بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے مرکزی شہر سری نگر میں تاریخی جامع مسجد کے قریب نقشبند صاحب علاقے میں حضرت خواجہ بہاؤالدین نقشبندی سے منسوب زیارت کے صحن میں واقع کشمیریوں کے پہلے ’مزار شہدا‘ پر آج مکمل خاموشی ہے۔ کتبوں سے آراستہ قبریں اور قطار در قطار قبروں کے بغل میں واقع آستانہ عالیہ کے میناروں سے کبوتروں کے پھڑ پھڑانے کی آوازیں اس خاموشی اور سکوت کو توڑ رہی ہیں جو آج اس تاریخی قبرستان کا مقدر بن چکی ہے جہاں عموماً آج کے دن خاصی گہما گہمی ہوا کرتی تھی۔
اس مزار میں وہ لوگ آسودۂ خاک ہیں جو1931 میں آج ہی کے دن ہندو ڈوگرہ مہاراجہ کی فوج کے ہاتھوں اس وقت ہلاک ہوگئے جب وہ ڈوگرہ مہاراجہ کے خلاف تقریر کرنے کی پاداش میں گرفتار کیے گئے ایک غیر مقامی شہری کے مقدمہ کی کارروائی کا مشاہدہ کرنے کے لیے سری نگر کے سینٹرل جیل کے باہر جمع تھے۔
’مزار شہدا‘ پر گذشتہ برس تک 13 جولائی کو باضابطہ سرکاری سطح پر تقریب منعقد ہوا کرتی تھی جس دوران ان ’شہدا‘ کو گارڈ آف آنر پیش کرنے کے علاوہ قبروں پر گل باری بھی کی جاتی تھی لیکن آج پہلی دفعہ یہ تاریخی مزار خاموش ہے کیونکہ گذشتہ برس پانچ اگست کو بھارت کی جانب سے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اس کو وفاق کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کیے جانے کے بعد مقامی انتظامیہ نے سرکاری کلینڈر سے 13 جولائی کی تعطیل حذف کرکے عملی طور ’یوم شہدا‘ کا سرکاری اہتمام ترک کردیا۔
13 جولائی کا تاریخی پس منظر کیا ہے؟
محققین اور مورخین کا ماننا ہے کہ 1931 میں کشمیر میں ہندو ڈوگرہ شاہی کے خلاف عوامی تحریک منظم ہونا شروع ہوچکی تھی اور عوامی بیزاری اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ اس حوالے سے سری نگر نشین سرکردہ محقق اور مورخ محمد یوسف ٹینگ نے انڈیپنڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈوگرہ شاہی کے خلاف ریڈنگ روم پارٹی کے پلیٹ فارم سے ایک عوامی تحریک نے منظم شکل اختیار کر لی تھی اور اسی پلیٹ فارم سے جون اور جولائی میں کچھ سرکار مخالف جلسے بھی ہوئے تھے۔
انہوں نے کہا: ’13جولائی کو سینٹرل جیل سری نگر میں بھارتی ریاست اترپردیش کے امروہہ سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان کے مقدمہ کی سماعت ہونا تھی جسے 21 جون کو خانقاہ معلیٰ سری نگر کے مہاراجہ مخالف جلسہ میں اشتعال انگیز نعرے بازی کے لیے غداری اور بغاوت کے الزامات کے تحت 25 جون کو گرفتار کیا گیا تھا۔‘
یوسف ٹینگ کے مطابق عبدالقدیر نامی مذکورہ نوجوان یورک شائر ریجمنٹ کے میجر ایبٹ کا خانساماں تھا اور میجر صاحب کے ساتھ نسیم باغ کی ایک ہاﺅس بوٹ میں مقیم تھا۔
یوسف ٹینگ کہتے ہیں کہ 13جولائی کو صبح سویرے ہی شہر میں یہ افواہ پھیل گئی کہ آج عبد القدیر کو پھانسی کی سزا سنائی جائے گی لہٰذا لوگ جوق در جوق سنٹرل جیل کی طرف چل پڑے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں پر سات ہزار لوگ اکٹھے ہوگئے۔ اتنے میں نماز ظہر کا وقت ہوگیا۔ ایک شخص نے جیل سے کافی دور ایک دیوار پر چڑھ کر اذان دینی شروع کردی۔ پھر گولیاں چلنی شروع ہوگئیں جس کے نتیجے میں 23لوگ لقمہ اجل بن گئے جبکہ درجنوں لوگ زخمی ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں اور زخمیوں کو جلوس کی صورت میں جامع مسجد لایا گیا جہاں پر لوگوں کا اژدہام جمع ہوگیا۔تین روز میتوں کی تجہیز و تکفین ممکن ہوئی اور نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد لوگوں کے ایک بڑے ہجوم نے میتوں کو نقشبند صاحب زیارت پہنچایا جہاں انہیں دفن کیا گیا تاہم اس دوران احتجاجی لہر پورے کشمیر میں پھیل چکی تھی اور بعد میں ہندواڑہ، سوپور اور پلوامہ میں بھی کئی لوگ ہلاک کیے گئے۔
یوسف ٹینگ کا ماننا ہے کہ اس تاریخ ساز واقعے کے چند ماہ بعد جموں وکشمیر کے عوام نے فرقہ بندی اور گروہ بندی سے اوپر اٹھ کر قوم کو منظم کرنے کی کوشش کی جو مسلم کانفرنس کی صورت میں بعد ازاں عوامی تحریک بن گئی لیکن 1938میں مسلم کانفرنس کے بطن سے شیخ محمد عبداللہ کی سربراہی میں نیشنل کانفرنس کا ظہور ہوا تاکہ سبھی طبقوں کو اس تحریک کے ساتھ جوڑا جاسکے۔
ڈوگرہ شاہی کا پس منظر
جموں کے ڈوگرے سکھ لاہور سلطنت کی فوج میں شامل تھے۔ انہی میں سے ایک فوجی جنرل گلاب سنگھ نے لاہور سلطنت کے خلاف برطانیہ کا ساتھ دیا تھا اور 75 ہزار نانک شاہی سکھوں اور چند پشمینہ شالوں کے عوض گلاب سنگھ کو کشمیر کا مہاراجہ بنایا گیا تھا۔یہ معاہدہ 16مارچ 1846 امرتسر میں طے پایا تھا۔ ڈوگرہ مہاراجوں نے سوسال تک کشمیر پر حکومت کی اور مہاراجہ ہری سنگھ کے دور میں ہی 13 جولائی کا واقعہ پیش آیا۔
قومی ہیروز کی یاد میں سرکاری تعطیل
یہ وہ دور تھا جب سابق وزیراعلیٰ اور بھارتی پارلیمان کے موجودہ رکن فاروق عبداللہ کے والد شیخ محمد عبداللہ مہاراجہ کے شخصی راج کے خلاف تحریک چلارہے تھے۔ چنانچہ 1947میں تقسیم ہند کے بعد جب کشمیر کا ایک حصہ بھارت کے زیرانتظام آگیا تو شیخ محمد عبداللہ اسی کشمیر کے حکمران بن گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محمد یوسف ٹینگ کا اس ضمن میں کہناتھا: ’شیخ محمد عبداللہ نے 1947 میں 1931 کے ’شہدا‘ کی یاد میں ’یوم شہدا‘ منانے کا فیصلہ لیا اور یوں سرکاری گزٹ میں 13 جولائی کو ’یوم شہدا‘ کی حیثیت ملی۔ بعد ازاں ہر سال 13جولائی کو مزار ’شہدا‘ پر سرکاری تقریبات اور ’شہدا‘ کو مقامی پولیس کے ذریعے گن سلیوٹ دینے کی روایت قائم ہوئی جو زمانے کے اتار چڑھاؤ کے باوجود گذشتہ برس تک جاری رہی۔‘
جمہوریت کی خاطر قربانی
کشمیر نشین ہندنواز سیاسی حلقے کہتے ہیں کہ ان ’شہیدوں‘ نے ڈوگرہ مہاراجوں کے شخصی راج کے خلاف مزاحمت کے دوران قربانی دی جسکی بدولت کشمیر ’آزاد‘ ہوکر ایک جمہوری ریاست بن گیا۔
نیشنل کانفرنس کے سینیئر لیڈر اور ترجمان عمران نبی ڈار اس ضمن میں کہتے ہیں کہ یہ جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد تھی اور ان ’شہدا‘ نے اپنی جانیں دے کر عوام کو شخصی راج سے نجات دلادی ۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کا موقف بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ پارٹی ترجمان اور نوجوان لیڈر طاہر سعید کہتے ہیں کہ13 جولائی 1931 کے واقعہ کا کشمیر کی تاریخ میں ایک اہم کردار ہے۔ کشمیری عوام نے جمہوری اور انسانی حقوق کے لیے جو جدوجہد کی۔ اس کا آغاز 13 جولائی کے خونین واقعہ سے ہوا تھا اور اسی واقعہ نے اس تحریک کو جلا بخشی جو بالآخر جمہوری جموں وکشمیر کے قیام پر منتج ہوئی۔
موجودہ تحریک کا تسلسل
تاہم ہند مخالف سیاسی حلقے کہتے ہیں کہ کشمیریوں نے ہر دور میں غیرمقامی حکمرانوں کے خلاف مزاحمت کی ہے اور 13 جولائی کے ’شہدا‘ مزاحمت کے چار سو سالہ تسلسل کی ایک کڑی ہے۔ ایک ہند مخالف سیاسی لیڈر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ کشمیر کی موجودہ تحریک دراصل 1931 تسلسل ہے اور ان ’شہیدوں‘ نے اقتدار یا کرسی کے لیے نہیں بلکہ عوام کی سرداری کے لیے جان دی تھی اور جب عوام کو سرداری ملنا باقی ہے تو مشن کو مکمل کیسے تصور کیا جائے۔
مسئلہ کشمیر پر کئی کتابوں کے مصنف اور سرینگر نشین سرکردہ تجزیہ کا رپی جی رسول بھی مانتے ہیں کہ یہ قوم کے اجتماعی ضمیر اور شعور کی آواز ہے اور دراصل اس غلامی سے خاتمہ کی سعی ہے جس میں کشمیری گذشتہ چار سو سال سے جکڑے ہوئے ہیں۔ ان کا کہناتھا: ’اس سے کسی کو اختلاف نہیں کہ موجودہ تحریک دراصل 31 کا تسلسل ہے کیونکہ حالات ان لوگوں کے بدلے نہیں ہیں جن کے لیے اس وقت وہ عوامی تحریک شروع کی گئی تھی۔‘
’شہدا‘ کے اصل وارث کون؟
1931 میں جو لوگ سرکاری پولیس کے ہاتھوں مارے گئے تھے انہیں ہند مخالف اور ہند نواز سبھی ’شہید‘ کہتے تھے تاہم مبصرین مانتے ہیں کہ وراثت کے اس جھگڑے کی اصل وجہ دراصل ان ’شہدا‘ کے تئیں عوام کے دلوں میں موجزن وہ حرمت اور تعظیم ہے جس کا وہ برملا اظہار کرتے آئے ہیں۔
پی جی رسول کا کہنا تھا: ’چونکہ یہ تحریک بڑی تھی، اس لیے سب اس کے حصہ دار بن گئے لیکن یہ ان کی وجہ سے قائم نہیں ہے بلکہ اس کی اپنی ایک مضبوط اور منفرد تاریخ ہے اور یہ عوام کے لاشعور کا حصہ بن چکی ہے اور وہی بنیادی طور ان ’شہدا‘ کے وارث بھی ہیں۔‘
کل کے ہیرو آج کے ویلن
جموں کے ہندو ڈوگرہ نسل سے ہیں اور ڈوگرہ شاہی کے صد سالہ دور کو سابق ریاست جموں وکشمیر کا سنہرا دور کہتے ہیں۔ حکمران جماعت بی جے پی ہر سال ستمبر میں مہاراجہ ہری سنگھ، جنہیں 13جولائی کی ہلاکتوں کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے، کی یوم پیدائش پر جشن مناتی ہے۔ جموں کشمیر کے اقتدار میں شریک ہوتے ہی بی جے پی نے سابق قانون سازیہ میں ہری سنگھ کے یوم پیدائش پر سرکاری تعطیل کی قرارداد منظور کروا لی۔
گوکہ تاحال ہری سنگھ کا یوم پیدائش سرکاری تعطیل قرار نہیں پایا تاہم گذشتہ برس پانچ اگست کوجموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور ریاست کو وفاق کی زیر انتظام دو اکائیوں میں تقسیم کرتے ہی پہلی فرصت میں نہ صرف 13 جولائی کی سرکاری تعطیل ختم کردی بلکہ شیخ محمد عبداللہ کے یوم پیدائش کی تعطیل بھی کلینڈر سے حذف کر دی گئی۔
بی جے پی کا ماننا ہے کہ 13جولائی کے ہلاک ہونے والے ’شہید‘ نہیں بلکہ غدار اور ویلن تھے جو حکومت کے خلاف بغاوت کے مرتکب ہوچکے تھے۔ اتنا ہی وہ اس تحریک کو بھی غداری مانتے ہیں جو ڈوگرہ شاہی کے خلاف 13 جولائی 1931 کے بعد شروع ہوئی تھی۔بی جے پی کے سینیئر ترین لیڈر کویندر گپتا کہتے ہیں: ’ہم تو اُن کو ’شہید‘ نہیں مانتے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’چونکہ جموں وکشمیر کی سیاست پر کشمیر نشین سیاسی جماعتوں کا غلبہ رہا تو انہوں نے مہاراجہ ہری سنگھ کو ویلن کے طور پروجیکٹ کرنے کی کوشش کی حالانکہ ویلن وہ نہیں بلکہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اُن کے خلاف بغاوت کی اور اب اگر اس دن کو منانے کی روایت ختم کی گئی تو یہ مہاراجہ ہری سنگھ کے ساتھ دہائیوں تک ہوئی زیادتی کا ازالہ ہے۔‘
کویندر گپتا کا ماننا ہے کہ ڈوگرہ دور میں نہ صرف جموں وکشمیر کی وسعتوں میں اضافہ ہوا بلکہ بھارت کے ساتھ الحاق بھی مہاراجہ ہری سنگھ کی ہی دین ہے اور جس جمہوریت کی آج باتیں کی جارہی ہیں یہی اسی الحاق کے طفیل ہی جموں وکشمیر میں وارد ہوسکی۔
بی جے پی کا موقف اپنی جگہ لیکن جموں کے غیر جانبدار مبصرین یہ دلیل ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ جموں نشین سرکردہ صحافی اور معروف انگریزی اخبار ’کشمیر ٹائمز‘کی مدیر مسئول انورا دھابھسین جموال کا ماننا ہے کہ 1931کے ’شہدا‘ کو کسی خاص مذہب یا خطے کے ساتھ جوڑنا صحیح نہیں ہوگا۔ان کا کہنا تھا: ’یہ بی جے پی کا بیانیہ ہوسکتا ہے لیکن جموں کے عوام کا نہیں۔13 جولائی کا دن جموں وکشمیر کے سبھی خطوں کو جوڑتا تھا کیونکہ اس دن کے طفیل شخصی راج کے خلاف جو تحریک شروع ہوئی، اُس میں کشمیری ہی نہیں بلکہ جموں صوبہ کے وہ دبے کچلے لوگ بھی شامل تھے جنہیں مہاراجہ کے عتاب کا سامنا تھا اور اسی دن سے جمہوریت کے بحالی کے نظریہ کی شروعات ہوئی۔ ‘
کیا تاریخ مٹ جائے گی؟
ہند نواز سیاسی خیمہ کا ماننا ہے کہ بی جے پی کشمیر کی شناخت اور تاریخ مٹانے کے درپے ہیں۔
نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی ’یوم شہدا‘ کی سرکاری تعطیل منسوخ کرنے کو پانچ اگست 2019 کو لیے گئے فیصلوں کا ہی تسلسل مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی ان تمام نشانیوں کو ختم کرنے کے درپے ہے جن کا تعلق براہ راست کشمیری عوام کی جدوجہد سے ہے۔
اس ضمن میں نیشنل کانفرنس کے ترجمان عمران نبی ڈار کہتے ہیں کہ ’یوم شہدا‘ پر سرکاری تعطیل اس لئےختم کی گئی تاکہ عوام اپنی تاریخ، جدوجہد اور ہیروز کو بھول جائیں۔ موجودہ حکومت کشمیریوں کے ہیروز کو ویلن کے طور پیش کرنے کی کوشش کرہی ہے وہیں۔ عوام میں ’شہدا‘ اور ان کی قربانیوں کے تئیں زیادہ عزت، احترام اور عقیدت بڑھ رہی ہے۔‘
ان کامزید کہنا تھا: ’ان ’شہدا‘ نے جس عظیم مقصد کے لیے قربانیاں دی تھیں، تاریخ کے پہیے نے ہمیں ایک بار پھر وہیں لاکر کھڑا کیا ہے اور 13 جولائی کے ’شہدا‘ کا خون ہمیں زور زور سے پکار رہا ہے کہ لہو ہمارا بھلا نہ دینا۔‘
غیر جانبدار مبصرین بھی مانتے ہیں کہ تاریخی اہمیت کے حامل دنوں کی علامتی سرکاری تعطیلات منسوخ کرنے سے تاریخ نہیں مٹتی ہے۔ انو رادھا بھسین جموال کہتی ہیں: ’عوامی تاریخ اور عوامی جدوجہد کو نکال کر جموں وکشمیر کی شناخت ختم کرنا بی جے پی اور اُس آر ایس ایس کا ایجنڈا تھا جو تب بھی مہاراجہ کے حامی تھی تاہم جذبات کبھی ختم نہیں ہوتے ہیں کیونکہ یہ علامتی ہوتے ہیں اور اگر جذبات کو ختم کرنا ہی ہے توعلامات کے ساتھ جڑے جذبات کی وجوہات کو ایڈرس کرنا ہوتا ہے لیکن یہاں وجوہات کو ایڈرس نہ کیا گیا بلکہ وجوہات مزید گہری ہوگئیں۔ ‘
پی جی رسول اس سے بھی ایک قدم آگے نکل کر کہتے ہیں کہ تاریخ اور اس عوامی تحریک کے اَن مٹ نقوش مٹانےکی کوشش ناکام ہی نہیں ہوگی بلکہ تہذیبی اور نظریاتی ٹکراؤ میں تبدیل کرکے اب اس تحریک اور تاریخ کو نئی زندگی بخشی گئی۔ ان کا کہناتھا: ’لوگ اپنے روٹس اور تشخص کو ڈھونڈ رہے ہیں۔زخم تازہ کردیے گئے۔ دفعہ 370 کے خاتمہ کے بعد اس تاریخی دن کو قصہ پارینہ بنانے کی کوشش کرکے کشمیری عوام کو احساسِ شکست سے دوچار کرنے کی سعی کی گئی تاہم اس سے بیزاری بڑھے گی اور یوں تاریخ اور تحریک دونوں توانا ہوں گے۔‘
تاہم یوسف ٹینگ اس دلیل سے اتفاق نہیں رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ‘عوام کا حافظہ کمزور ہوتا ہے۔علامتی ہی سہی، لیکن یہ دن کم ازکم ہمیں یاد دلاتا ہے کہ 1931 میں لوگوں نے ہماری آزادی کے لیے قربانیاں دی ہیں اور اگر یہ دن منانے کا تسلسل ختم کیاجاتا ہے تو ہم شہدا کو بھی بالکل اُسی طرح بھول جائیں گے جس طرح ہم تحریک آزادی کشمیر کے اصل سرخیلوں صدر الدین شال، غلام احمد عشائی وغیرہ کو بھول چکے ہیں جنہوں نے نہ صرف 1931 کی تحریک کی بنیاد رکھی تھی بلکہ شیخ محمد عبداللہ کو متعارف کرانے والے بھی وہی لوگ تھے۔‘
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا آج کا خاموش مزار شہدا ہمیشہ کے لیے کشمیری تاریخ کے اس اہم ترین باب کو عوام کے حافظہ سے محو کرکے بستہ فراموشی کی نذر کردے گا یا عوامی حافظہ کا حصہ بن کرنسل در نسل اُسی طرح منتقل ہوتا رہے گا جس طرح یہ آج تک منتقل ہوتا رہا ہے ۔