ٹویٹر پر ایک ہیش ٹیگ #justicefornaseembibi کے ذریعے عوام راولپنڈی کی نسیم بی بی کے لیے انصاف مانگ رہے ہیں۔
یہ ہیش ٹیگ ایک دو روز سے چل رہا ہے۔ نسیم بی بی وہاڑی سے تھیں اور راولپنڈی میں رہتی تھی۔ پیشے کے اعتبار سے گداگر تھیں اور ایک 14 ماہ کے بچے کی ماں تھیں۔
تھانہ چونترہ کی حدود میں نسیم بی بی اور ان کے بچے پر نامعلوم ملزم نے خنجر کے وار کیے گئے اور نسیم بی بی کو مبینہ طور پر ریپ کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
ان کا بچہ تو ہسپتال پہنچتے پہنچتے جان سے چلا گیا لیکن نسیم بی بی نے کچھ وقت راولپنڈی ڈی ایچ کیو میں گزارا اور اتوار کو وہ بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے رخصت ہو گئیں۔ ہسپتال کی طرف سے جاری کردہ موت کے سرٹیفیکیٹ پر نسیم کے گھر والوں کی جانب سے لکھا تھا ’ہم نے میت وصول پائی۔‘
ایس ایچ او تھانہ چونترہ راولپنڈی مرزا آصف نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا ’نسیم بی بی نے جو ابتدائی بیان دیا اس میں انہوں نے بتایا کہ واجدعلی نامی شخص جنہیں نسیم پہلے سے جانتی تھیں، نے انہیں کہا کہ آپ کی دوسری اولاد نہیں ہو رہی تو آپ میرے ساتھ آئیں میں آپ کو تعویز لے کر دوں گا، یہ ان کے ساتھ چلی گئیں۔ نسیم کا کہنا تھا کہ وہ نہیں جانتیں کہ وہ لوگ انہیں جنگل میں کیسے لے گئے۔ وہاں لے جا کر واجد نے ان پر تشدد کیا اور ان کے بچے پر بھی وار کیا جس کی وجہ سے بچے کی موت واقع ہو گئی۔‘
ایس ایچ او مرزا آصف نے بتایا کہ نسیم بی بی کو لگنے والے خنجر کا زخم کافی گہرا تھا جس کا آپریشن کیا گیا اور وہ وینٹی لیٹر پر تھیں۔ ان کی پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق بھی ان کا زخم گہرا تھا۔ ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ ہسپتال والوں نے ریپ کا ٹیسٹ نہیں کیا کیونکہ ڈاکٹروں کے مطابق چونکہ خاتون شادی شدہ تھیں اس لیے وہ ان کا زیادتی کا ٹیسٹ نہیں کر سکتے تھے تاہم خاتون کے جسم سے مطلوبہ نمونے پنجاب فارینزک اینڈ سائنس ایجنسی کو بھجوائے گئے ہیں تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ ان کے اندر اپنے شوہر کے علاوہ کسی اور کا ڈی این اے موجود ہے یا نہیں۔ ٹیسٹ کے بعد ہی ان کے ساتھ ریپ کا تعین ہو گا۔
مرزا آصف کا کہنا تھا کہ ’نامزد ملزم فرار ہے جسے ہم تلاش کر رہے ہیں اس کی گرفتاری کے بعد اس کا ڈی این اے ٹیسٹ بھی کیا جائے گا۔‘
مرزا آصف نے بتایا کہ واجد علی فرینیچر کا کام کرتا ہے اور چک بیلی بازار میں ہی کام کرتا ہے اور یہ جگہ جائے وقوعہ سے پانچ سات کلو میٹر دور ہے۔
دوسری جانب سٹی پولیس آفیسر راولپنڈی محمد احسن یونس کے ترجمان سجادالحسن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ نسیم بی بی کی بہن شمیم کی مدعیت میں ہم نے مقدمہ درج کر لیا ہے اور جیسے ہی واجد گرفتار ہوگا اس سے تحقیقات کے بعد ہی اصل حقائق سامنے آئیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ جو فرانزک رپورٹ آئے گی وہ اس کیس کے لیے بہت اہم ثابت ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ واجد کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں اور جلد وہ پولیس کی گرفت میں ہوگا۔ جب ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا واجد نسیم کو کوئی تعویز دلوانے لے کر گیا تھا تو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایس ایچ او سے تصدیق کی ہے کہ نسیم بی بی کی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ پولیس کو کوئی آفیشل بیان ریکارڈ کرواتیں اس لیے اب یہ تفتیش کے دوران ہی سامنے آئے گا کہ واجد کا نسیم کو ساتھ لے جانے کا کیا مقصد تھا؟
اس واقعے کی ایف آئی آر تھانہ چونترہ میں درج کی گئی۔ ایف آئی آر میں نسیم کی بہن شمیم بی بی نے بیان دیا کہ وہ اور ان کی ہمشیرہ نسیم بی بی جن کی عمر 30 برس ہے اور ان کا بیٹا اپنے ماموں محمد رمضان کے ساتھ روات شہر میں رہائش پذیر ہیں۔ جب کہ باقی بہن بھائی والدین کے ساتھ وہاڑی میں رہتے ہیں۔
بیان میں شمیم نے بتایا کہ غربت کے باعث یہ لوگ گداگری کر کے گزارا کرتے ہیں۔ 24 جولائی کی دوپہر 12 بج کر 30 منٹ پر وہ ان کی بہن نسیم بی بی ن کا بیٹا گلفام اپنے ماموں رمضان کے ہمراہ گداگری کی غرض سےچک بیلی خان بازار پہنچے جہاں واجد علی نامی شخص جو مہوٹہ موہڑہ داخلی چک بیلی خان راولپنڈی، ہم سے ملا۔ بیان کے مطابق نسیم واجد کو پہلے سے جانتی تھی۔ واجد نے نسیم اور اس کے بیٹے گلفام کو اپنے ساتھ موٹر سائیکل پر بٹھایا اور ہمیں وہیں انتظار کرنے کا کہہ کر مہوٹہ موہڑا گاؤں روانہ ہو گیا۔
دو گھنٹے بعد واجد اپنے موٹر سائیکل پر تیزی سے ہمارے پاس سے گزر گیا جس سے ہمیں شک ہوا۔ اور ہم نے نسیم اور اس کے بیٹے کی تلاش شروع کر دی۔ جب ہم مہوٹہ موہڑہ کے جنگل میں پہنچے تو نسیم نے شور مچا کر ہمیں اپنے پاس بلایا۔ اور بتایا کہ واجد انہہں یہاں لایا تھا اور ان سے زبردستی جنسی فعل کیا اور اس کے بعد چھری نکال کر انہیں قتل کرنے کی نیت سے ان پر وار کیا جو ان کی گردن پر سامنے لگا اور وہ شدید زخمی ہو گئیں جبکہ واجد نے چھری کا دوسرا وار گلفام پر کیا جو اس کی گردن کے بائیں جانب لگااوروہ بھی شدید زخمی ہو گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب نسیم نے شور مچایا تو واجد موقع سے فرار ہو گیا۔ ایف آئی آر کے بیان کے مطابق نسیم کے ماموں رمضان نسیم اور گلفام کو اٹھا کر پکی سڑک پر لائے اور وہاں ایک نجی ایمبیولینس میں ڈال کر ڈی ایچ کیو ہسپتال راولپنڈی آگئے۔ بیان کے مطابق گلفام راستے میں ہی دم توڑ گیا جبکہ نسیم ہسپتال پہنچ گئی۔
نسیم کی بہن شمیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ’میں نہیں جانتی کہ نسیم واجد کو کیسے جانتی تھی یا ان کا آپس میں کیا تعلق تھا۔ یا وہ اس کے ساتھ کس مقصد سے گئی اس نے ہمیں کچھ نہیں بتایا۔ واجد آیا اور نسیم اس کے ساتھ چلی گئی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ نسیم کا شوہر ساہیوال میں رہتا ہے اور وہ غریب لوگ ہیں اس لیے گداگری کا کام ہی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نسیم کی تدفین وہاڑی میں کر دی گئی ہے اور ان کی قانون سے نسیم کے لیے انصاف کی اپیل ہے۔
سوشل میڈیا پر نسیم اور ان کے ننھے بچے کے حوالے سے کافی غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین کے مطابق نسیم کے کیس کو اس سنجیدگی سے نہیں لیا جارہا جس سنجیدگی سے اسے لینا چاہیے۔
سینئیر صحافی اور اینکر پرسن طارق متین نے ٹویٹ میں لکھا: نسیم کا ہیش ٹیگ زیدہ دیر تک کیوں نہیں رہا؟ اغوا، ریپ، خنجر کے وار اور بالآخر موت۔ 18 ماہ کے بچے کی آنکھوں کے سامنے موت، کیا یہ کافی دردناک نہیں؟ کیا ہم اس کے لیے اس لیے نہیں لڑ رہے کہ وہ ایک گداگر تھی؟
ایک ٹوئٹر صارف جون ایم علی رضا جنہوں نے نسیم کی ساری کہانی ٹویٹر کے ذریعے شئیر کی اور لوگوں کو ان کے نام کا ہیش ٹیگ استعمال کرنے کا بھی کہا نے اپنی ایک ٹویٹ میں نسیم اور اس کے بچے کی وقوعے کے بعد کی ویڈٰو شئیر کرتے ہوئے لکھا کہ کیا آپ اب بھی نہیں بولیں گے؟
The Note on Death Certificate
— JOUN M ALI RAZA (@jounaliraza) July 25, 2021
"Hum ne Mayyat wasool kar li ha"
#JusticeForNaseemBibi#JusticeforNaseemBB pic.twitter.com/2Onbsw4RJU
ان کی اس ٹویٹ کے جواب میں راولپنڈی پولیس کے آفیشل پیج سے لکھا گیا ’اس افسوسناک واقعہ پر سی پی او راولپنڈی نے نوٹس لیتے ہوئے ملوث ملزم کی جلدازجلد گرفتاری کے احکامات جاری کیے، جس حوالے سے ریڈز کیے جارہے ہیں۔ ملزم کو گرفتار کرکے قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا اور ٹھوس شواہد کے ساتھ چالان کرتے ہوئے قرار واقعی سزا دلوائی جائے گی۔‘