مسک کے تخیل کے مطابق بالآخر انسان کا ارتقائی ورثہ ٹیکنالوجیز کے صورت میں نئی زقند بھرے گا اور اس طرح انسان سے زیادہ طاقتور یا ’مافوق البشر‘ وجود میں آئے گا۔
لیکن ٹیکنالوجی کو مافوق البشر بننے سے پہلے بشر بننا چاہیے یا کم سے کم انسانی ساختہ دنیا کے مطابق خود کو ڈھالنا چاہیے۔
ایلون مسک نے انسان نما روبوٹ تیار کرنے کا اعلان کیا ہے جن کا مقصد بار بار کیے جانے والے ایسے بیزار کن امور کو سر انجام دینا ہے جو عام آدمی کو ناگوار گزرتے ہیں۔
مسک نے مثال دیتے ہوئے کہا یہ آپ کے لیے کریانے کی دکان پر جا سکے گا لیکن غالب گمان ہے کہ وہ ہر طرح کے ایسے کام کر سکے گا جو ہاتھوں سے کیے جانے والے کاموں (manual labor) کی ذیل میں آتے ہیں۔
سوشل میڈیا روبوٹس کے بارے میں سائنس فکشن فلموں کے ایسے تذکروں سے بھرا پڑا ہے جن میں ہر ایسی چیز کے نتائج انتہائی بھیانک نکلتے ہیں۔
آئی روبوٹ، دی ٹرمینیٹر اور روبوٹ کی وجہ سے مستقبل کی بالکل تبدیل شدہ صورت حال پیش کرنے والی دیگر ایسی فلمیں جس قدر ہمیں تشویش میں مبتلا کر رہی ہیں وہ تشویش انسان نما روبوٹس کی ٹیکنالوجی اور ان کے مقاصد کے بارے میں ہونی چاہیے، جن پر یہ فلمیں مبنی ہیں۔
مسک کا روبوٹ ٹیسلا تیار کر رہی ہے۔ بظاہر یہ کمپنی کا گاڑیاں تیار کرنے کے کاروبار کو خیرباد کہنے کا فیصلہ لگ رہا ہے سوائے یہ کہ آپ ٹیسلا کو محض خودکار گاڑیاں بنانے والی کمپنی تک محدود نہ سمجھتے ہوں۔
’ٹیسلا بوٹ‘ کا مطلب ہے 125پاؤنڈ کا ہموار جلد والا انسان جیسا روبوٹ، جو ٹیسلا کی مصنوعی ذہانت سے چلنے والی خود کار گاڑیوں اور آٹو پائلٹ ٹیکنالوجیز میں راستوں کی منصوبہ بندی اور پیروی کرنے، ٹریفک کے اندر سے اپنے لیے راستہ بنانے اور اس دوران پیدل چلنے والوں اور رکاوٹوں سے بچ کر نکلنے کی ذمہ داریاں ادا کرے گا۔
ڈسٹوپین سائنس فکشن ایک ہی پہلو پر زیادہ زور دیتا ہے، اگرچہ اس میں ایلون مسک کے کاروباری مفادات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ منصوبہ بندی قابل فہم ہے۔
موجودہ انسانی ساختہ بندوبست انسان کا انسان کے لیے ہی تخلیق کردہ ہے۔ جیسا کہ مسک ٹیسلا بوٹ کے اعلان کے موقعے پر وضاحت کرتے ہیں کہ جدید ترین کامیاب ٹیکنالوجیز کام کرنے کے وہی انداز سیکھنے جا رہی ہیں جس انداز میں لوگ کرتے ہیں۔
اس کے باوجود ٹیسلا کی گاڑیاں اور روبوٹس مستقل کی ایک وسیع منصوبہ بندی کی محض ظاہری شکل ہیں۔
ایک ایسی منصوبہ بندی جس کے پیش نظر وہ مستقبل ہے جہاں جدید ترین ٹیکنالوجیز حیاتیات اور ٹیکنالوجی کے اشتراک سے انسانوں کو ان کی حیاتیاتی بنیادوں سے کاٹ کے رکھ دیں گی۔
اخلاقی اور سماجی طور پر ذمہ دار ترقی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کے استعمال سے دلچسپی رکھنے والے محقق کے طور پر میں سمجھتا ہوں کہ یہ منصوبہ بندی سائنس فکشن کے سپر سمارٹ روبوٹس سے متعلق محض قیاس آرائیوں پر مبنی خدشات سے ہٹ کر کچھ اور شدید قسم کے تشویش ناک سوالات اٹھاتی ہے۔
ایک انسان جس کے منصوبے بڑے ہیں
خود کار گاڑیاں، سیاروں کے درمیان گردش کرنے والے خلائی جہاز اور دماغ کا بیرونی مشینوں کے ساتھ براہ راست رابطہ ایسے مستقبل کی طرف پیش قدمی ہے جہاں مسک کے مطابق ٹیکنالوجی انسانیت کی نجات دہندہ ہو گی۔
اس مستقبل میں توانائی سستی، وافر اور پائیدار ہو گی، لوگ ذہین مشینوں کے ساتھ کام کریں گے بلکہ یہاں تک کہ ان کے اندر مدغم ہو جائیں گے اور انسان بین السیاراتی مخلوق بن جائے گا۔
مسک کی کوششوں سے لگتا ہے مستقبل باہم منسلک بنیادی ٹیکنالوجیز کے سلسلوں پر مبنی ہو گا جس میں سنسرز،actuators انرجی اور ڈیٹا انفراسٹرکچر شامل ہوں گے جو سب کمپیوٹر کے نظام میں یکجا اور نہایت ترقی یافتہ ہوں گے۔
باہم مل کر یہ ٹیکنالوجیز نفسیاتی اور جذباتی ہر طرح کی ضروریات پوری کر سکیں گی۔
مسک کے تخیل کے مطابق بالآخر انسان کا ارتقائی ورثہ ٹیکنالوجیز کے صورت میں نئی زقند بھرے گا اور اس طرح انسان سے زیادہ طاقتور یا ’مافوق البشر‘ وجود میں آئے گا۔
لیکن ٹیکنالوجی کو مافوق البشر بننے سے پہلے بشر بننا چاہیے یا کم سے کم انسانی ساختہ دنیا کے مطابق خود کو ڈھالنا چاہیے۔
ٹیکنالوجی کو انسانوں سے بڑھ کر انسان بنانے والا جدت پسندی کا یہ نظریہ ہی وہ بنیاد ہے جو ٹیسلا کی گاڑیوں کے لیے تیار ہونے والی ٹیکنالوجی اور آپٹیکل کیمروں کے بکثرت استعمال کو جواز فراہم کر رہا ہے۔
مصنوعی ذہانت کے ’دماغ‘ سے منسلک ہو کر یہ خودکار گاڑیوں کو ایسی سڑکوں کے جال میں راستہ بنانے کے لیے معاونت کرتے ہیں جو مسک کے الفاظ میں ’شیشوں کی مدد سے چیزوں کو دیکھ سکنے والے حیاتیاتی ذہنی مخلوق کے لیے بنائی گئی ہیں‘، دوسرے لفظوں میں انسانوں کے لیے۔
مسک کے الفاظ میں یہ انسانوں سے متاثرہ ’ٹائروں پر چلنے والے روبوٹس‘ کی شکل میں ایک چھوٹی سی پیش رفت ہے جو بالآخر انسان نما روبوٹس کی صورت میں ظاہر ہو گی۔
کہنا آسان کرنا مشکل
ٹیسلا کی ’پوری طرح خودکار‘ ٹیکنالوجی جس میں مبہم نام والا آٹو پائلٹ بھی شامل ہے، دراصل ٹیسلا بوٹ کی تشکیل کے طرف ابتدائی پیش رفت ہے۔
یہ ٹیکنالوجی جتنی موثر ہے اتنی قابل اعتماد نہیں۔ ٹیسلا کی آٹو پائلٹ سے وابستہ حادثات اور اموات کے پیش نظر اس ٹیکنالوجی کو اتنی جلدی مارکیٹ میں متعارف کروانا دانش مندی نہیں۔
اس کی تازہ ترین شکل اپنے الگورتھمز کی مدد سے ہنگامی حالت میں کھڑی گاڑیوں کو پہچاننے میں ٹھوکر کھا رہی ہے۔
اس ٹریک ریکارڈ سے تو نہیں لگتا کہ ایسی ہی ٹیکنالوجی پر مبنی انسان نما روبوٹس مستقل میں ہمارے لیے خوشگوار ثابت ہوں گے۔
اگرچہ یہ معاملہ محض اتنا نہیں کہ ٹیکنالوجی صحیح انداز میں کام کرے۔ ٹیسلا کی آٹو پائلٹ گاڑیاں انسانی رویے سے بھی متاثر ہو رہی ہیں۔
مثال کے طور پر ٹیسلا کے بعض ڈرائیوروں نے اپنی ٹیکنالوجی والی گاڑیوں کو ایسے لیا جیسے وہ پوری طرح خودکار گاڑیاں ہوں اور انہیں چلاتے ہوئے ان پر توجہ مرکوز رکھنے میں ناکام رہے۔
کیا اسی طرح کی کوئی چیز ٹیسلا بوٹ کے ساتھ پیش آ سکتی ہے؟
ٹیسلا بوٹ کے غیر واضح خطرات
سماجی طور پر مفید جدت پسند ٹیکنالوجی پر اپنی تحقیق کے دوران میری دلچسپی کا مرکز ’غیر واضح خطرات‘orphan risks ہیں، خطرات جن کی مقدار کا تعین کرنا مشکل اور نظر انداز کرنا آسان ہے۔
تاہم جن میں اختراع کنندگان کا کوتاہی برتنا ناگزیر ہے۔ میرے ہم پیشہ ساتھی اور میں انوویشن انسٹی ٹیوٹ اینڈ گلوبل فیوچرز لیبارٹری + the Arizona State University Orin Edson Entrepreneurship کے قائم کردہ رسک انوویشن نیکسز کے ذریعے کاروباری افراد اور دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر اس طرح کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کام کرتے ہیں۔
ٹیسلا بوٹ اپنے ساتھ غیر واضح خطرات کا طوفان لے کر آ رہا ہے۔ اس میں پرائیویسی اور گم نامی کو لاحق ممکنہ خطرات بھی شامل ہیں کیونکہ بوٹ کا دارومدار ممکنہ طور پر حساس معلومات کو جمع کرنے، شیئر کرنے اور ان کے مطابق عمل کرنے پر ہے۔
لوگوں کے انسان نما روبوٹس کے بارے میں رائے اور ردعمل سے جڑے چیلنجز، اخلاقی یا نظریاتی سانچوں سے اس کی ممکنہ عدم مطابقت جیسا کہ جرائم کی روک تھام اور شہریوں کے احتجاج کی نگرانی اور اس طرح کے دیگر معاملات۔
انجینیئرز کے لیے منعقد کی جانے والی ٹریننگز میں شاید ہی ان چیلنجز کا ذکر آتا ہو۔ تاہم انہیں نظر انداز کرنا تباہ کن نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔
جبکہ ٹیسلا بوٹ چاہے بے ضرر یا حتیٰ کہ فضول چیز ہو تب بھی اگر یہ فائدہ مند اور کاروباری نقطہ نظر سے کامیاب ہونا چاہتا ہے تو اس کے تیار کنندگان، سرمایہ کاروں، مستقبل کے صارفین اور دیگر افراد کو چاہیے کہ ان کے نزدیک جن اہم چیزوں کے لیے یہ خطرے کا باعث بن سکتا ہے اس بارے میں سخت سوالات پوچھیں اور معلوم کریں کہ ان خطرات سے نمٹنے کے لیے کیا منصوبہ بندی ہے۔
ان میں مخصوص نوعیت کے خطرات بھی ہو سکتے ہیں جیسا کہ کمپنی کی ہدایات کو نظر انداز کرتے ہوئے لوگوں کا بلا اجازت ترامیم کرنا، مثلاً نتائج سے بے پروا ہو کر اس کے ڈیزائنرز کی منشا کے خلاف اس کی رفتار بڑھانا یا عمومی نوعیت کے خطرات جیسا کہ ناولوں کی طرز پر ٹیکنالوجی کو ہتھیاروں سے لیس کرنا۔
ان میں غیر نمایاں خطرات بھی شامل ہیں مثال کے طور پر کیسے انسان نما روبوٹ ملازمت کے لیے باعث خطرہ یا جدید ترین نگرانی والے سسٹمز سمیت کوئی بھی روبوٹ پرائیویسی کو ختم کر سکتا ہے۔
اس کے علاوہ پھر ٹیکنالوجی کا متعصبانہ رویہ ہے جس کی وجہ سے مصنوعی ذہانت پر کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔
بالخصوص جب اس نے رویوں کی جانچ پڑتال کی تب نہایت متعصب نتائج دیے۔ مثال کے طور پر مصنوعی ذہانت کے الگورتھمز نے جنسی اور نسلی تفریق پر مبنی متعصب نتائج دیے۔
محض اس لیے کہ ہم کر سکتے ہیں کیا ہمیں کرنا چاہیے؟
ٹیسلا بوٹ کی تیاری ممکن ہے مسک کے مستقبل میں مافوق البشر ٹیکنالوجیز تیار کرنے کے منصوبوں کی طرف معمولی پیش رفت ہو اور اس بلند حوصلگی کو ان کا گھمنڈ قرار دے کر رد کرنا بھی نسبتاً آسان ہے۔
لیکن اس کے پیچھے کارفرما بے باک منصوبہ بندی بہت سنجیدہ ہے اور اتنے ہی سنجیدہ سوالات اٹھاتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مثال کے طور پر ایلون مسک کی بصیرت کتنی قابل اعتماد ہے؟ کون یقین سے کہہ سکتا ہے کہ محض اس لیے انہیں یہ کر گزرنا چاہیے کیونکہ وہ اپنے خوابوں کے مستقبل کو حقیقت کا روپ دے سکتے ہیں؟ کیا مسک جس مستقبل کے لیے کوششیں کر رہے ہیں وہ انسانیت کے لیے بہترین یا حتی کہ بہتر بھی ہے؟ اگر اس کے نتائج بھیانک نکلے تو کسے بھگتنا ہوں گے؟
مستقل اور ہمارے اقدامات کے اس پر اثرات کے بارے میں پڑھنے اور لکھنے والے میرے جیسے فرد کے لیے ٹیسلا بوٹ کے بطن سے یہ اہم خدشات جنم لیتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ ٹیسلا بوٹ کا خیال اچھی چیز نہیں یا ایلون مسک کو مستقبل کی تعمیر کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لانا چاہیے۔
اگر ان کا صحیح استعمال کیا جائے تو یہ خیالات اور ٹیکنالوجیز زندگی کو یکسر تبدیل کر کے ایسے مستقبل کی بنیاد رکھ سکتی ہیں جو بلینز انسانوں کے لیے خوشگوار ہو گا۔
لیکن اگر صارفین، سرمایہ کار اور دیگر افراد نئی ٹیکنالوجی کی چمک دمک کے زیر اثر اسے سمجھنے میں ناکام یا اس کی حد سے زیادہ تشہیر کے خلاف اور وسیع تصویر دیکھنے سے قاصر ہیں تو معاشرہ مستقبل کی ڈور ایسے افراد کے ہاتھ میں دینے کے خطرے سے دوچار ہو جائے گا جن کی خواہشات ان کی سوجھ بوجھ سے کہیں زیادہ ہیں۔
اگر مستقبل کے متعلق ان کی خواہشات لوگوں کی توقعات سے ہم آہنگ نہیں ہوتیں یا بری طرح ناقص ثابت ہوتی ہیں تو خدشہ ہے وہ ایک مساوی اور منصفانہ مستقل کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوں گے۔
نوٹ: یہ مضمون پہلے ویب سائٹ دی کنورسیشن پر شائع ہوا اور ان کی اجازت سے ترجمہ شائع کیا گیا۔ اصل مضمون یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔