چین اور اس کے پڑوسی ممالک میں تباہ کن زلزلے کا خطرہ ہے: تحقیق

میانمار کے زلزلے سےچند روز قبل  ماہرین نے ایک تحقیق میں خبردار کیا تھا کہ چین اور اس کے آس پاس کے علاقے اسی طرح کی آفات کے بڑھتے ہوئے خطرے کی زد میں ہیں۔

28 مارچ کے زلزلے کے بعد پانچ اپریل 2025 کو میانمار کے شہر منڈالے میں منہدم ہونے والی عمارت کے ملبے کو صاف کرنے کے لیے بھاری تعمیراتی مشینری استعمال کی جا رہی ہے (زاو ہٹن/ اے ایف پی)

میانمار میں آنے والے تباہ کن زلزلے جس میں 3000 سے زائد لوگ جان سے گئے اور ہزاروں زخمی ہوئے، سے چند روز قبل ماہرین نے ایک تحقیق میں خبردار کیا تھا کہ چین اور اس کے آس پاس کے علاقے اس طرح کی آفات کے بڑھتے ہوئے خطرے کی زد میں ہیں۔

یہ تحقیق گذشتہ ماہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے قائم ادارے کے جریدے جیو ڈیسی اینڈ جیوڈائنیمکس میں شائع ہوئی جس میں زلزلوں کے ادوار کو زمین کی گردش میں ہونے والے اتار چڑھاؤ سے جوڑا گیا۔

بیجنگ ارتھ کوئیک ایجنسی سے تعلق رکھنے والے ژو ہونگ بن سمیت محققین نے 1879 سے شروع ہونے والے تقریباً 150 سال کے دوران زلزلے کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا اور اس خطے میں زلزلے کے چھ بڑے ’فعال ادوار‘کی نشاندہی کی۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ہر زلزلہ خیز دور زمین کی گردش کی رفتار میں تبدیلی اور اس کے نتیجے میں زمین کی پلیٹوں پر پڑنے والے دباؤ کی ترتیب نو سے مطابقت رکھتا ہے۔

ایک فعال دور 1897 سے 1912 تک جاری رہا جس کے دوران مشرقی ایشیا کی پامیر بیکال زلزلہ پٹی پر 12 بڑے زلزلے ریکارڈ کیے گئے۔

اسی طرح 1920 سے 1934 کے درمیان شمال مشرقی چنگھائی، تبت سطح مرتفع اور 1946 سے 1957 تک اس کے جنوب مشرقی کنارے پر آنے والے زلزلوں کا ایک سلسلہ بھی انہی’فعال ادوار‘ سے جڑا ہوئی تھا۔

1970 سے 1976 کے درمیان یوننان اور شمالی چین میں آنے والے زلزلوں کا سلسلہ بھی ایک اور زلزلہ خیز دور کا حصہ تھا۔

پانچویں مرحلے میں 2001 سے 2015 کے درمیان مشرقی تبت کی سطح مرتفع پر واقع بایان ہر بلاک میں زلزلے آئے۔

تحقیق کے مطابق چھٹا، اور موجودہ، فعال مرحلہ بایان ہر بلاک کے اطراف کے علاقوں میں مرکوز ہے۔

تحقیق میں کہا گیا: ’ہم اس وقت چھٹے مرحلے میں ہیں، جہاں زلزلے بنیادی طور پر منگولیا میں بایان ہر خطے کے گرد و نواح میں آ رہے ہیں۔‘

’مستقبل میں دباؤ کی سمت شمال مشرق کی طرف منتقل ہو گی جس سے سیچوان، یوننان اور چین کے ہمالیائی علاقے میں زلزلوں کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ ہم اس وقت زلزلوں کے ایک نئے فعال دور کے ابتدائی مرحلے میں ہوں۔‘

زمین کی گردش کی رفتار کا اندازہ ایک دن کی مدت یا ایل او ڈی کی بنیاد پر لگایا گیا۔

ایل او ڈی  ہزاروں سال میں اتار چڑھاؤ کا شکار رہی اور اس دوران زمین نے چار بڑے اور 15 چھوٹے تیز اور سست رفتاری کے ادوار گزارے۔

ماہرین کے مطابق زمین ہر صدی میں دن کی لمبائی میں تقریباً دو  ملی سیکنڈ کا اضافہ کر رہی ہے جس کی ایک بڑی وجہ چاند کی کشش کے باعث پیدا ہونے والی رگڑ  ہے۔

محققین نے اپنی ایک سابقہ تحقیق میں نشاندہی کی کہ گذشتہ تین ہزار سال میں زمین کی گردش کی رفتار تقریباً چھ گھنٹے سست ہو چکی ہے، جو’یکسانیت سے انحراف‘ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مطالعے کے مطابق، گردش کی رفتار کم ہونے کے ادوار مشرقی ایشیا میں شمال، جنوب کی سمت میں زمین کی پلیٹوں کے سرے پر دباؤ کو بڑھاتے ہیں، جس کے نتیجے میں پامیر بیکال زلزلہ پٹی میں بڑے زلزلے آتے ہیں۔

اس کے برعکس، جب زمین کی گردش میں تیزی کا مرحلہ آتا ہے تو شمال مشرق کی سمت میں دباؤ میں اضافہ ہو جاتا ہے جو تبت کی سطح مرتفع کو متاثر کرتا ہے۔

تازہ ترین تحقیق میں خبردار کیا گیا کہ جنوب مغربی چین میں کچھ فالٹ لائنوں کے حصوں پر زلزلے کا سبب بننے والا دباؤ جمع ہو رہا ہے، جو 2008 میں سیچوان کو ہلا دینے والے 6.6 شدت کے زلزلے کا سبب بنا۔

تحقیق میں اس جانب بھی توجہ دلائی گئی کہ شمال کی سمت میں دباؤ مشرقی ہمالیائی خطے کی طرف بڑھ رہا ہے۔

تاہم چین کے تمام زلزلہ ماہرین اس تازہ تحقیق کے نتائج سے مکمل طور پر متفق نہیں۔

زلزلے سے متعلق چینی ادارے  سے تعلق رکھنے والے زلزلہ ماہر گاؤ منگتن جیسے ماہرین نے نئی تحقیق کے نتائج کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دینے کے حوالے سے خبردار کیا۔

اخبارساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کے مطابق، ڈاکٹر منگتن نے کہا کہ حالیہ دنوں میں عالمی سطح پر زلزلہ سرگرمی ماضی کے مقابلے میں زیادہ خاموش رہی ہے۔

انہوں نے مقامی میڈیا کو بتایا: ’فی الحال اس بات کا کوئی واضح ثبوت نہیں کہ زمین زلزلوں کے کسی فعال دور میں داخل ہو چکی ہے۔ درحقیقت 2025 میں اب تک جتنے زلزلے آئے ہیں، وہ تاریخی اوسط سے بھی کم ہیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا