’روبوٹ، کھڑے ہو جاؤ۔‘ 16 برس کے آسکر کانسٹینزا کمانڈ دیتے ہیں اور آہستہ آہستہ ان کے جسم سے لپٹا ہوا ایک بڑا فریم انہیں سہارا دیتا ہے اور وہ چلنے لگتے ہیں۔
ان کے کندھوں، سینے، کمر، گھٹنوں اور پیروں تک جکڑی ہوئی ’ایکوسکیلیٹن‘ انہیں اس قابل بناتی ہے کہ وہ کمرے میں چل سکیں، تھوڑا گھوم پھر سکیں۔
آسکر کی بیماری جینیاتی ہے جس میں اعصاب ان کی ٹانگوں کو حرکت کے سگنل نہیں بھیجتے۔ آسکر کہتے ہیں، ’اس سے پہلے مجھے چلنے میں مدد کے لیے کسی کی ضرورت ہوتی تھی اب میں آزاد محسوس کرتا ہوں۔‘
آسکر کے والد ’ایکوسکیلیٹن‘ بنانے والی فرم کے مالک ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’ایک دن آسکر نے مجھ سے کہا کہ آپ روبوٹکس انجینیئر ہیں، آپ ایسا روبوٹ کیوں نہیں بناتے جس سے میں چل سکوں؟‘
انہوں نے اپنے بیٹے کو جواب دیا کہ اب سے 10 سال بعد دنیا میں وہیل چیئرز بہت تھوڑی رہ جائیں گی۔ ایسے روبوٹ یقیناً بنیں گے۔ وہ یہ سب یادیں اپنی کمپنی کے اجلاس میں دہرا رہے تھے۔
دنیا کی دیگر کمپنیاں بھی ’ایکوسکیلیٹن‘ تیار کر رہی ہیں اور انھیں زیادہ سے زیادہ ہلکا اور قابل استعمال بنانے کے لیے ان میں مقابلہ جاری ہے۔
کچھ کمپنیاں معذور افراد کو چلنے میں مدد فراہم کرنے پر مرکوز ہیں، دوسری فیکٹری کارکنوں کے لیے مددگار آلات بناتی ہیں۔
کانسٹینزا نے کہا ، ونڈرکرافٹ کا ’ایکوسکیلیٹن‘ ایک ایسا بیرونی فریم ہے جو جسم کی نقل و حرکت میں مدد کرتا ہے بلکہ اس کی حرکات کی مزید قوت دیتا ہے۔
’ایکوسکیلیٹن‘ فرانس، لکسمبرگ اور امریکہ کے درجنوں ہسپتالوں میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ یوروز ($ 176،000) میں فروخت کے لیے پیش گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسے عام افراد ابھی تک روزمرہ استعمال کےلیے نہیں خرید سکتے۔ یہ اگلا مرحلہ ہے جس پر کمپنی کام کر رہی ہے۔
ونڈرکرافٹ انجینیئرز کا کہنا ہے کہ ایک ذاتی ’ایکوسکیلیٹن‘ کو مزید ہلکا پھلکا بنانے کی ضرورت ہوگی۔
پیرس کے 33 سالہ کیون جو 10 سال قبل موٹرسائیکل حادثے میں چلنے کی صلاحیت کھو بیٹھے تھے، اپنے فلیٹ میں اس کا ریموٹ کنٹرول پکڑے اس چلانے کی کوشش میں ہیں۔
ڈنر سے پہلے کی واک کرنے کے بعد کیون کہتے ہیں ’پہلے سگنل دماغ سے ٹانگوں تک جاتے تھے، اس میں بس فرق یہ ہے کہ اب سگنل ریموٹ کنٹرول سے ٹانگوں تک جا رہے ہیں۔‘