یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں
اگست ہر سال آتا ہے اور بھارت اور پاکستان کے کروڑوں عوام اپنی اپنی آزادی کا جشن مناتے ہیں۔ لیکن کشمیری برسوں سے ان کے جشن دیکھ کر آہیں بھرتے ہیں، سینہ پیٹتے ہیں، سرگوشیوں میں دونوں کو کوستے ہیں اور ’غلامی کی زندگی‘ کا مظاہرہ کرنے کے لیے خاموش احتجاج بھی کرتے رہتے ہیں۔ اس سال البتہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جشن آزادی کا منظر کیسری رنگ میں لپٹا ہوا نظر آ رہا ہے۔
جہاں گذشتہ دو برسوں سے ایک کروڑ سے زائد لوگ قید و بند میں رکھے گئے ہیں، دس لاکھ سے زائد بھارتی فوجی سڑکوں پر ہر آنے جانے کو گھورتے رہتے ہیں اور آئے روز چار سے پانچ نوجوانوں کو ’دہشت گردی‘ کا لیبل لگا کر ہلاک کر دیا جاتا ہے، وہاں سب سے لمبے ترنگے لہرانے اور جشن منانے کے مناظر پھر دنیا کو دکھانے کے لیے نارملسی کا ڈراما رچایا جا رہا ہے۔
اس بار ہندوتوا قیادت نے یوم آزادی کی تیاریوں پر خاص توجہ مرکوز کی ہے۔ مثال کے طور پر سکول پچھلے دو سال سے بند رکھے گئے تھے مگر بیشتر طلبہ اور اساتذہ کو اب احکامات دیئے گئے ہیں کہ وہ سکولوں میں ترنگا لہرا کر آزادی کا جشن منائیں گے۔ گو کہ بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ تو ہوگی کہ وہ کم از کم ایک دن کے لیے ہی سہی، قید سے آزاد کر دیئے گیے ہیں لیکن ان کے دلوں کے اندر اس درد کو بھی محسوس کرنا ہوگا جس کی لکیریں محکوم قوموں کے بچوں کے چہروں پر ہمیشہ عیاں رہتی ہیں۔
15 اگست بھارت میں ویسے عام تعطیل کا دن ہوتا ہے مگر جموں و کشمیر میں سرکاری اداروں کے سربراہوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اس روز جشن آزادی میں اگر شامل نہ رہے تو ان کو اپنے روزگار سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔
چھوٹے ملازمین پر نوکری سے محروم ہونے کی تلوار ایسی لٹکائی گئی ہے کہ وہ جذباتی کشمکش میں مبتلا نظر آ رہے ہیں۔
اس سے قبل کئی ملازمین کو سوشل میڈیا پر پوسٹ لگانے یا آزادی نوازوں کے ساتھ رشتوں میں بندھنے کے جرم میں ملازمت سے فارغ کیا گیا یا بعض کو جیلوں میں بند رکھا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی خوف سے اسے رپورٹ کرنے سے قاصر ہیں۔
اگرچہ ماضی میں غیر شعوری طور پر کم لوگ جشن آزادی کی پریڈ اور ترنگا لہرانے کی رسم میں شامل ہوا کرتے تھے لیکن ہندوتوا کی زور زبردستی سے عوام کے اندر ایک لاوا پک رہا ہے جیسے ایک ہفتہ قبل 5 اگست کو عوامی ہڑتال توڑنے کے لیے پولیس اور سرکاری اہلکاروں نے دکانوں کے تالے توڑے، دوکان داروں کے گھروں میں جا کر ان پر اگر وہ دوکان نہیں کھولتے انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت کیس دائر کرنے کی دھمکی دی۔ بھلا ہو عالمی میڈیا کا کہ جس نے اس کو شامل خبر کیا ورنہ تو مقامی میڈیا کو دہشت کے سائے میں سلا دیاگیا ہے۔
سرائے بازار کے غلام رسول کہتے ہیں کہ ’ان کے بیٹے کو پو پھٹنے سے پہلے ہی سرکاری اہلکار اپنے ساتھ لے گئے اور دوکان کھولنے پر مجبور کردیا۔‘
پانچ اگست کو کسی آزادی پسند تنظیم نے ہڑتال کی کال نہیں دی تھی مگر عوام نے خود ہی ہڑتال کر کے احتجاج کا اظہار کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چند روز سے کشمیر کے اطراف میں جماعت اسلامی کے سینکڑوں کارکنوں کے مکانات پر چھاپے مارے جا رہے ہیں تاکہ عوام میں دہشت پھیلا کر انہیں اپنے حقوق کے مطالبات سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا جاسکے۔
حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے بعض کانفرنسوں میں یہ مفروضہ پیش کیا ہے کہ جماعت اسلامی والے کشمیری نوجوانوں میں مذہبی انتہا پسندی کو ہوا دے رہے ہیں۔
طلبا ہوں، دکاندار ہو، مذہبی یا سیاسی کارکن ہو، ہر کوئی اس وقت ہندوتوا کی پالیسی کی زد میں ہے جس کا اشارہ کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے کشمیر میں ایک تقریر کے دوران بھی دیا۔
بقول انسانی حقوق کے کارکن شمس الرحمان ’جموں و کشمیر کی ایک کروڑ آبادی کو زور زبردستی ہندوستانی بنانے کی پالیسی پر کام ہو رہا ہے مگر دل جیتنے کی بجائے دل آزاری ہو رہی ہے جس سے ہندوتوا کی مذہبی جنونیت اور منافرت کا احساس ہوتا ہے۔ اب تو ہندوستان میں وہ لوگ بھی پاکستانی پرچم لہرا کر اس کے جشن آزادی میں حصہ لینے لگے ہیں جو پاکستان کا نام بھی نہیں لیتے تھے۔ ہندوتوا کا شکریہ کہ سنتالیس کے اس دور کو دوبارہ زندہ کیا جب مسلمان اپنا ملک بنانے کے جذبے سے سرشار تھے۔‘
بیشتر لوگوں کو شکایت ہے کہ جب برصغیر کے لوگ آزادی کا جشن مناتے ہیں تو کشمیر کو ایک جیل خانہ کیوں بنایا جاتا ہے؟ ڈاؤن ٹاؤن سری نگر کے بلال کہتے ہیں کہ ’نہ تو ہمیں پاکستان کے جشن آزادی میں شامل ہونے کی اجازت ہے اور نہ ہندوستان کے خلاف احتجاج کرنے کا حق ہے۔‘
پاکستان کا ’فسانہ کشمیر‘ ایک اور کہانی ہے جو اب کشمیریوں کی آزادی کے لیے چوراہے پر ہارن بجانے تک محدود ہوگئی ہے۔ اگلے سال تک اگر ہم زندہ رہے تو دیکھیں گے کہ کیا ہارن بجانے پر پابندی لگ گئی ہوگی یا کوئی اور طریقہ احتجاج ایجاد ہوا ہوگا۔