چند دن پہلے کی بات ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ہندو اکثریتی شہر جموں میں ڈوگرہ فرنٹ نامی ایک سخت گیر ہندو تنظیم کے کارکن بینڈ باجے کے ساتھ ایک مصروف ترین سڑک پر جمع ہوئے۔
زعفرانی رنگ کے لباس میں ملبوس یہ کارکن قریب ایک گھنٹے تک بینڈ باجے کی دھن پر ناچتے رہے، ایک دوسرے کو لڈو کھلاتے رہے اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی تصویروں اور ترنگوں کی نمائش کرتے رہے۔
یہ جشن بھارت کی کرونا وائرس پر فتح کا نہیں، ٹوکیو اولمپکس میں کسی تمغے کی جیت کا نہیں اور کسی نئی سائنسی ایجاد کا بھی نہیں تھا بلکہ بھارتی حکومت کے ایک ایسے حکم نامے کا تھا جس پر عمل درآمد سے ہزاروں کی تعداد میں کشمیری نوجوان سرکاری ملازمتوں اور پاسپورٹ کے حصول سے محروم کر دیے جائیں گے۔
اس جشن کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو اکثر کشمیریوں کا یہی سوال تھا کہ کسی سے ناانصافی یا کسی کی بے بسی کا جشن کیسے منایا جا سکتا ہے۔
دراصل بھارتی وزارت داخلہ کے تحت کام کرنے والی کشمیر پولیس کے کرمنل انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ یا سی آئی ڈی نے حال ہی میں اپنی تمام فیلڈ اکائیوں کو ہدایت دی ہے کہ جن کشمیری نوجوانوں پر پتھر بازی میں ملوث ہونے کا الزام ہے انہیں سرکاری ملازمت یا پاسپورٹ کے حصول کے لیے سکیورٹی کلیرنس نہ دی جائے۔
تجزیہ کاروں اور مبصرین کا ماننا ہے کہ 'تاناشاہی پر مبنی' یہ حکم نامہ پانچ اگست 2019 کو کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد اٹھائے جانے والے 'کشمیر مخالف بھارتی اقدامات' کا تسلسل ہے جن کا مقصد کشمیری مسلمانوں کو سختی سے دبانا اور انہیں پشت بہ دیوار کرنا ہے۔آج کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے دو سال مکمل ہو گئے ہیں۔ کچھ مقامی بھارت نواز سیاسی جماعتوں کی اپیل پر یوم سیاہ منایا جا رہا ہے۔ دارالحکومت سری نگر سمیت کشمیر بھر میں سناٹا چھایا ہوا ہے۔ اکثر سڑکیں سنسان ہیں اور لوگ اپنے گھروں تک ہی محدود ہیں۔ لیکن ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی جشن میں مصروف ہے۔
مجموعی طور پر کشمیری عوام کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت نے جس تعمیر و ترقی کی باتیں کی تھیں وہ زمینی سطح پر کہیں نظر نہیں آ رہی ہے لیکن اگر کچھ نظر آیا یا آ رہا ہے تو وہ 'کشمیر مخالف اقدامات' ہیں۔
کشمیری سرکاری ملازمین کو محض اس بنیاد پر برطرف کرنے کا سلسلہ جاری ہے کہ وہ ماضی میں کسی عسکریت پسند یا علیحدگی پسند تنظیم سے وابستہ رہے ہیں۔
پوری وادی میں ڈر کا ایسا ماحول پیدا کر دیا گیا ہے کہ اخبار مالکان نے رضاکارانہ طور پر اپنے اخبارات پر سنسر شپ عائد کر دی ہے۔ وہ خبر جو بھارت کی ناراضگی کا سبب بن سکتی ہے کو بالکل بھی اخبارات میں جگہ نہیں دی جاتی۔
علیحدگی پسندوں کی سیاست پر پچھلے دو سال سے مکمل پابندی عائد ہے۔ حریت کانفرنس کے ایک دھڑے کے چیئرمین میرواعظ مولوی عمر فاروق اپنی رہائش گاہ میں نظر بند ہیں، معمر اور علیل حریت رہنما سید علی گیلانی بھی اپنی رہائش گاہ تک ہی محدود ہیں جبکہ باقی دہلی کی تہاڑ جیل میں بند رکھے گئے ہیں۔
معدنیات اور دوسرے قدرتی وسائل کے ٹھیکے غیر مقامی افراد کو دے دیے گئے جس کے نتیجے میں ہزاروں کشمیری بے روزگار ہو چکے ہیں۔ انتہائی غریب اور پسماندہ طبقہ سمجھے جانے والے خانہ بدوش گجر بکروالوں کو جنگلوں سے نکالنے کی کارروائیاں جاری ہیں۔
شراب کی نئی دکانیں کھولی جا رہی ہیں اور منشیات کے عادی افراد کے گراف میں غیر معمولی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ 'گینگ وار' جیسے سماجی جرائم نے جنم لیا ہے اور خودکشی کے رجحان میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔
سرکاری دفاتر اور تعلیمی اداروں میں بھارتی ترنگے نصب کیے گئے ہیں نیز سرکاری سطح پر تمام تر زور کشمیری طلبہ کے اندر 'بھارت سے محبت' کا جذبہ پیدا کرنے کے اقدامات پر لگایا جا رہا ہے۔
مسلمان ہونے کی سزا
معروف تجزیہ کار اور سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر کے شعبہ قانون کے سابق سربراہ ڈاکٹر شیخ شوکت حسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کی منسوخی کا مقصد ہندو ووٹ بینک کو خوش کرنا تھا۔
'خصوصی آئینی حیثیت صرف کشمیر کو حاصل نہیں تھی۔ یہ حیثیت بھارت کی کچھ ریاستوں کو اب بھی حاصل ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ کشمیر ایک مسلم اکثریتی خطہ ہے لہٰذا ہدف بنا۔
'بی جے پی نے اپنا ووٹ بینک ہندو انتہا پسند سوچ کے اصول پر تیار کیا ہے۔ اسی ووٹ بینک کو خوش کرنے کے لیے کشمیر سے اس کی خصوصی آئینی حیثیت چھینی گئی۔'
تاہم شیخ شوکت حسین کہتے ہیں کہ پانچ اگست 2019 کے نتیجے میں بین الاقوامی سطح پر ایک ایسی فضا قائم ہوئی جس میں بھارتی حکومت گھٹن محسوس کر رہی ہے۔
'بھارت کی چین سے ملنے والی سرحدوں پر تناؤ اسی فیصلے کی دین ہے۔ اس وقت جس طریقے سے کشمیر کو چلایا جا رہا ہے اس کی وجہ سے بھارت از خود بین الاقوامی اداروں یا بین الاقوامی برادری کی نظر میں آ چکا ہے اور بدنام ہو رہا ہے۔'
شیخ شوکت حسین کے مطابق آئین ہند کی دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی کے وقت جو باتیں بھی کہی گئی تھیں وہ سراب ثابت ہوئی ہیں۔
'تعمیر و ترقی کے برعکس کشمیریوں کے احساس محرومی میں اضافہ ہوا۔ ایسا ہونا ہی تھا کیوں کہ وہ غلط بنیادوں پر لیا جانے والا ایک غلط فیصلہ تھا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں کشمیریوں کے دلوں میں مزید تلخی پیدا ہوئی ہے۔'کشمیر میں جگہ جگہ بھارتی ترنگے نصب کرنے کے بارے میں پوچھے جانے پر شیخ شوکت حسین نے بتایا کہ سب سے بڑی بات دلوں کو جیتنا ہے جو کوششیں ہمیں کہیں نظر نہیں آتیں۔
'دلوں کو جیتے بغیر کوئی بھی اقدام اٹھانا ایک وقتی بھرم ہو سکتا ہے۔ ایسے اقدامات سے آبادی مزید مشتعل ہو جاتی ہے۔'
شیخ شوکت حسین نے بتایا کہ کشمیری نوجوانوں کو پتھر بازی میں ملوث ہونے کے الزام میں سرکاری ملازمتوں اور پاپسورٹ سے محروم کرنا قانوناً صحیح نہیں ہے۔
'ایسے فیصلے تب لیے جاتے ہیں جب کسی کا جرم عدالت میں ثابت ہوا ہو۔ محض الزام پر کسی کا پاسپورٹ بند کرنا اور کسی کو ملازمت سے محروم کرنا قانوناً صحیح نہیں ہے۔'
کشمیر کے مفتی اعظم مفتی ناصر الاسلام نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کسی نوجوان کو بچپن کی خطا کی سزا بالغ ہونے پر دینا سراسر ناانصافی ہے۔
'ہمارے کمسن اور چھوٹے بچوں کو آزادی کا مطلب معلوم نہیں ہوتا ہے۔ وہ پتھر کیوں چلاتے ہیں انہیں یہ سمجھ نہیں ہوتی۔ اب جب یہ بچے بالغ ہو جاتے ہیں اور ان کو بنیادی حقوق جیسے ملازمت اور پاسپورٹ سے محض اس بنیاد پر محروم کیا جائے کہ انہوں نے بچپن میں 'ہم کیا چاہتے آزادی' کا نعرہ لگایا تھا یا پتھر چلائے تھے تو ظاہر ہے کہ آپ ان بچوں کے لیے زمین تنگ کر رہے ہیں۔ ہمارے ان نوجوانوں کے دماغ میں 'ڈو آر ڈائی' کے خیالات آ سکتے ہیں۔
'اگر آپ یہاں کے نوجوانوں کو گلے لگانا چاہتے ہیں تو کم از کم ہمدردی کا تو مظاہرہ کریں۔ ان کی سنیں۔ سابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری کہا کرتے تھے کہ وہ کشمیر میں انسانیت کے اصول کو اپنا کر لوگوں کے دل جیتنا چاہتے ہیں۔ اگر یہی وہ انسانیت ہے تو خدا حافظ۔۔ اگر بھارتی حکومت کو کشمیری نہیں بلکہ کشمیریوں کی زمین زیادہ عزیز ہے تو وہ ہمیں ڈومیسائل سرٹیفکیٹ فراہم کرنے کی بجائے باہر سے لوگوں کو بلا کر ہمارے گھروں میں بٹھا دے۔ یا اگر اس کو کشمیری زیادہ عزیز ہیں اور ہمارے دل جیتنا چاہتی ہے تو تاناشاہی پر مبنی اور فرسودہ فرمان جاری کرنا بند کرے۔'
ڈاکٹر شیخ مصطفیٰ کمال کشمیر کی سب سے پرانی بھارت نواز سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے سینیئر رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے چھوٹے بھائی ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ لوگ تو پوری دنیا میں سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرتے ہیں، لیکن کشمیر واحد ایسی جگہ ہے جہاں اختلاف رکھنے والوں کو سرکاری ملازمت اور پاسپورٹ جیسے حقوق سے محروم رکھنے کا باضابطہ فرمان جاری ہوا ہے۔
'آج کہتے ہیں کہ ہمارے ان نوجوانوں کو پاسپورٹ رکھنے اور نوکری کرنے کا حق نہیں ہے کل کو یہ بھی کہہ سکتے ہیں ان کو زندہ رہنے کا بھی حق نہیں ہے۔ 'کشمیریوں کو یہ سزائیں مسلمان ہونے کی وجہ سے دی جا رہی ہیں۔ مسلمان ہونے کی پاداش میں ہی 1947 میں جموں میں ساڑھے تین لاکھ افراد مارے گئے تھے۔ انہیں ہماری ترقی برداشت نہیں ہوتی۔'اخلاقی اور سماجی برائیوں میں اضافہ
مفتی اعظم مفتی ناصر الاسلام کہتے ہیں کہ کشمیر میں پچھلے دو سال کے دوران اخلاقی اور سماجی برائیوں میں زبردست اضافہ دیکھا گیا ہے۔
'پانچ اگست کے بعد یہاں کوئی تعمیر و ترقی تو نہیں ہوئی۔ اب جو کچھ نیا ہوا وہ اخلاقی انحطاط ہے۔ منشیات کا استعمال اور شراب نوشی عام ہونے لگی ہے۔ خودکشی اور طلاق کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ درج ہوا ہے۔
'ہماری ایک نوجوان نسل گولیوں اور پیلٹوں کی نذر ہوئی ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اگر کوئی تدارک نہ کیا گیا تو ہماری موجودہ نوجوان نسل منشیات کی نذر ہو سکتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق کشمیر میں 70 ہزار افراد نشے کی لت میں مبتلا ہیں۔ لیکن دوسرے اداروں کے اعداد و شمار زیادہ ہی پریشان کن ہیں۔ ہمارے ہاں لگ بھگ اڈھائی لاکھ افراد اس لت کے شکار ہیں۔
'اگر تدارک نہ کیا گیا تو یہ ڈھائی لاکھ افراد مزید پانچ تا چھ لاکھ لوگوں کو منشیات کا عادی بنا سکتے ہیں اور نتیجتاً کشمیر کے ہر خاندان میں ہمیں ایک ڈرگ ایڈکٹ ملے گا۔
'حکومت دوسرے غیر ضروری معاملات میں مداخلت تو کرتی ہے لیکن منشیات کے استعمال جیسے سنگین مسئلے سے نمٹنے کے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے جاتے۔ ہمارے ہاں گینگز نہیں ہوتے تھے۔ بدقسمتی سے اب پڑھے لکھے نوجوان ان مبینہ گینگز کا حصہ بن رہے ہیں۔'
مفتی ناصر الاسلام کا مزید کہنا تھا کہ پانچ اگست کے بعد کشمیر میں مایوسی نے ڈیرہ ڈالا اور ان کے بقول مایوسی قوموں کے زوال کا سبب بنتی ہے۔
'میں اپنے لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ قرآن مجید میں مایوسی کو کفر کے زمرے میں رکھا گیا ہے لہٰذا میری اپیل ہے کہ مایوسی چھوڑ کر اپنے بقا کی جدوجہد میں مصروف رہیں۔'
جمہوریت کا قتل اور آئینی فراڈ؟
ڈاکٹر شیخ مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ پانچ اگست 2019 کے فیصلے 'جمہوریت کا سفاکانہ قتل' اور ایک 'آئینی فراڈ' تھا۔
'یہی وہ دن تھا جب دو سال پہلے بھارتی پارلیمان کے اندر جمہوریت کا سفاکانہ قتل کیا گیا۔ لوگوں کو اعتماد میں لیے بغیر نہ صرف کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت منسوخ کی گئی بلکہ ایک تاریخی ریاست کو دو حصوں میں منقسم کر دیا گیا۔
'یہ ایک آئینی فراڈ تھا۔ اس آئینی فراڈ کا مقصد یہاں کے مسلمانوں کو پشت بہ دیوار کرنا تھا۔ ہر ملک یا ریاست کی باگ ڈور اکثریت کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ ان کو یہاں مسلمانوں کی حکومت کرنا برداشت نہیں ہوتا تھا جس کا ثبوت پانچ اگست کے فیصلے ہیں۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
'اگر کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت یہاں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھی تو یہاں یونیورسٹیاں، ہسپتال اور سڑکیں کیسے بنیں؟ بی جے پی میں اس وقت غالب رہنما وہ ہیں جو انتہائی فرقہ پرست ہیں۔ یہ لوگ جھوٹ بولنے اور مسلمانوں کو کسی نہ کسی طریقے سے ہراساں کرنے کے ماہر ہیں۔'
کشمیری تاجروں کی سب سے پرانی انجمن کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر شیخ عاشق حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں پچھلے دو سال کے دوران زمینی سطح پر کوئی بڑی معاشی تبدیلی نظر نہیں آئی اور کشمیری تاجر برادری کی حالت جوں کی توں ہے۔
'پانچ اگست 2019 کے بعد ہمیں کام کرنے کے صرف دو یا چار مہینے ملے ہیں۔ بھارت نے تو پہلا لاک ڈاؤن 2020 کے مارچ میں کرونا وائرس کی وجہ سے دیکھا لیکن ہم تو پانچ اگست 2019 سے لاک ڈاؤن میں ہی ہیں۔ جب بھی یہاں لاک ڈاؤن ہوتا ہے تو ہمارا روزانہ کی بنیاد پر 250 کروڑ روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ اگست 2019 سے اگست 2020 تک ہمارا 40 ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا تھا۔ ہر لاک ڈاؤن میں ہمارے پانچ سے چھ لاکھ افراد، جو تجارت یا دیگر نجی سیکٹروں سے وابستہ ہیں، کا روزگار متاثر ہو جاتا ہے۔'
'ہم نے پچھلے سال اپنی تمام تر تشویش بھارتی حکومت کے سامنے رکھی۔ ہم نے اس سے کہا کہ کشمیر کی تاجر برادری کو ایک جامع پیکج کی ضرورت ہے تاکہ کاروبار کی بحالی ممکن ہو سکے لیکن ابھی تک کوئی مدد نہیں آئی ہے۔'