افغانستان کی خاتون کراٹے چیمپیئن مینا اسدی کو ڈر ہے کہ ان کے وطن پر طالبان کے قبضے کا مطلب یہ ہو گا کہ خواتین پر کھیلوں کے دروازے بند ہو جائیں گے۔ مینا اسدی نے 2010 میں جنوبی ایشیائی کھیلوں میں افغانستان کی نمائندگی کی تھی اور وہ کابل میں ایک فائٹ کلب چلایا کرتی تھیں۔
تاہم اب وہ سمجھتی ہیں کہ 1996 سے لے کر 2001 تک ملک پر حکمرانی کرنے والے اسلامی عسکریت پسندوں کی واپسی نے خاتون ایتھلیٹس کی مزید ترقی کے امکان کو ختم کر دیا ہے۔
انہوں نے جمعے کو کہا: ’مجھے دکھ ہوتا ہے۔ میری امید ختم ہو گئی ہے اور میرے ملک کے لوگوں کی امید بھی دم توڑ گئی ہے۔‘
اسدی 10 سال کی عمر میں افغانستان چھوڑ کر پاکستان منتقل ہو گئی تھیں جہاں انہوں نے کراٹے کی تربیت حاصل کرنا شروع کر دی تھی۔
لیکن ساؤتھ ایشیئن گیمز میں اپنی کامیابی کے بعد وہ 2011 میں وطن واپس لوٹ گئیں اور کابل میں اپنا فائٹ کلب کھول لیا۔
یہ ایسا کام تھا جس کا طالبان کے سابقہ دور میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ 2001 میں اتحادی فوجوں کی قیادت میں ہونے والے حملے کے نتیجے میں طالبان کی حکومت ختم ہو گئی تھی۔ تاہم دارالحکومت کابل میں تشدد اور عدم استحکام کی فضا پیدا ہونے کے بعد انہوں نے دوسری بار ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور انڈونیشیا میں پناہ لے لی جہاں وہ آج بھی رہتی ہیں۔
جکارتہ کے جنوب میں واقع شہر سیساروا میں قائم ان کے کراٹے کلب میں آنے والوں میں بہت سے افغان پناہ گزین بھی ہیں۔
طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد 28 سالہ اسدی نے کہا کہ انہیں ڈر ہے کہ گذشتہ 20 سال میں حاصل کی گئی تمام کامیابیاں صفر ہو جائیں گی۔
مینا اسدی کے بقول: ’تمام کامیابیاں اور اقدار تباہ ہو چکی ہیں اور لوگوں کے لیے یہ تاریک لمحہ ہوگا، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے لیے۔‘
ماضی میں طالبان کے دور اقتدار میں انہوں نے اسلام کی بنیاد پرستانہ تشریح کر کے اسے بے حد سختی کے ساتھ نافذ کیا۔ خواتین کو چہرہ ڈھاپنے پر مجبور کیا گیا انہیں کام کرنے یہاں تک کہ مرد کے بغیر گھر سے نکلنے سے روک دیا گیا۔ لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی لگا دی گئی۔ اسدی کے مطابق: ’خاتون ایتھلیٹس کے لیے سب کچھ ختم ہو گیا۔ وہ (طالبان) انتہا پسند جماعت ہیں اور وہ انسانی حقوق یا خواتین کے حقوق پر یقین نہیں رکھتے۔‘
دوسری جانب طالبان کے ترجمان کا اصرار ہے کہ گروپ تبدیل ہو چکا ہے اور اس کا افغانستان میں خواتین کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ لیکن اسدی کو شک ہے کہ ان وعدوں کی کوئی اہمیت ہو سکتی ہے جبکہ بعض اطلاعات میں پہلے ہی دعویٰ کیا جا چکا ہے کہ ان قصبوں میں جہاں عسکریت پسندوں نے حال ہی میں قبضہ کیا، خواتین کو ملازمت چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔
مینا اسدی نے افسوس کے ساتھ دعوی کیا کہ ’وہ کبھی تبدیل نہیں ہوں گے۔ یہ اب بھی وہی طالبان ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کابل میں حالات خراب ہو جانے کی وجہ سے اسی ہفتے تائیکوانڈو کی ایتھلیٹ ذکیہ خدادادی کا پیرا اولمپک گیمز میں حصہ لینے والی افغانستان کی پہلی لڑکی بننے کا خواب بکھر گیا۔
افغان خواتین کی فٹ بال ٹیم کی سابق کپتان خالدہ پوپل نے ملک میں موجود نامور خاتون کھلاڑیوں پر زور دیا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر اپنے اکاؤنٹ بند کر دیں اور کٹس جلا دیں۔
ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن سے بات کرتے ہوئے خالدہ پوپل نے کہا ہے کہ خاتون ایتھلیٹس اپنے تحفظ کے لیے سوشل میڈیا سے اپنے نام اور تصاویر ہٹا دیں۔
Afghanistan's former women's soccer captain Khalida Popal told @Reuters she has urged players to delete their social media accounts, erase public identities and burn their kits for safety's sake after the Taliban seized control of the country https://t.co/VqlioYGGt0 pic.twitter.com/MZ0Ziyzna8
— Reuters (@Reuters) August 19, 2021
خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ’میں بھی ان سے کہہ رہی ہوں کہ قومی ٹیم کے یونیفارم کو جلا دیں یا اس سے نجات حاصل کر لیں اور یہ بات میرے، ایک ایسے فرد کے لیے جو میدان عمل میں اتری اور قومی ٹیم کی کھلاڑی کے طور پر کامیابی اور شناخت حاصل کرنے کے لیے جو ہو سکا کیا، تکلیف دہ ہے۔ سینے پر تمغہ سجانے، کھیلنے کے حق اور اپنے ملک کی نمائندگی کرنے کے معاملے میں ہمیں کتنا فخر تھا۔‘
© The Independent