امریکہ کی پسپائی میں طالبان کے لیے سبق

اگر طالبان نے کسی طرح طاقت کے زور پر کابل اور دیگر شہروں پر قبضہ کر بھی لیا تو یہ ایک کمزور حکومت ہوگی جس کی نہ اندرون اور نہ بیرون ملک کوئی پذیرائی ہوگی۔

15 جولائی ،2021 کو لی گئی اس تصویر میں افغان ملیشیا کے جنگجو صوبہ بلخ میں طالبان کے خلاف ایک چوکی پر نگرانی کر رہے ہیں (اے ایف پی)

یہ تحریر اگر آپ مصنف کی آواز میں سننا چاہیں تو یہاں کلک کریں

 

تقریباً 42 سالوں کے قلیل دورانیے میں افغانستان میں دو عالمی سپر طاقتوں کو انتہائی مہنگی جنگوں کے بعد شکست کی دھول چاٹنی پڑی ہے۔

سوویت یونین نے افغانستان پر اپنا قبضہ قائم رکھنے کے لیے 150 ارب ڈالرز سے زائد خرچ کیے اور تقریباً 20 ہزار سے زیادہ فوجیوں کی قربانی دی۔

افغان جنگ نے سوویت یونین کو معاشی طور پر اتنا کمزور کیا کہ ایک انتہائی طاقتور ریاست اس جنگ کے فورا بعد دنیا کے نقشے سے غائب ہو گئی۔

اس جنگ نے افغانستان کو بھی ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ ایک اندازے کے مطابق سوویت قبضے کے دوران پانچ اور 20 لاکھ کے درمیان افغان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

اس طرح پورے افغانستان کی آبادی میں چھ سے 11 فیصد عوام لقمہ اجل بن گئے۔ اس ہولناک جنگ سے جان بچاتے ہوئے تقریباً 50 لاکھ سے زیادہ افغان عوام بیرون ملک نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔

سوویت قبضے کی آفت کے تقریباً 10 سال بعد افغانستان ایک بار پھر ایک بڑی افتاد کا نشانہ بنا جب امریکہ نے افغانستان پر حملے کا فیصلہ کیا۔

سوویت اور امریکی قبضے کے درمیان کے 10 سالوں میں مختلف افغان گروہ کابل پر تسلط کی خواہش میں آپس میں برسرپیکار رہے جس کی وجہ سے مزید افغان ہلاک ہوئے اور ایک بڑی تعداد دوبارہ نقل مکانی پر مجبور ہوئی۔

20 سالہ امریکی قبضے کے دوران تقریباً 48 ہزار مزید افغان شہری ہلاک ہوئے اور جاری خانہ جنگی میں تقریباً 66 ہزار افغان فوجی مارے گئے۔

امریکی مداخلت کے دوران تقریباً 27 لاکھ افغان دوبارہ بیرون ملک نقل مکانی پر مجبور ہوئے جبکہ 40 لاکھ کے قریب افغانستان میں ہی دربدر ہوئے۔

اس مہنگی ترین جنگ میں تقریباً 2500 امریکی فوجی ہلاک ہوئے اور 20 ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ 4 ہزار کے قریب نجی امریکی کنٹریکٹرز بھی مارے گئے۔

نیٹو افواج کے ساتھ  شامل فوجی اور دیگر اشخاص کی ہلاکتیں 1200 کے قریب رہیں۔

اپنی اس مہنگی ترین مہم جوئی میں امریکی وزارت خارجہ کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق امریکہ اب تک دو کھرب 26 ارب ڈالرز جھونک چکا ہے۔

یہ سرمایہ بےتحاشہ قرضے لے کر حاصل کیا گیا۔ اب تک صرف سود کی مد میں امریکہ نے اس مہم جوئی کے لیے 530 ارب ڈالرز ادا کیے ہیں۔

اس جنگ میں شامل سابق فوجیوں اور اور دیگر اہلکاروں کے علاج اور دیگر سہولیات کے لیے 296 ارب ڈالرز خرچ کیے جا چکے ہیں اور ان اہلکاروں پر یہ اخراجات آنے والے کئی سالوں تک ادا کیے جائیں گے۔

اب جبکہ امریکہ نے افغانستان میں اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے واپسی کا فیصلہ کیا ہے تو طالبان امید لگائے بیٹھے ہیں کہ جلد کابل ان کے قدموں کے نیچے ہوگا۔

گو طالبان کسی حد تک یہ امید کرنے میں حق بجانب ہیں کیونکہ امریکی انخلا سے بظاہر مرکزی حکومت کمزور دکھائی دینے لگی ہے۔

طالبان کی حالیہ مضافاتی علاقوں کی فتوحات سے ان کے کچھ حمایتی عناصر طالبان کا افغانستان پر جلد ہی مکمل قبضہ یقینی سمجھ رہے ہیں لیکن طالبان کی مکمل فتح ابھی کافی دور ہے۔ اس مقصد کے حصول میں بہت سارے عناصر آڑھے آ سکتے ہیں۔

اگر طالبان نے اپنے طرز عمل اور طرز حکومت کے بارے میں افغانوں کی ایک بڑی تعداد میں موجود سنجیدہ خدشات کو رفع کرنے کی کوشش نہ کی تو بہت ممکن ہے کہ انہیں کابل اور دیگر بڑے شہروں پر قبضہ کرنے میں شدید مشکلات اور مخالف قوتوں کا سخت مقابلہ کرنا پڑے اگر وہ اپنی حکمت عملی اور سخت گیر نظریات میں تبدیلی نہ لآئے۔

 ان وجوہات کی بنیاد پر طالبان کو افغانستان پر مکمل قبضہ کرنے اور ملک پر امن کے ساتھ حکومت کرنا تقریباً ناممکن ہوگا۔

اس سلسلے میں انہوں نے کچھ نرمی کا اشارہ تو دیا ہے مگر یہ طالبان مخالف قوتوں کے خدشات ختم کرنے کے لیے کافی نہیں۔

مندرجہ ذیل وجوہات کی بنیاد پر طالبان کو افغانستان پر مکمل قبضہ کرنے اور ملک پر امن کے ساتھ حکومت کرنا تقریباً ناممکن ہوگا اگر وہ اپنی حکمت عملی اور سخت گیر نظریات میں تبدیلی نہ لآئے۔

اس سلسلے میں انہوں نے کچھ نرمی کا اشارہ تو دیا ہے مگر یہ طالبان مخالف قوتوں کے خدشات ختم کرنے کے لیے کافی نہیں۔ 

سوویت یونین اور امریکہ جیسی سپر طاقتوں کی افغانستان میں پسپائی میں طالبان کے لیے کافی سبق پوشیدہ ہیں اور انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صرف طاقت کے بل بوتے پر افغان عوام کو زیرنگیں نہیں رکھا جا سکتا۔

طالبان کی پچھلی حکومت کے خاتمے کو 20 سال ہوا چاہتے ہیں اور اس عرصے کے دوران ایک نئے افغانستان نے جنم لیا ہے۔ افغانستان کے شہری علاقوں میں ایک واضح تبدیلی اور معاشی ترقی کے صاف نشانات نظر آتے ہیں۔

ماضی کے مقابلے میں کابل میں نئی بلند و بالا عمارتیں نظر آتی ہیں۔ بہتر سڑکوں کا ایک جال بچھا دیا گیا ہے اور ماضی کے برعکس کابل ایک صاف ستھرا شہر دکھائی دیتا ہے۔

کابل میں کئی جگہ آپ کو بڑے بڑے شاپنگ سینٹر بھی نظر آتے ہیں۔ اسی طرح دوسری شہری سہولتوں میں بھی قابل توجہ اضافہ ہوا ہے۔صحت کے شعبے میں کثیر سرمایہ کاری کی گئی ہے جس کی وجہ سے عام شہریوں کو صحت کی بہتر سہولتیں میسر ہوئی ہیں۔

نئی افغان نسل

تعلیم کے شعبے میں قابل رشک بہتری آئی ہے اور ہزاروں افغان طالب علم اپنے ہی ملک میں اعلی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق تقریباً دو کروڑ 20 لاکھ افغانوں کو انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہے۔ نائن الیون کے بعد بعد ایک نئی نسل جوان ہو چکی ہے جو ان سب سہولتوں کی عادی ہو چکی ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق  60 سے 65 فیصد کے درمیان افغان آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔

افغان آبادی کے اس بڑے حصے کے لیے طالبان کا سخت قسم کی پابندیوں پر مبنی اقتدار بظاہر ناقابل قبول ہوگا۔

ان نوجوانوں نے طالبان کے اقتدار کے دوران ایک جابرانہ نظام حکومت کے بارے میں سنا ہوا ہے اور یہ ممکن ہے کہ وہ اپنی موجودہ سماجی سہولتوں پر مبنی طرز زندگی کے دفاع کے لیے ایک خود رو تحریک کی صورت میں طالبان کی واپسی کا مقابلہ کریں۔

یہ مزاحمت افغانستان کو مزید بدامنی کی طرف لے جا سکتی ہے اور طالبان کے مکمل قبضہ میں ایک بڑی رکاوٹ بھی بن سکتی ہے ۔

افغان فوج

اس سارے سیاسی کھیل میں نوجوان افغان فوج کی طاقت کو بھی نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ کچھ دہی علاقوں میں افغان فوجیوں کے ہتھیار ڈالنے کو افغان فوج کی کمزوری اور اسے جلد ہی اس کے خاتمے سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ 

شواہد بتاتے ہیں کہ افغان فوج کی یہ پسپائی عارضی ہے کیونکہ انہوں نے کافی علاقے حال ہی میں طالبان سے واپس بھی لیے ہیں۔

افغان فوج کی اس عارضی پسپائی کو فوجی ماہرین امریکہ کے اچانک انخلا کے فیصلے سے فوجی سپلائی لائنوں میں تعطل یا خلل پیدا ہونے سے جوڑ رہے ہیں۔

جونہی یہ سپلائی لائن بحال ہو گئیں تو یقینا طالبان کو تربیت یافتہ اور جدید اسلحہ سے لیس افغان فوج کی طرف سے مزید سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

افغانستان کی موجودہ فوج جدید خطوط پر بنائی گئی ہے اور وہ تقریباً 20 سال کی امریکی فوجیوں کے زیر نگرانی سخت تربیت کے بعد ایک قدرے قابل اعتماد پیشہ وارانہ فوج بن چکی ہے۔

اس تربیت یافتہ اور جدید اسلحہ سے لیس فوج کی تعداد تقریباً تین لاکھ کے قریب ہے جبکہ طالبان کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق 75,000 کے قریب ہے۔

طالبان کا غیرملکی فوجیوں سے مقابلہ مختلف نوعیت کا تھا جس میں طالبان اپنے ہم وطنوں کے بیرونی قابض غیرمسلم طاقتوں کے لیے جذبات ابھار سکتے تھے مگر اپنے مسلمان افغان ہم وطنوں سے جنگ بیچنا ایک مشکل مرحلہ ثابت ہو سکتا ہے۔

امریکہ نے اس فوج کی تربیت اور اسے جدید اسلحہ سے لیس کرنے میں اور منسلک اداروں کے قیام میں پچھلے 20 سالوں میں تقریباً 143 ارب ڈالرز کی خطیر رقم خرچ کی ہے۔

اس لیے موجودہ فوج امریکی فوجیوں کی غیر موجودگی کے باوجود طالبان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

کیوں کہ یہ فوج موجودہ نظام کا لمبے عرصے سے حصہ ہے تو وہ اس نظام کو اپنی بقا کے لیے بچانے کی پوری کوشش کرے گی کیونکہ اس نظام کے خاتمے سے ان کے اپنے مفادات اور افغان معاشرے میں ان کی موجودہ نمایاں حیثیت ختم ہو سکتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں طالبان کے لیے اور افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مستقبل میں افغانستان میں ایسی حکومت تشکیل پائے جس میں ساری قومیتوں اور سیاسی قوتوں کے نمائندے شامل ہوں جو کہ ایک پائیدار امن کی بنیاد ڈال سکیں۔

کسی ایک قوت یا قومیت کی بالادستی افغانستان میں بدامنی کو جاری رکھے گی جو نہ افغانستان کے لیے اور نہ ہی اس کے ہمسایہ ممالک کے لیے سودمند ہوگی۔

اگر طالبان نے کسی طرح طاقت کے زور پر کابل اور دیگر شہروں پر قبضہ کر بھی لیا تو یہ ایک کمزور حکومت ہوگی جس کی نہ اندرون اور نہ بیرون ملک کوئی پذیرائی ہوگی اور یہ ہر وقت اندرونی و بیرونی خطرات میں گھری رہے گی۔

طالبان کا افغانستان پر مکمل قبضہ پاکستان میں کچھ حلقوں کے لیے تو اطمینان کا باعث ہوسکتا ہے مگر اس فتح سے پاکستان میں متشدد مذہبی عناصر کی حوصلہ افزائی ہو گی اور وہ ریاست پاکستان کے لیے سنجیدہ سلامتی کے مسائل کھڑے کر سکتے ہیں۔

اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت ان متشدد گروہوں میں سرایت کر کے ہمارے لیے سلامتی کے گھمبیر مسائل پیدا کر سکتا ہے۔

اس لیے ہماری کوشش کابل میں طالبان کی مکمل فتح کی امید کرنے کی بجائے ایک ایسی وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل کی کوشش ہونی چاہیے جس میں ساری سیاسی اور نسلی قوتیں شامل ہوں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ