33 سال پہلے مجھ میں ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی۔ جمعہ 21 فروری کی وہ سخت دوپہر مجھے ہمیشہ یاد رہے گی کیونکہ اس دن نے میری زندگی ہمیشہ کے لیے بدل کے رکھ دی۔ یہ دن صرف مجھے ملنے والی ’موت کی سزا‘ کی وجہ سے یادگار نہیں بلکہ اس لیے بھی یاد رہنے والا ہے کیونکہ اس دن میری بہن کی 21ویں سالگرہ تھی اور ہم نے ایک سرپرائز پارٹی کی تیاری کر رکھی تھی۔
میری بہن اس وقت حمل کے ساتویں ماہ میں تھیں اور میں شہر میں مبارک باد کے کارڈ ڈھونڈ رہا تھا جس پر سیاہ فام ماں اور بچے کی تصاویر موجود ہوں۔ گو کہ میں نے عنقریب ماں بننے والی بہن کے لیے ڈھیروں تحائف خرید لیے تھے لیکن لندن کے کوینٹ گارڈن میں مجھے اس مخصوص کارڈ کے حوالے سے مایوسی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
اس دوران مجھے چیلسی میں واقع جان ہنٹر کلینک سے اپنی رپورٹس وصول کرنے کا خیال آیا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ مجھے کیا امید رکھنی چاہیے۔ مجھے ایچ آئی وی اور ایڈز کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔ میں نے تو ایک ہفتہ پہلے تک یہ اصطلاحات بھی نہیں سنی تھی۔ قطعی حیرانی کی بات نہیں کہ میں نے اس دن اپنی بہن کی سالگرہ میں شرکت کے بجائے اگلے کئی روز ایک اندھیرے کمرے میں رو کر گزارے۔ ایک طرف نئی زندگی کی خوشی تھی تو دوسری جانب میری یقینی موت کا غم۔
میں ایک ہفتہ پہلے ایس ٹی ڈی کلینک گیا تھا تاکہ خون کے ٹیسٹ کروائے جا سکیں۔ میرے سابق محبوب کولن کلارک نے ایک شاہراہ پر خودکشی کی کوشش کی تھی۔ ہم اس وقت سے ایک دوسرے کے ساتھ تھے جب میں 19 سال کا تھا اور اس کی عمر 38 سال تھی۔ وہ کیمرج سے تعلیم یافتہ، امیر، سفید فام شخص تھا جس کے ساتھ تین سال ساتھ رہنے کے بعد میں پچھلے دنوں ہی علیحدہ ہوا تھا۔ حادثے میں کولن کا کافی خون بہہ گیا تھا۔ اسے فوری بلڈٹرانسفیوژن کی ضرورت تھی۔ اسی دوران چیلسی اور ویسٹ منسڑ ہسپتال کے ڈاکٹرز نے تشخیص کی کہ اس کے خون میں جنسی طور پر متحرک سمجھے جانے والے ہم جنس پرست سفید فام افراد کی خصوصیات موجود تھیں۔ اس وقت میں صرف یہی کچھ جانتا تھا اور کولن نے بھی مجھے فون پر یہی بتایا تھا۔ اس نے دو ہفتے پہلے ایک رات کانپتی اور گھبرائی آواز کے ساتھ ہسپتال سے باہر آنے کے کچھ گھنٹے بعد کال کی تھی۔ وہ کہہ رہا تھا: میں تمہیں واپس پانا چاہتا ہوں۔ اسے یہ جان کر صدمہ ہوا کہ میں اب کسی اور کے ساتھ ہوں۔ وہ یہ سن کر زیادہ شراب پینے لگا تھا اور اس نے کوکین کا استعمال بڑھا دیا۔ اس نے اپنا مہنگا ایم جی مجٹ بھی توڑ دیا تھا۔ خوش قسمتی سے اس وقت کوئی اس کے ساتھ نہیں تھا۔ لیکن وہ فون پر مجھے اپنی بے پناہ محبت کا یقین دلاتے ہوئے مجھے یہ بتا رہا تھا کہ کس طرح ڈاکٹرز نے اس میں ایچ آئی وی پلس کی تشخیص کی ہے۔
میں نے چونک کے پوچھا: ’ایچ آئی وی کیا ہے؟ اور ایچ آئی وی پلس کیا ہے؟‘
کولن نے ہنستے ہوئے کہا: ’میں تمہیں ہمیشہ اخبار پڑھنے کا کہتا تھا۔ کم سے کم اتوار کو۔ میرا مشورہ ہے تم جلد سے جلد کسی کلینک جاؤ اور اپنا ایچ آئی وی کا ٹیسٹ کراؤ۔ ساوتھ کین میں جان ہنٹر اس حوالے سے بہتر رہے گا۔ ہم وہاں پہلے بھی جا چکے ہیں اور مجھے بتانا کیا نتیجہ نکلا۔ کیا تم ایسا نہیں کرو گے پال؟‘ اور اس کے ساتھ ہی کولن نے فون بند کر دیا۔ یہ سوچتے ہوئے کہ ہمیں دوبارہ ایک کرنے کے لیے وہ اپنی طرف سے سب کچھ کر چکا ہے، لیکن اب محبت ساتھ نہیں چل سکتی تھی۔ موت کا خوف اور جان لیوا بیماری یہ کام کرنے جا رہی تھی۔ چھ ماہ کی علیحدگی کے بعد اور برمنگھم یونیورسٹی سے گریجویشن کے بعد میری زندگی آگے بڑھ چکی تھی اور میں اب کسی اور سے دیوانہ وار محبت کرتا تھا۔
میرا نیا دوست عکواسی وہ سب کچھ تھا جو کولن کبھی نہ بن پاتا۔ عمر میں مجھ سے پانچ سال بڑا عکواسی بالکل اولمپین کھلاڑی ڈیلے تھامپسن جیسا دکھتا تھا۔ بلند قامت، خوبصورت، مردانہ حسن سے بھرپور دو قومیتوں کا حسین امتزاج۔ وہ ہیکنی کالج سے تعلیم یافتہ تھا نہ کہ امیروں کے لیے مخصوص کالج کیمبرج سے۔ ہم جلد ہی ایک دوسرے کے ساتھ رہنے لگے۔ یہ ایک کہانی جیسا تھا۔ شہزادے اور بدصورت بطخ کی کہانی جیسا۔ میں اسے دیکھتے ہی اس سے محبت کرنے لگا تھا۔ ہم ایک اشتہاری مہم کے سلسلے میں ٹائم آؤٹ میگزین کے پاس چئیرنگ کراس پر ملے تھے۔ ہم نے ایک پب میں کھانا کھایا اور تب سے ہم ساتھ ہی تھے۔ ہم دو ہفتوں سے ایک دوسرے کے ساتھ تھے اور پھر مجھے یہ افسوس ناک خبر ملی۔ میں تب تک عکواسی کے ساتھ لیٹون منتقل ہو چکا تھا۔
عکواسی نے حال ہی میں اپنے جنسی رجحان کو پہچانا تھا اور اب وہ مردوں میں کھل کر دلچسپی لینے لگا تھا۔ اس وقت وہ اپنی بیمار دادی کی عیادت کرنے کے لیے آئرلینڈ میں تھا۔ لیکن یہ سات دن جوہم نے ساتھ گزارے تھے ان میں دوست، خاندان والے سب کو یقین تھا کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ اپنی زندگی کا صحیح مقصد تلاش کر چکے ہیں۔ اب جب میں ایچ آئی وی سے متاثر ہونے کا یقین کر چکا تھا اور سوچ رہا تھا کہ میں کچھ سالوں میں ایڈز سے مر سکتا ہوں تو مجھے خیال آتا تھا کہ کون چاہے گا کہ میں اس کے ساتھ رہوں؟
دوسری جانب کولن ہزاروں معاشقوں سے گزر چکا تھا۔ وہ فائر آئی لینڈ کی سرمیلی شام ہو یا نیویارک کے کلبز میں منشیات کا دھواں، کولن ہمیشہ خوبصورت ترین مردوں کے ساتھ رہا ہے۔ اس نے ملک بدری کے دوران کراکس میں بہت کم متحرک زندگی گزاری تھی۔ مثال کے طور پر سترہ سال کی عمر میں اپنی ماں کے گھر کو چھوڑنے کے بعد اگر میں ایک درجن لوگوں سے جنسی تعلق استوار کر چکا ہوں تو کولن کم از کم پانچ بار اس دوران موجود رہا ہوگا۔ ٹیسٹوں کے دوران میں نرس کی جانب سے کیے جانے والے اپنے جنسی تجربات کے بارے میں سوالات پر صرف اتنا کہہ سکا کہ : شکر ہے میں اور عکواسی ابھی تک جنسی عمل میں ملوث نہیں ہوئے تھے۔ ہم جسمانی طور ہر بہت قریب تھے، بوس و کنار، معانقہ وغیرہ کر چکے تھے لیکن جنسی عمل کرنے سے ابھی تک دور تھے۔ یہ ایک پرسکون خیال تھا۔ لیکن اب یہ سوچ کہ ہم کبھی جسمانی تعلق برقرار نہیں رکھ پائیں گے، یہ بھی ایک عذاب سے کم نہیں تھی۔ مجھے یاد ہے میں یہ سوچ کر آبدیدہ ہو گیا تھا۔ میں آخری بار اس وقت اتنا رویا تھا جب میں دس سال کا تھا اور اپنے والد کو ائیرپورٹ پر چھوڑنے گیا تھا جو اپنی ماں سے ملنے جا رہے تھے جن کے متعلق مجھے کچھ یاد نہیں۔ مجھے لگا اب میرا دل کبھی سکون نہیں پائے گا۔ میں جانتا تھا اب یہ صدمہ نا قابل تلافی ہے۔
جب عکواسی آئرلینڈ سے واپس آیا تو اس نے مجھے پلنگ کے ساتھ نیچے فرش پرلیٹا پایا۔ میں مسلسل رو رہا تھا۔ میں ایچ آئی وی کی تشخیص کے ایک ہفتے بعد بھی دل برداشتہ تھا۔ لیکن عکواسی میرے لیے بہت ہمدرد ثابت ہو رہا تھا۔ وہ ایک بار پادری بننے کا بھی سوچ چکا تھا۔ سوشل ورکر اور ایک حساس دل کا مالک یہ فرد لوگوں کے غم بانٹنے میں بہت ماہر تھا۔ مجھے خاموش کرانے کے بعد جب اس نے یہ تلخ سچائی سنی تو اس کا کہنا تھا : پال، میں یہ رشتہ نبھانا چاہتا ہوں لیکن ایسا اسی صورت ہو سکتا ہے جب ہم دونوں ایچ ای وی سے متاثر ہوں۔‘ لیکن یہ سن کر میں دوبارہ رونے لگا۔ ایسا خیال ہی پاگل پن تھا۔
میں اس جواب کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ مجھے اس وقت ہی وہ جگہ اور عکواسی سے تعلق کا خیال چھوڑ دینا چاہیے تھا لیکن میں بہت کمزور محسوس کر رہا تھا اور میں نے اس کے تسلی بخش الفاظ پر یقین کر لیا۔ ایک لاعلاج بیماری کو ایک ایسے اچھے انسان میں منتقل کرنے کا خیال ہی مجھے بے چین کر رہا تھا۔ اگلے کچھ ہفتوں میں کی جانے والی گفتگو کے بعد ہم غیر محفوظ جنسی عمل شروع کر چکے تھے۔ یہ رشتہ کئی سال تک چلتا رہا۔ یہ محبت ہی تھی۔ ایسا رشتہ نبھانا کسی مذہبی جذبے سے کم نہیں تھا۔ میرے دل میں یہ شادی جیسا رشتہ تھا جو صرف موت ہی ختم کر سکتی تھی۔
ہم دونوں نے ایک گھر خریدا ۔ اس وقت تک یقین ہو چکا تھا کہ ہم دونوں ایچ آئی وی سے متاثر ہو چکے ہیں۔ ہم دونوں ایک ساتھ کبھی ڈاکٹر کے پاس نہیں گئے۔ معاشقے کے کچھ ماہ بعد عکواسی ایک دن یہ خبر لایا کہ وہ بھی ٹیسٹ نتائج کے مطابق باڈی پازیٹو ہے۔ وہ وقفے وقفے سے مجھے بتایا کرتا تھا کہ ایچ آئی وی کے بارے میں کوبلر کلینک کے ڈاکٹر اس سے کیا کہتے تھے۔
میں بھی سکرینگ کے عمل سے گزرا لیکن خوش قسمتی سے ابھی تک سب کچھ ٹھیک تھا۔ یہ 1991 کی بات ہے جب میرے کنسلٹنٹ نے کہا کہ مجھے علاج کے ایک نئے مرحلے سے گزرنا چاہئے۔ یہ ایک دوائی کے اثرات کی دہری تحقیق تھی جو یہ بات جانچ سکتی تھی کہ دوائی اثر کر رہی یا نہیں۔ لیکن ابتدائی طور پر اس تحقیق کے دوران ڈاکٹر اور مریض دونوں اس بات سے لاعلم رہتے ہیں کہ مریض دوائی لے رہا یا بے ضرر مادہ جو کوئی اثر نہیں کر رہا۔ کچھ دن کے بعد یہ تحقیق واضح شکل اختیار کر لیتی ہے۔ دوا لینے کے بعد بڑی کوششوں کے باوجود میں اپنے مساموں سے خارج ہونے والے کیمیائی مرطوب سے جان نہ چھڑا سکا۔ میں کوبلر کلینک میں ڈاکٹر میلکم ہکر سے ملنے جا پہنچا۔
’میں معذرت خواہ ہوں ڈاکٹر لیکن میں یہ مزید نہیں کر سکتا۔ میں دن میں تین بار نہا رہا ہوں لیکن پھر بھی اپنا آپ ایک دوائیوں کی دکان جیسا محسوس ہوتا ہے۔‘ ڈاکٹر ہکر برہمی سے کہنے لگے: ’پال کسی اور فرد نے اس مسئلے کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔‘
میں نے جواب دیا :بہت بہت شکریہ ڈاکٹر لیکن میں یہ مزید نہیں کر سکتا۔ میں ایک زہریلے کیمیائی ڈھیر جیسا بدبودار محسوس کر رہا ہوں۔
میں یہ نہیں کر سکتا۔ میرے ساتھ ابھی تک کوئی مسئلہ نہیں ہے اس لیے مجھے کسی دوائی کا تجربہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں کوئی تجربات میں کام آنے والا چوہا نہیں ہوں۔
ڈاکٹر ہکر نے مجھے کہا : ایسی بات کرنی کی کوئی ضرورت نہیں۔ کیا تم نہیں جانتے یہ ٹرائل ایچ آئی وی کے مستقبل میں سامنے آنے والے علاج کے لیے کتنے ضروری ہیں۔
میں اس کے لیے تیار نہیں تھا۔ ڈاکٹر ہکر نے مجھے کہا : شکر ہے ہمارے پاس اس تجربے کو جاری رکھنے کے لیے اور مریض موجود ہیں جو ایڈز کے خاتمے کے لیے ہماری مدد کرنا چاہتے ہیں ۔ میں تم سے بہت مایوس ہوں پال۔
میں نے ان سے کہا: مسٹر ہکر آپ جانتے ہیں آپ اپنی دواوں کو جہاں مرضی لے کر جائیں میں نے جو کہنا تھا کہہ چکا۔ میں مزید یہ دوائی نہیں لے رہا۔ میں اگلی بار یہاں آوں گا تو کسی اور ڈاکٹر سے ملنا چاہوں گا۔
یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے اپنی صحت کے معاملے میں ایک ڈاکٹر سے سوال کیا تھا۔ میں ایک ایسے ماحول میں پلا بڑا تھا جہاں علاج کے شعبے سے وابستہ افراد کی بہت عزت کی جاتی تھی۔ لیکن میں اپنے جسم کو جانتا تھا اور مجھے معلوم تھا وہ میرے لیے ٹھیک نہیں تھیں۔ ایچ آئی وی کا شکار صحت مند افراد یہ دوائی لینے سے بہتر نہیں ہو رہے تھے۔ تحقیق کے بعد نتائج میں یہ سامنے آیا کہ دوائی اے زی ٹی لینے والے گروپ کے افراد میں سے اکثر موت کے منہ میں چلے گئے بہ نسبت ان افراد کے جو بے ضرر مادہ لیتے رہے۔
عکواسی اور میں چھٹیاں گزارنے گھانا جا رہے تھے۔ اس کے دو دوست بھی ہمارے ساتھ تھے۔ میں اے زی ٹی لے کر ایک فارمیسی جیسا نہیں محسوس کرنا چاہتا تھا۔ ہمارے سفر پر جانے سے دو ہفتے پہلے ہمیں ایک اور دوائی لاریام تجویز کی گئی۔ یہ اینٹی ملیریا والی گولیاں مجھے ابھی سے بے چین کر رہی تھیں۔ میں جمیکا میں پلا بڑا تھا جہاں مچھروں کی بہتات تھی تو میں نے اس گولی کو بھی نہ لینے کا فیصلہ کیا لیکن عکواسی اپنی دوائی لیتا رہا۔ گھانا میں ایک ہفتہ گزارنے کے بعد عکواسی نے کافی عجیب حرکتیں شروع کر دیں۔ ہماری زندگی کا تاریخی سفر ایک ڈراونے خواب میں تبدیل ہو گیا۔
میرے، عکواسی اور ہمارے دوسرے ہم سفروں ارل اور کریسی کے درمیان تعلقات تلخی کا شکار ہو رہے تھے۔ عکواسی صرف اپنے ساتھ سامان کا بوجھ نہیں لایا تھا۔ اپنے والد کے ملک میں واپس آنا اس کے لیے یقینی طور پر دماغی دباو سے خالی نہیں تھا۔ یہاں کی ثقافت، شناخت، رہن سہن سب سے بڑھ کر ایچ آئی وی اور ان کہی جنسی خواہشات۔ میں اپنے محبوب کو اس طرح سے بے چین دیکھ کر اداس تھا اور ہمارے رشتے کو ختم ہوتا دیکھ کر پریشان بھی۔ میرے اندازے کے مطابق وہ اپنے نئے دوست ارل کی محبت میں مبتلا ہو گیا تھا۔ مجھے ایک احساس جرم کھائے جا رہا تھا کہ وہ اپنے ایچ آئی وی کا شکار ہونے کا غصہ مجھ پہ نکال رہا تھا ۔ وہ کریسی سے بھی ناخوش تھا۔ اس غصے کی حالت میں وہ اپنی آئرش ماں بن چکا تھا جس پر برطانوی گلیوں میں اس لیے آوازے کستے تھے کہ اس نے ایک دوسری نسل کے شخص سے پیدا کیے ہیں۔ لیکن جب میں اس کے والد سے ملا تو مجھے ان میں اپنا بڑھاپا نظرآیا۔ میں سمجھ چکا تھا کہ عکواسی کی ماں اور بہن نے مجھے اس کے والد سے کیوں تشبیہہ دی تھی جب میں پہلی بار ان سے ملا تھا۔ اب مجھے سمجھ آنے لگی تھی کہ وہ اپنے والد کے بارے میں کیوں پریشان تھا۔
لیکن میرے لیے سب سے حیران کن بات تب تھی جب اس نے بتایا کہ اس نے کبھی ایچ آئی وی کا ٹیسٹ ہی نہیں کروایا۔ اس نے میرے ساتھ اتنے سال جھوٹ بولا تھا۔ جب ہم انگلینڈ واپس آئے تو عکواسی کو ہسپتال کے نفسیاتی وارڈ میں داخل کر دیا گیا جہاں وہ چند ہفتے رہا۔ میں نے گھر میں رہتے ہوئے ان چیزوں کے بارے میں لکھنا شروع کر دیا جو میں سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس سب کے باوجود میں پر امید تھا کہ ہمارے درمیان تعلقات ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ وہ میرے مشکل وقت میں میرے ساتھ رہا تھا۔ مجھے بھی یہی کرنا تھا۔
جب وہ ہسپتال سے گھر آیا تو عکواسی بالکل ایک الگ انسان میں تبدیل ہو چکا تھا۔ وہ کافی لاغر ہو چکا تھا۔اس کی دوائیں اثر دکھا چکی تھیں اور اب اس میں ایچ آئی وی کی تشخیص ہو چکی تھی۔ ہم ایک ہی چھت تلے رہ رہے تھےلیکن خاموش تھے یہ خاموشی بہت آواز رکھتی تھی۔ پھر ایک دن ہم نے سنا کہ ارل نیند کے دوران انجانی وجوہات کی وجہ سے چل بسا۔ یہ بہت بڑا صدمہ تھا۔ ایک صحت مند، طاقت ور نوجوان سیاہ فام انسان یوں کیسے مر سکتا تھا؟ عکواسی اپنی ذات میں اور محدود ہو گیا۔ اور ایسا محسوس ہونے لگا جیسے میں ایک دشمن کے ساتھ رہ رہا ہوں۔ میں نے اپنا کمرہ چھوڑنے کا بھی سوچا لیکن جب مجھے معلوم ہوا کہ میرا پرانا دوست کولن کلارک ایڈز کی ہی ایک قسم کا شکار ہو کے دنیا سے کوچ کر چکا ہے تو عکواسی اس سے اگلے روز گھر سے ہی چلا گیا۔ میں نے اس کے بعد اسے نہیں دیکھا۔
میں تین چار سال تک اپنی رہائش کا قرض چکاتا رہا لیکن ایک موقعے پر یہ رقم میری استطاعت سے زیادہ ہو گئی۔ میں نے 1995 میں گھر کی چابیاں سوسائٹی والوں کو واپس کر دیں۔ میں نئی زندگی شروع کرنا چاہتا تھا اس لیے میں نے اپنی آپ بیتی لکھنا شروع کر دی۔ ہماری گھانا میں گزاری چھٹیاں میرے لیے ایک متاثر کن تجربہ بن چکا تھا۔ اسی کو بنیاد بنا کر 1997 میں میری تحریر ’ وکڈ گیمز‘ کو ویسٹ یارک شائر میں بطور ڈرامہ تخلیق کیا گیا۔ میری ایچ آئی وی کی بیماری برطانیہ کے پہلے ہم جنس پرستی پر مبنی ڈرامے کی بنیاد بنی۔ ’بوائے ود بیئر‘ نامی یہ ڈرامہ مجھے میری زندگی میں موجود مایوسی اور تنہائی سے نکال رہا تھا۔ لکھنا ہی میری عقل کو قائم رکھ رہا تھا جیسے مجھ سے پہلے ان گنت لکھاریوں کے ساتھ ہوا ۔ لکھنا ہی میرا علاج تھا۔
میں ایک لمبے عرصے سے مرنے کا انتظار کر رہا تھا۔ خاص طور پرایچ آئی وی کی تشخیص کے بعد تو میں سالوں سے اپنی موت کا انتظار کر رہا تھا۔ لیکن آج میں سوچتا ہوں کہ میں خوش قسمت ہوں جو اتنے قریبی دوستوں کو ایڈز اور ایچ آئی وی کی وجہ سے کھونے کے بعد بھی زندہ ہوں۔ 33 سالہ زندگی ایچ آئی وی کی تشخیص ہونے کے بعد زندہ رہنا اور اپنی خواہشات کی تکمیل نہ کر سکنا ایک ایسے گھر میں محفوظ رہنے جیسا تھا جو دھیرے دھیرے جل کر راکھ ہو رہا تھا۔ میں ان چند خوش نصیبوں میں ہوں جو ایچ آئی وی پازیٹو کا سی ڈی 4 لیول کے باوجود بغیر کسی علاج کے صحت مند اور زندہ رہ سکتے ہیں۔
کوبلر کلینک میں میرے موجودہ کنسلٹنٹ کہتے ہیں : اگر ہم کبھی ایچ آئی وی اور ایڈز کا علاج نہ ڈھونڈ سکے تو یہ تمہاری اولاد ہو گی جس کو یہ دنیا ورثے میں ملے گی۔ تمہارا جسم وہ عمل خود سرانجام دے رہا ہے جو ہم روز ادویات اور علاج کے ذریعے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میرے دوست تم نے اتنے سال صحت مند زندگی گزار کر ناممکن کام کیا ہے۔ سی ڈی 4 ایک نا قابل تشخیص مادہ ہے جو تمہیں ایچ آئی وی سے بچا رہا ہے۔ تم ایچ آئی وی اور ایڈز سے نہیں مر سکتے۔ تم ایک طبی معجزہ ہو۔ یہ جیناتی معاملہ ہے اور تم نے صحیح والدین چنے تھے۔ تم ایلیٹ کنڑولر ہو۔ ایچ آئی وی سے متاثرہ ہزاروں افراد میں صرف چند ہی ہوتے ہیں جنہیں ایلیٹ کنٹرولر کہا جا سکتا ہے۔ کاش ہم اسے ذخیرہ کر کے بیچ سکتے۔‘
میں کوبلر کلینک میں انتظار کر رہا ہوں تا کہ اپنے خون کے معمول کے ٹیسٹ کروا سکوں، اسی دوران میں اپنے اردگرد موجود نوجوان جوڑے سے بات چیت بھی کرتا ہوں۔ مجھے پتہ چلا کہ یہ لڑکی ایچ آئی وے سے متاثرہ ہے لیکن لڑکا اس سے محفوظ ہے۔ وہ دونوں بچے کے خواہش مند ہیں۔ وہ حاملہ ہو چکی ہے اور وہ دونوں اس بات سے بہت خوش ہیں۔ وہ یہاں ادویات لینے آئی ہے تاکہ اس کا بچے اس مرض سے محفوظ رہ سکے۔ لڑکے کے مطابق وہ امتحانات کی تیاری میں مگن تھا جب اس کی اہلیہ حاملہ ہوئی۔ وہ والد بننے کے لیے مزید انتظار نہیں کر سکتا۔ یہ کتنے خوش قسمت ہیں۔ میں سوچتا ہوں کاش میں بھی اتنا خوش قسمت ہوتا اور میں گزری باتیں یاد کر کے مسکرا دیتا ہوں۔ محبت کے لیے زندگی کو خطرے میں ڈالنے کی ضرورت نہیں۔