ٹی آئی کا ٹکٹ دلوایا اور ان کے مقابلے پر اب آزاد امیدوار چوہدری رزاق ہیں جنہیں بیرسٹر سلطان کی حمایت حاصل ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کے بھمبر جلسے میں علی شان سونی تنویر الیاس کی آشیرباد سے اپنی ریلیاں لے کر پہنچ گئے تھے جبکہ وزیراعظم کے میرپور جلسے میں آزاد امیدوار چوہدری رزاق بیرسٹر سلطان کی آشیرباد سے اپنی ریلیاں لے کر پہنچے۔ یہیں سے آپ اندازہ لگا لیجیے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کا الیکشن دراصل بیرسٹر سلطان بمقابلہ تنویر الیاس کی طاقت اور سیاسی چالوں پر مبنی ہے۔
ان دو سیاسی پہلوانوں کی چپقلش کا تحریکِ انصاف کو الیکشن کے لیے نقصان بھی ہوا ہے۔
2016 کی انتخابی جیت کے بعد نواز شریف نے کشمیر کے لیے بجٹ نہ صرف تین گُنا بڑھا دیا تھا بلکہ تعلیم اور صحت کی سہولیات میں بھی نواز حکومت کافی بہتری لے کر آئی تھی۔ راجہ فاروق حیدر نے نوازشریف کی ہدایات پر سڑکوں کی تعمیر پر بھی کافی کام کیا۔ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے سڑکوں کی تعمیر رہائشیوں کا مطالبہ بھی تھا۔ البتہ بےروزگاری کے خاتمے اور روزگار کی فراہمی کے لیے مسلم لیگ ن کی راجہ فاروق حیدر کی حکومت کچھ زیادہ بہتر کام نہیں کر پائی۔
اس کے علاوہ کشمیر کے زیادہ تر حلقے لائن آف کنٹرول کے قریب واقع ہیں۔ بھارتی گولہ باری کے نتیجے میں ہلاک شدگان اور زخمیوں کے لیے علاج معالجے کی عدم سہولیات اور معاوضےکی عدم ادائیگی بھی کشمیری ووٹر کیے ناراضی کا باعث ہے۔ بھارتی گولہ باری سے بچنے کی خاطر شہریوں کے لیے بنکرز کی تعمیر میں حکومتی تاخیر بھی کشمیریوں کے لیے کٹھن رہی۔
گذشتہ پانچ سال میں پبلک سروس کمیشن کے امتحانات نہ ہونے سے بھی کشمیری ووٹر نالاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوٹلی کا علاقہ جو مسلم لیگ ن کا گڑھ ہوتا تھا اور جہاں کے چھ حلقے ہیں وہاں سے اب مسلم لیگ ن کی ایک سیٹ بھی نکالنا مشکل ہو رہا ہے۔
اس کے علاوہ علاقے میں گہرا اثرورسوخ رکھنے والے سردار سکندر حیات کا مسلم کانفرنس میں چلے جانا بھی کوٹلی میں مسلم لیگ ن کے لیے بڑا دھچکا ثابت ہوا ہے۔
بہرحال بات ہو رہی تھی کشمیرکے رہائشیوں کی توقعات کے حوالے سے تو اب ان تمام محرومیوں کے علاج کی آس کشمیری ووٹر تحریکِ انصاف کی حکومت سے لگائے بیٹھا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اسلام آباد میں اگرچہ وفاقی حکومت کے محض دو سال ہی باقی کیوں نہ ہوں لیکن اگر کچھ ریلیف مل جائے تو ان کی صورت حال مزید بہتر ہو جائے گی۔
نوٹ: یہ تجزیہ مصنفہ کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔