افغانستان کی 250 خواتین ججز اپنی زندگیوں کو لاحق خطرات کی وجہ سے خوفزدہ ہیں کیونکہ وہ مرد، جن کو انہوں نے سزا سنا کر جیل میں بند کروایا تھا، اب طالبان کے ملک پر کنٹرول کے بعد آزاد ہوگئے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ججوں اور سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ چند خواتین ججز حالیہ ہفتوں میں ملک سے نکلنے میں کامیاب ہوگئی ہیں، لیکن زیادہ تر افغانستان میں ہی موجود ہیں اور یہاں سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
گذشتہ ماہ امریکی اور غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان نے ملک کے بیشتر علاقوں کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد خواتین کو کام سے روک دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا، لیکن ابھی تک اس کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔
وہ خواتین جو عدالتی نظام کا حصہ ہیں، پہلے ہی ہائی پروفائل ہدف رہی ہیں۔ جنوری میں افغان سپریم کورٹ کی دو خواتین ججوں کو گولی مار دی گئی تھی۔
ایک اعلیٰ سطح کی خاتون جج، جو یورپ فرار ہوگئی تھیں، نے ایک نامعلوم مقام سے روئٹرز کو بتایا: 'طالبان نے ملک بھر میں قیدیوں کو رہا کر دیا ہے، جس نے واقعی خواتین ججوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔'
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے بتایا: کابل میں چار یا پانچ طالبان آئے اور میرے گھر میں لوگوں سے پوچھا کہ 'یہ خاتون جج کہاں ہیں؟' یہ وہ لوگ تھے جنہیں میں نے جیل میں ڈال دیا تھا۔'
مذکورہ جج افغان خواتین ججوں کے اس چھوٹے گروپ میں شامل تھیں جنہوں نے حالیہ ہفتوں میں انسانی حقوق کے رضاکاروں اور انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف ویمن ججز (آئی اے ڈبلیو جے) کے غیر ملکی ساتھیوں کی مدد سے ملک سے انخلا کیا۔
تب سے وہ افغانستان میں موجود اپنے ساتھیوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ انہوں نے بتایا: 'ان کے پیغامات خوف اور مکمل دہشت سے بھرپور ہیں۔ وہ مجھے بتاتے ہیں کہ اگر انہیں بچایا نہیں گیا تو ان کی زندگی براہ راست خطرے میں ہے۔'
افغانستان میں انسانی حقوق کی سرگرم کارکن حوریہ مصدق نے کہا کہ ججوں کے علاوہ ایک ہزار کے قریب انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرم دیگر خواتین بھی ہیں، جو طالبان کے نشانے پر ہوسکتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ 'آزاد ہوجانے والے قیدی اب خواتین ججوں، خواتین پراسیکیوٹرز اور خواتین پولیس افسران کو موت کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہم آپ کے بعد پیچھے آئیں گے۔'
خوف کی صورت حال
برطانوی وزیر انصاف رابرٹ بک لینڈ نے کہا ہے کہ گذشتہ ہفتے لندن نے نو خواتین ججوں کو افغانستان سے نکلنے میں مدد دی اور وہ مزید 'انتہائی کمزور افراد' کے انخلا میں مدد کے لیے کام کر رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا: 'ان ججوں میں سے بہت سی قانون کی حکمرانی کی ذمہ دار تھیں اور وہ بالکل صحیح طور پر ان نتائج سے خوفزدہ ہیں، جن کا سامنا انہیں طالبان کے عروج کے دور میں کرنا پڑ سکتا ہے۔'
انسانی حقوق اور قانونی کارکنوں نے کہا ہے کہ مغربی ممالک نے کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد افراتفری میں خواتین ججوں اور انسانی حقوق کےکارکنوں کے انخلا کو ترجیح نہیں دی۔
بیل فاسٹ میں مقیم انسانی حقوق کی وکیل اور بین الاقوامی وکلا کے اٹلس ویمن نیٹ ورک کی رکن سارہ کے نے کہا: 'حکومتوں کو ان لوگوں کو نکالنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی جو ان کے اپنے شہری نہیں تھے۔'
سارہ کے نے ایک رضاکار گروپ کے ساتھ سینکڑوں لوگوں کو چیٹ گروپس اور ذاتی رابطوں کی مدد سے فرار ہونے میں مدد دی ہے۔
دوسری جانب آئی اے ڈبلیو جے میں، چھ غیر ملکی ججوں کی ایک ٹیم معلومات کو مربوط کرتی رہی ہے، حکومتوں سے لابنگ کر رہی ہے اور انخلا کا انتظام کر رہی ہے۔
ان کوششوں کی سربراہی کرنے والی ایک امریکی جج پیٹریشیا وہیلن، جنہوں نے 10 سالہ پروگرام کے تحت افغان خواتین ججوں کی تربیت کی تھی، نے روئٹرز کو بتایا: 'جو ذمہ داری ہم اٹھاتے ہیں وہ اس وقت تقریباً ناقابل برداشت ہے کیونکہ ہم اس گروہ کی ذمہ داری لینے والے چند لوگوں میں سے ایک ہیں۔'
انہوں نے مزید کہا: 'مجھے اس پر غصہ ہے۔ ہم میں سے کسی کو بھی اس پوزیشن میں نہیں ہونا چاہیے۔'