افغانستان میں طالبان کے کنٹرول میں آنے کے بعد سے جہاں شہر زیادہ تر پرامن ہیں، وہیں شہری خوف میں مبتلا ہیں اور کئی جگہوں سے اشیا خردونوش، پیٹرول اور یہاں تک قندھار میں تجارت میں افغانی کرنسی نہ استعمال ہونے کی اطلاعات ہیں۔
اتوار کو طالبان کے ملک کے دارالحکومت کابل پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد انڈپینڈٹ اردو نے افغانستان کے شہروں میں مقیم افراد سے رابطہ کیا تاکہ جانا جا سکے کہ وہاں زمینی حالات کیا ہیں۔
صوبہ ہلمند میں ایک عالمی ادارے سے وابستہ صحافی عمر لمر سے صورتحال معلوم کی تو ان کا کہنا تھا کہ شہری خوف زدہ ہیں۔
کابل
عمر نے بتایا کہ اس وقت کابل میں زیادہ تر لوگ اپنے گھروں تک محدود ہیں اور صورت حال غیر یقینی ہے۔
ان کے بقول چند مقامات پر طالبان کی جانب سے لوگوں پر مار پیٹ کرنے کی بھی اطلاعات ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ شہر کابل میں حکومتی اداروں کی حفاظت پر طالبان نے اپنے رکن متعین کردیے ہیں اور شہر میں مسلح جنگجوؤں کا گشت بھی جاری ہے۔
عمر کے بقول: ’طالبان کی طرف سے اعلان کیا گیا تھا کہ تمام سرکاری اہلکار اور عہدیدار اپنے دفاتر پہنچ جائیں، لیکن انہوں نے خواتین کو کام کرنے کی اجازت نہیں دی۔‘
انہوں نے بتایا: ’طالبان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ خواتین کے کام کے حوالے سے لائحہ عمل کا اعلان تین روز کے بعد کیا جائے گا۔‘
طالبان کے آنے کے بعد افغانستان میں ذرائع ابلاغ کے اداروں نے کام بند کردیا تھا، مگر ’اب کچھ اداروں نے کام شروع کردیا ہے، جن کی نگرانی طالبان کررہے ہیں۔‘
عمر نے بتایا کہ ملک میں سرکاری ٹیلی ویژن اور ریڈیو بھی بند ہے اور طالبان کا ایک ریڈیو چینل شریعت کی آواز (شریعت غژ) کے نام سے چل رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کابل میں انہوں نے دیکھا کہ کچھ صحافیوں نے اپنا کام شروع کردیا ہے اور وہ لوگ نہ صرف کام کر رہے ہیں بلکہ شہر میں طالبان سے انٹرویوز بھی لے رہے ہیں۔
لشکرگاہ
انہوں نے بتایا کہ ہلمند کے دارالحکومت لشکر گاہ پر جب طالبان کی پیش قدمی ہورہی تھی تو شہر میں بہت خوف پھیل گیا تھا اور شہری ڈر رہے تھے کہ طالبان آکر انہیں قتل کردیں گے یا گھروں کا سامان لوٹ لیں گے۔
عمر کہتے ہیں کہ لڑائی کے دوران ہلمند میں اشیا خورد ونوش کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوگیا تھا۔ تیل، آٹا، گیس، خشک میوہ جات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا۔
انہوں نے کہا کہ ’اس وقت ماحول ایسا ہوگیا ہے کہ سب لوگ گھروں میں قید ہوگئے اور کوئی بھی باہر نکلنےکو تیار نہیں تھا۔ تاہم اب صورت حال معمول پر آرہی ہے۔‘
عمر کہتے ہیں کہ افغان سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان لڑائی شروع ہونے پر جو لوگ ہلمند اور لشکر گاہ چھوڑ چکےتھے اب واپس آرہے ہیں۔ کاروبار زندگی چل رہا ہے اور اشیا کی قیمتوں میں بھی کمی آرہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا مزید کہنا تھا کہ پہلے جو پیٹرول فی لیٹر 65 سے 70 افغانی میں مل رہا تھا اب 30 افغانی تک پہنچ گیا ہے۔
عمر کے بقول شہر میں ایک افواہ چل رہی ہے کہ طالبان نے داڑھی رکھنے اور بڑا موبائل شہر میں لانے پر پابندی عائد کردی ہے، تاہم اس کی ابھی تک تصدیق نہیں ہوئی ہے۔
عمر کے مطابق لشکر گاہ پر قبضے سے پہلے لوگوں کو طالبان کی طرف سے دھمکیاں بھی مل رہی تھیں۔ قبضے کے بعد شہر میں کچھ دن لوٹ مار جاری رہی، جس میں آہستہ آہستہ کمی ہورہی ہے۔
ہلمند میں افغان فورسز کی کئی ہفتوں کی شدید مزاحمت کے بعد چار اگست کو صوبائی دارالحکومت لشکرگاہ طالبان کے کنٹرول میں آگیا تھا۔
قندھار
قندھار میں شہریوں کا کہنا ہے کہ وہاں حالیہ دنوں میں کوئی جھڑپ نہیں ہوئی ہے اور امن وامان کی صورت حال بہتر لیکن اقتصادی حالت خراب ہے۔
قندھار کے رہائشی رحمت اللہ نورزئی نے انڈپینڈنٹ اردو سے فون پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ طالبان کے آنے سے پہلے یہاں بہت خوف کا ماحول تھا اور اب کچھ روز گزرنے کے بعد حالات کچھ بہتر نظر آتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شہر طالبان کے مکمل کنٹرول میں ہے، جنہوں نے اس کے تمام انتظامی امور سنبھال رکھے ہیں۔ ان کے بقول پولیس کا نظام ہو یا شہر میں ٹریفک، سب کو وہی دیکھ رہے ہیں۔
رحمت اللہ نورزئی نے بتایا کہ امن وامان میں بہتری سے شہری تو خوش ہیں لیکن دوسری طرف کاروباری سرگرمیاں معطل ہیں اور نرخوں میں کمی کے باعث اب تاجر افغانی کرنسی میں کاروبار نہیں کر رہے ہیں بلکہ وہ پاکستانی روپے یا کوئی اور کرنسی دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
رحمت نے بتایا کہ یہ صورت حال شہریوں کی مشکلات میں اضافے کا باعث بن رہی ہے اور شہر میں اشیا کی قلت بھی پائی جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ طالبان کا ملک کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد قندھار میں خواتین خوف کا شکار ہیں، جن میں سے اکثر نے پہلے ہی سرکاری یا نجی اداروں میں کام کو خیر باد کہہ دیا تھا۔
رحمت کے مطابق جب سے طالبان شہر میں آئے ہیں کوئی بھی خاتون کام کرنے کے لیے نہیں آرہی۔ ’ہم کہہ سکتے ہیں کہ خواتین کا ایک فیصد بھی کام کے لیے دستیاب نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’شہر میں اس وقت کوئی بھی خاتون آپ کو نہیں ملے گی۔ اگر کوئی مل بھی جائے تو وہ بھی انتہائی ضرورت کے مطابق نکلی ہوگی۔ وہ بھی پردے کے بہتر انتظامات کرکے آئی ہوگی۔‘
رحمت کہتے ہیں کہ طالبان کے آنے سے قبل قندھار شہر میں خواتین بڑا دوپٹہ جسے یہاں چادری کہتے ہیں اوڑھ کر شہر میں نظر آتی تھیں، مگر اب جب طالبان نے خواتین کے لیے پردے کے حوالے سے کوئی پابندی کا اعلان نہیں کیا، تب بھی خواتین کو خوف لاحق ہے کیونکہ انہیں ماضی کے طالبان یاد ہیں، جو خواتین کو کوڑے مارنے کی سزا دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے خواتین باہر نکلنے سے کتراتی ہیں۔
ان کے بقول قندھار میں تمام تعلیمی ادارے بھی بند ہیں بس کچھ نجی ادارے کھلے ہیں، جن میں طلبہ کی تعداد بھی انتہائی کم ہے۔
رحمت سمجھتے ہیں کہ شہرمیں خوف کا ماحول تو کم ہورہا ہے لیکن دوسری طرف تجارت میں مشکلات سے شہری مشکلات سے دوچار ہیں، جس کے باعث انہیں روزمرہ کی ضروریات کے حصول میں مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
قندھار کے پاکستانی سرحد سے متصل علاقے سپن بولدک پر 14 جولائی کو ہی قبضہ کرلیا تھا، تاہم انہوں نے اس کے بعد قندھار شہر کی طرف فوراً پیش قدمی نہیں کی۔
افغانستان کے دیگر صوبوں کے مرکزی شہروں پر قبضے میں کامیابی کے بعد انہوں نے قندھار کے مرکزی شہر پر بھی چڑھائی کی اور 13 اگست کو حاصل کر لیا۔