پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے علاوہ اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کی جانب سے خطے کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کو دو ماہ کے لیے ملتوی کرنے کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے اسے وفاقی حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کی ’انتخابات چرانے کی مشترکہ کوشش‘ قرار دیا ہے۔
دوسری جانب پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ انہیں ابھی تک ایسا کوئی خط موصول نہیں ہوا، لیکن ایسی کوئی بھی تجویز آئینی لحاظ سے ناقابل عمل ہوگی۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی موجودہ اسمبلی کی آئینی مدت 29 جولائی کو پوری ہوگی اور 53 رکنی نئی اسمبلی کی 45 نشستوں پر براہ راست انتخابات کا انعقاد جولائی کے آخر میں متوقع ہے۔ اگرچہ انتخابات کا حتمی شیڈول جاری ہونا باقی ہے تاہم ان انتخابات میں حصہ لینے والی چار میں سے تین بڑی جماعتیں بیشتر حلقوں سے اپنے امیدوار نامزد کر چکی ہیں، تاہم این سی او سی کے اس خط کے بعد انتخابات کا انعقاد مشکوک ہو گیا ہے۔
انتخابات کا التوا کیوں؟
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے اتوار کو این سی او سی کا ایک خط میڈیا کو دکھایا، جس میں انتخابات دو ماہ تک ملتوی کرنے کی تجویز دی گئی ہے، تاہم الیکشن کمیشن کے مطابق انہیں ابھی تک ایسا کوئی خط موصول نہیں ہوا۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے چیف الیکشن کمشنر کے نام 29 مئی کو لکھے ایک خط (جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے) میں ملک میں کرونا وائرس کی وبا کی تیسری لہرسے پیدا ہونے والی صورتحال کے پیش نظر جولائی میں متوقع انتخابات کو ملتوی کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
خط میں کہا گیا کہ 21 مئی کو این سی او سی کے اجلاس میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے انتخابات کے حوالے سے بحث میں اتفاق ہوا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران سیاسی اجتماعات اور لوگوں کے بڑے پیمانے پر میل جول سے کرونا وائرس کے پھیلاؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ خط کے متن کے مطابق: ’چونکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں حالیہ دنوں میں کرونا وائرس کے مثبت کیسوں کی شرح کافی بلند رہی ہے، لہذا امکان ہے کہ جولائی میں ہونے والے انتخابات کا انعقاد وائرس کے پھیلاؤ کو خطرناک حد تک بڑھانے کا سبب بن سکتا ہے۔‘
اس خط کے منظرعام پر آنے کے بعد گذشتہ روز پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فارق حیدر اور پاکستان کے سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے علیحدہ علیحدہ پریس کانفرنسوں کے دوران اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے اسے وفاقی حکومت کی جانب سے ’انتخابات چرانے کی ایک کوشش‘ قرار دیا۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت کیا کہتی ہے؟
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر نے الزام عائد کیا کہ وزیراعظم عمران خان این سی او سی کا کندھا استعمال کرکے کشمیر میں گلگلت بلتستان کے انتخابات کا ’ڈرامہ‘ دہرانا چاہتے ہیں۔
راجہ فاروق حیدر کے بقول: ’کشمیر کو صوبہ بنانے کی سازش کی جارہی ہے۔ انتخابات کے حوالے سے وزیراعظم پاکستان کو قوانین کا علم نہیں۔ وہ ہمارے قوانین سے واقف نہیں، ہمارا اپنا الیکشن کمیشن ہے جو مکمل بااختیار ہے۔ ایک دن لوگ دوسری جماعتوں سے شامل ہوتے ہیں، اسی دن انہیں پی ٹی آئی کے ٹکٹ جاری ہو رہے ہیں یہ کیا تبدیلی ہے؟‘
راجہ فاروق حیدر کے مطابق: ’این سی او سی کا پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کوئی اختیار نہیں، جان بوجھ کر سیاسی کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ہم اس کے خلاف مزاحمت کریں گے اور منصفانہ انتخابات میں جو بھی جیتا، ہم اسے تسلیم کریں گے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’لائن آف کنٹرول پر حالات پر امن ہیں، آئین میں انتخابات کو ملتوی کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر ہم پر غیر آئینی اقدام کے لیے دباؤ ڈالا گیا تو کسی کا لحاظ نہیں کریں گے۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی کیا چاہتی ہے؟
پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی این سی او سی کے اس خط کو وفاقی حکومت کی سازش قرار دیتے ہوئے انتخابات ملتوی کرنے کی کوشش کا ہر سطح پر مقابلہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سابق وزیراعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف نے پیر کو اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا: ’موجودہ (وفاقی) حکومت کو (پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے انتخابات میں) اپنی شکست یقینی نظر آرہی ہے اور حکومت انتحابات کو ملتوی کروانا چاہتی ہے، کیونکہ حکومت کے پاس مختلف حلقوں میں امیدوار ہی نہیں ہیں۔ پی ٹی آئی کو اراکین کے جوڑ توڑ میں کامیابی نہیں ہو رہی ہے اور وہ انتحابات ملتوی کروا کر وفاداریاں تبدیل کرنے کے لیے زیادہ وقت حاصل کرنا چاہتی ہے۔‘
پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ’کرونا بہانہ ہے اور الیکشن چرانا اصل نشانہ ہے۔ این سی او سی کا کیا یہ اختیار ہے کہ وہ انتحابات ملتوی کروانے کے لیے اس طرح خط لکھے؟‘
انھوں نے سوال اٹھایا: ’کیا گلگت کے انتحابات میں کرونا نہیں تھا؟ جب زلزلہ آیا تو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے آدھے لوگوں کے پاس چھت نہیں تھی، تاہم اس کے باوجود کشمیر میں الیکشن ہوا تھا۔‘
پرویز اشرف نے کہا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا آئین الیکشن کے حوالے سے بڑا واضح ہے۔ اسمبلی کی مدت ختم ہونے سے 60 دن پہلے الیکشن کروانا ہے اور 29جولائی سے پہلے الیکشن کروانا آئینی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں وفاقی حکومت کو رکاوٹ بننے دیں گے اور نہ ہی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت کو۔
آئین کیا کہتا ہے؟
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے عبوری آئین 1974 میں اسمبلی کی مدت پانچ سال متعین ہے۔ معروف قانون دان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس سید منظور گیلانی کہتے ہیں کہ ’آئین کے تحت اسمبلی کی مدت پوری ہونے سے قبل 60 دن کے اندر انتخابات کا انعقاد کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے اور یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’انتخابات صرف اور صرف جنگ یا قدرتی آفات کی وجہ سے ملتوی ہو سکتے ہیں تاہم اس کے لیے آئین میں ترمیم کے ذریعے اسمبلی کی مدت بڑھانا پڑے گی۔‘
منظور گیلانی نے کہا کہ ’اگر اسمبلی کی مدت بڑھانا یا انتخابات ملتوی کرنا ضروری ہو تو موجودہ اسمبلی کی مدت اڑھائی سال تک بڑھا دی جائے تاکہ آئندہ پاکستان، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں ایک ہی دن انتخابات ہوا کریں اور وفاقی حکومت کی مداخلت کا سد باب ہو سکے۔‘
پاکستان تحریک انصاف کا موقف
پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری اطلاعات ارشاد محمود نے اس تاثر کو رد کیا ہے کہ پی ٹی آئی انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے۔ ان کا کہنا تھا: ’این سی او سی کی تجویز معروضی حالات کے مطابق ان کے رائے ہے، تاہم اس پر عمل درآمد کے لیے ایک طویل آئینی عمل اور تبدیلیاں درکار ہیں اور ان تبدیلیوں کا اختیار بھی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی اسمبلی کے ہی پاس ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ارشاد محمود کا کہنا تھا: ’ہم پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں صاف، شفاف، آزادنہ، غیر جانبدارانہ اور بروقت انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں اور جماعتی سطح پر ہماری تیاری ہر لحاظ سے مکمل ہے۔‘
واضح رہے کہ گذشتہ سال گلگت بلتستان میں ہونے والے قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کو تین ماہ کے لیے ملتوی کر دیا گیا تھا۔ شیڈول کے مطابق یہ انتخابات اگست میں منعقد ہونے تھے، تاہم کرونا وائرس کی وجہ سے تین ماہ کے التوا کے دوران خطے کی حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے کئی اہم امیدوار اپنی پارٹی چھوڑ کر پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو گئے تھے۔
این سی او سی کی حالیہ تجویز سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی سیاسی جماعتوں میں بھی انتخابات کے انقعاد کے حوالے سے شکوک و شہبات پیدا ہونا شروع ہوگئے ہیں، تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں گلگت جیسے حالات کو دہرانا ممکن نہیں۔
سید منظور گیلانی کے بقول: ’گلگت بلتستان میں تو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کسی بھی قانون کو نافذ یا تبدیلی کیا جاسکتا ہے، تاہم پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ایسا صرف آئینی ترمیم کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے۔‘