’موت صرف چند لمحے ہی دور تھی۔ کیوں کہ ہمیں پکڑنے کے بعد جہاں منتقل کیا گیا ادھر پندرہ منٹ ہی گزرے تھے کہ فائرنگ کی آوازآئی، بندی خانے میں افراتفری مچ گئی اور طالبان کےمسلح اہلکار چوکس ہوگئے۔‘
تمام مسلح اہلکارباہر جانے لگے اور انہوں نے دو اہلکاروں کو ہماری حفاظت پر مامور کردیا۔ انہوں نے جاتے ہوئے کہاکہ ’اگر باہرجنگ کی کیفیت پیدا ہوگئی تو ان قیدیوں کو گولی ماردینا۔‘
’ہم نے سمجھ لیا کہ بس موت کے آنے میں دیرنہیں۔ دوسرا ہم نے اس وقت سمجھا کہ اب یہاں سے بچنا مشکل ہے۔ جب 31 اگست کو امریکہ مکمل انخلا کررہا تھا ہم نے سوچا کہ امریکہ کے جانے کے بعد حالات خراب ہوجائیں گے، جنگ شروع ہوجائے گی، ہم کسی کے بھی ہاتھ میں آسکتے ہیں۔ اگرباہر والے نہیں آئے تو ہمارے محافظ ہی ہمیں گولی مار کر ختم کردیں گے۔‘
نوبل انعام یافتہ ناول نگار گبرئیل گارشیا مارکیز کے ناول تنہائی کے سوسال میں جس طرح مرکزی کردار ماکوندوکوساری زندگی وہ لمحہ یاد رہتا ہے۔ جب اسے فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑاکردیا جاتا ہے، موت صرف چند لمحوں کی دوری پر ہوتی ہے کہ بندوقیں نیچے ہوجاتی ہیں وہی ان دونوں صحافیوں کا حال ہوا۔
بلوچستان کے ضلع خضدار سے تعلق رکھنے والے پاکستانی ٹی وی چینل 92 نیوزکے نمائندے محمد اقبال مینگل اور ان کے ساتھ کیمرہ مین سلطان شہزاد نے افغانستان کے حالات جاننے کےلیے چمن کے راستے قندھار کابل کا سفر کیا تھا۔
انہیں کابل میں طالبان نے گرفتار کرکے جیل میں بند کردیا تھا۔ یہ گرفتاری کیوں ہوئی اور کتنے وقت کے بعد انہیں رہائی ملی یہ سب اقبال کی زبانی جانتے ہیں۔
محمد اقبال مینگل نے بتایا کہ جب ہم کابل پہنچے تو اسی رات کو ایئرپورٹ کے قریب دھماکہ ہوا اور ادارے کی طرف سے کہا گیا کہ اس حوالے سے معلومات بھیجیں۔
اقبال اور ان کے کیمرہ مین ساتھی ٹیکسی کرائے پر لے کر کابل کے ہسپتال پہنچے اور وہاں سے اپنےٹی وی چینل کو صورتحال کے حوالے سے بیپر کے ذریعےبتایا اور بعد میں ایک اورریکارڈنگ بھی کی۔
وہ اور ساتھی کام ختم کرکے واپس اپنے ٹھکانے کی طرف روانہ ہوئے اور انہیں گاڑی نے ایک گلی کے نکڑ پر اتاردیا۔ کرایہ دینے کے بعد وہ روانہ ہوئے تو کچھ دور جانے کے بعد انہیں احساس ہوا کہ وہ غلط سمت میں جارہےہیں۔ کچھ دیر بھٹکنے کے بعد اقبال نے سلطان کو کہا کہ چلو یہاں پر کھڑے طالبان سے پوچھ لیتے ہیں کہ یہ جگہ کہاں پرہے۔ اقبال نے بتایا کہ جب ہم ان سے جگہ کے حوالے سے معلومات کررہے تھے تو میں نے محسوس کیا کہ وہ آپس میں کچھ ایسی باتیں کررہے تھے کہ مجھے خوف محسوس ہوا۔
میں نے اپنے ساتھی کو براہوی زبان میں کہا کہ حالات ٹھیک نہیں ان کو جلدی سے لوکیشن بتاؤ اور نکلو ورنہ پکڑے جائیں۔ اس نے کہا کہ کچھ نہیں ہوتا۔
سلطان نے گوگل میپ کے ذریعے معلوم کیاکہ ہماری منزل 300 میٹر دور ہے۔ ’ہم نےان سے کہا کہ ہم نےراستہ ڈھونڈ لیا ہے ۔ آپ کی مہربانی اب ہم چلتے ہیں۔ اس دوران ایک طالب نے میرے دوست کے موبائل میں نقشہ دیکھ لیا۔‘
’جب ہم جانےلگے تو انہوں نے کہا کہ تم لوگ نہیں جاسکتے کھڑے رہو۔ انہوں نے ایک اور بندے کو کال کرکے بلایا وہ دس منٹ کے بعد آگیا اور انہوں نے کہا تم لوگ جاسوس ہو اور ہمارا لوکیشن بتارہے ہو۔ بس یہ کہنا تھا کہ وہ ہم پرجھپٹ پڑے اور موبائل وغیرہ چھین کر لے گئے۔‘
’جب تلاشی کے دوران میری جیب سے انہوں نے شناختی کارڈ نکالا توانہوں نے دیکھ کر کہاکہ یہ تو پاکستانی جاسوس ہے۔ جس کے بعد انہوں نے ہمیں بندوقوں کے بٹوں سے مارنا شروع کیا۔ پھر ہمیں ایک جگہ لے جاکر بند کردیا۔‘
اقبال کہتے ہیں کہ گرفتاری کے بعد جب انہوں نے پوچھ گچھ شروع کی کہ کس کے پاس رہتے ہو تو میں نے اپنے میزبانوں میں سے دو کا نام بتایا میرے ساتھی نے تین نام بتائے۔ جس پران کے شک ہوا کہ شایدہم واقعی جاسوس ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ میرے یہ بتانے کے باوجود کہ میں میڈیا کا بندہ ہوں میرے موبائل چیک کرسکتے ہو ’انہوں نے ایک گھنٹہ تک ہمیں تشدد کا نشانہ بنایا اور جب ان کے امیر وہاں پہنچے تو حالات کچھ بہتر ہوئے۔‘
طالبان کے ایک مسلح اہلکار جو زیادہ جذباتی اور کسی کی بات نہیں سنتے تھے انہوں نے اقبال کو کہا کہ ’تم پاکستانی جہاد کیوں نہیں کرتےہو اس پر میرے یہ کہنے پر کہ یہ میری لائن نہیں میں تو خبریں دینے والا بندہ ہوں، اس نے مجھے بندوق کے بٹ سے مارنا شروع کیا۔‘
’اس نے اپنی پوری طاقت استعمال کرکے مجھےدودفعہ مارا اور جب تیسری دفعہ اس نے ہاتھ بلند کیے تو میں نے سمجھا کہ اب تو میں بچ نہیں پاؤں گا اور اس دوران میں نے ایک بلند چیخ ماری جس پر باہر موجود ان کا امیر دوڑتا ہوا آیا۔‘
’اس نے طالب کو ڈانٹ پلائی کہ کیاکررہے ہو۔ میں نے کہا کہ یہ مجھے جان سے مارنے لگاتھا میں نے اس لیے خوف سے چیخ ماری۔ جس پرطالب کو وہاں سے باہر نکال دیا گیا۔ امیر چونکہ اردو جانتا تھا میں نے کہا کہ یہ آپ لوگوں کا اسلام ہے اور یہ شریعت ہے؟ ایک بندے کو بنا کسی ثبوت کے تشدد کا نشانہ بنارہے ہو۔ اگر میں مجرم ثابت ہوجاؤں تو پھر تشدد کریں۔‘
’امیر کا جواب میرے لیے حیران کن تھا کہ آپ ثبوت ملنے کے بعد تشدد کی بات کررہے ہیں، ہم ثبوت ملنے پر بھی کسی مجرم پر تشدد کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ میں نے کہا کہ پھر یہ کیا ہورہاہے۔ امیر نے کہا کہ طالب نے جو کیا غلط کیا میں نے اس کی سرزنش کی ہے۔ اس پر غصے کا اظہار کیا آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔‘
اقبال نے بتایا کہ ہمیں جس جگہ رکھا گیا تھا۔ وہاں سے پوچھ گچھ پر پتہ چلا کہ یہ این ڈی ایس کا ہیڈ کوارٹرہے۔ یہاں پر پہلے انتہائی خطرناک مجرموں کر تفتیش کے لیے لایا جاتا تھا۔
ان دونوں صحافیوں کی گمشدگی کی خبر اس وقت منظر عام پرآئی جب کابل ایئرپورٹ کے قریب ایک خوفناک دھماکہ ہوا تھا۔
اقبال نے بتایا کہ جیل میں گزرے دنوں کے دوران کبھی مایوسی اور کبھی امید کی کرن نظرآتی تھی کہ اب شاید ہمیں رہائی مل جائے گی۔
وہ مزید بتاتے ہیں کہ جب ہم وہاں قید تھے تو میں نے دیکھاکہ ایک نوجوان کو لایا گیا جس پر اتنا تشدد کیا گیا تھا کہ اس کی کپڑے پھٹ گئے تھے اور اس کی پیٹ پر زخم کے نشانات بھی نمایاں تھے۔
اقبال نے بتایا کہ کہا گیا کہ یہ نوجوان گونگا ہے۔ ’میں نے اس سے اشاروں میں پوچھا کہ اسے کیوں پکڑا گیا ہے۔ تو اس نے بتایا کہ واٹس ایپ پر ویڈیو کال کررہا تھا۔ اس وجہ سے طالبان نے پکڑلیا۔‘
اقبال کہتے ہیں کہ نوجوان کو بعد میں بھی تشدد کانشانہ بنایا گیا انہیں شک تھا کہ کہ شاید یہ گونگا ہونے کا ڈرامہ کررہاہے۔
انہوں نے بتایا کہ جیل کی سکیورٹی پر طالبان کے بدری یونٹ کےاہلکارتعینات تھے۔ ’وہاں ہم نے دیکھا کہ ایک مولوی بھی تھے۔ جن کا رویہ تمام قیدیوں کے ساتھ انتہائی ہمدردانہ تھا۔‘
اقبال کہتے ہیں کہ جب وہ مولانا جیل میں داخل ہوتے تو قیدی ان کی طرف لپک کر جاتے تھے۔ وہ کبھی انہیں موبائل دے دیتے یا کوئی اور مدد کردیتے۔ اسی وجہ سے ہمیں یہ بھی پتہ چلا کہ انہیں جیل سپرنٹنڈ نٹ کی طرف سے تنبیہ کاخط بھی لکھا گیا کہ وہ کیوں قیدیوں کی مدد کرتے ہیں۔ جس پرانہوں نے ہمیں موبائل دینا بند کردیا۔
خضدار کی تحصیل اور پاکستانی ٹی وی چینل 92 نیوز سے تعلق رکھنے والے اقبال نے افغانستان جانے کی وجہ بتاتے ہوئے کہاکہ میرا مقصد وہاں کے زمینی حقائق دنیا کے سامنے لانا تھا اورہم نےسوچا کہ وہاں جاکر سکول اور ہسپتال کا دورہ کرکے حقائق معلوم کریں گے۔
اقبال کے بقول ’ہم یہ بھی سامنے لانا چاہتے تھےکہ طالبان کا خواتین کے حوالےسے کیا رویہ ہے اور کیا وہ بچیوں کو تعلیم کی اجازت دے رہے ہیں۔‘
وہ مزید بتاتے ہیں کہ قندھارسے کابل تک سفر کے دوران ہم نے دیکھا کہ لوگ یہاں پشتو اور فارسی میں بات کرتےہیں۔ لیکن کوئی اردو میں بات کرتا تو اسےانتہائی نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھااور یہ عوام میں بھی موجود تھی۔
ان کہنا تھا کہ یہ رویہ ہمیں ہوٹل اور دیگر جگہوں پر زیادہ دیکھنےکوملا جب وہ سمجھ جاتے کہ ہم پاکستانی ہیں۔
اقبال کے مطابق: قندھار ہمیں پاکستان کے ایک شہر کی طرح لگا اور وہاں ہم نےدیکھا کہ لوگ طالبان کے حمایتی ہیں۔ دوسری جانب ہرات اور کابل میں منظرکچھ اور تھا۔
وہ بتاتےہیں کہ ’ہرات کے لوگ طالبان اورپاکستان، دونوں سے نفرت کرتے ہیں۔ قندھار کی نسبت ہرات والے زیادہ دھوکہ باز ہیں۔ چوری کی وارداتوں کا بھی خطرہ موجود تھا۔ ہمیں ایک بندے نےخبردار بھی کیاکہ لوگ موبائل چھین لیتے ہیں۔ احتیاط کریں۔‘
اقبال نے بتایا کہ قندھار سے کابل جاتے ہوئے ہم نے دیکھا کہ اکثر سڑکیں تباہ ہوچکی ہیں۔ پل بھی ٹوٹے ہوئےہیں۔ جس سے جنگ کے اثرات واضح ہورہےتھے۔ جس کی باعث سفر طویل ہوجاتا تھا۔
’اس دوران راستےمیں طالبان کے اہلکار صرف گاڑیوں میں جھانک کر لوگوں کو دیکھ لیتے اور کچھ نہیں کہتے تھے۔ ان کا رویہ بہتر تھا۔ ہر دس کلو میٹر پر سڑک ٹوٹی ہوئی تھی۔‘
اقبال اور ان کے کیمرہ مین ساتھی سلطان شہزاد 26 اگست کو کابل پہنچے اور انہیں ایک ٹی وی چینل کی عمارت میں جگہ دی گئی۔
اقبال مینگل نے بتایا کہ جیل جو این ڈی ایس کا ہیڈ کوارٹرہے۔ وہاں منتقلی کے بعد ہمیں جہاں لے جایا گیا راستے میں ہمارے آنکھوں پر پٹی باندھی گئی اورہاتھ بھی بندھے تھے۔
’جب ہمیں جیل منتقل کیاگیا تو ایک جگہ لے جا کرآنکھوں سے پٹی کھول دی گئی اور پانی پلایا گیا۔ پھر ہمیں ایک زیر زمین جگہ لے جایا گیا جو بیرک نما جگہ تھی جس میں دو گلیاں تھی اور دونوں طرف سیل بنے ہوئے تھے۔‘
اقبال نے بتایا کہ ’جیلرجس کا نام عطاللہ مدنی تھا اس نے ہم سے تفتیش کی اور میں نے انہیں بتایا کہ ہم کون ہیں اور کس لیے یہاں آئے ہیں۔ موبائل اور دوسرے تمام ثبوت موجود ہم آپ کے وزیر اطلاعا ت کے کہنے کے مطابق تمام طریقہ کار کے مطابق پہنچے ہیں۔ اجازت نامے بھی ہیں۔‘
’میں نے محسوس کیا کہ جیلرایک بغض رکھنے والا بندہ ہے۔ اس نے ثبوت دیکھنے کے باوجود کہا کہ تم لوگ یہاں آئے کیوں ہو۔ اس نے پشتو میں کہا کہ مجھے تم لوگوں (یعنی پاکستانیوں) سے سخت نفرت ہے۔‘
اقبال کہتے ہیں کہ ان کے معاون نے انہیں بتایا کہ تم لوگوں کا معاملہ صاف ہے۔ اگر جیلر چاہے تو تم لوگوں کو جلد رہائی مل سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہی بات ہوگئی اور جیلر نے ہم سے نفرت کی بنا پر کاغذات آگے نہیں بجھوائے اور اسی وجہ سے ہم 11 دن کابل کی جیل میں بند رہے۔
’اس کے علاوہ جیلر جب بھی دورہ کرتا تو ہمارے پاس آکر کہتا تھا کہ تم لوگ پنجابی ہو۔ میں جتنا کہتا کہ میں بلوچ ہوں اور بلوچستان سے تعلق ہے تو وہ کہتا تھا کہ آئے تو پاکستان سے ہو۔ تم لوگوں نے ہماراملک تباہ کردیا ہے۔‘
اقبال کے مطابق ’اس دوران طالبان کے ایک بڑے رہنما نے جیل حکام سے رابطہ کرکے انہیں بتایا کہ یہ لوگ بے گناہ ہیں اور صحافی ہیں۔ ان کو رہا کردیں میں ان کی ذمہ داری لیتا ہوں۔ پہلے تو جیل حکام نے انکار کردیا کہ ان کے پاس ایسے کوئی لوگ نہیں ہیں۔ جب ہم نے لوکیشن بھیجی تو جیل والوں نےرہنما کو بتایا کہ یہ لوگ ہماری قید میں ہیں لیکن جب تک ہمارے مشران اجازت نہیں دیں گے رہائی ممکن نہیں ہوسکتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اقبال مینگل کہتے ہیں کہ ’اس تمام سفر کے دوران میں نے طالبان کو تین طرح سے دیکھا ہے۔ ایک وہ ہیں جن کی اکثر عمر جنگ کرتےہوئے گزری ہے۔ وہ صرف ماردھاڑ جانتے ہیں۔ دوسرے وہ ہیں جو کچھ بہترہیں۔ لیکن وہ بھی دنیا سے کٹے ہوئے نظر آتےہیں۔ تیسرے درجے میں وہ رہنما ہیں۔ جو طالبان کی اعلیٰ قیادت ہے۔ وہ اچھے اور سلجھےہوئے لوگ ہیں۔ جن سے بات کرنا اور انہیں اپنی بات سمجھانا آسان ہے۔‘
اقبال نے بتایا کہ میں نے ہرات کو بہت صاف ستھرا شہر دیکھا اور لوگ بھی اس کا خیال رکھتے تھے۔ ہم نے ایک ریڑھی والے سے پھل خریدے تو اس نے ہمیں دو تھیلیاں دیں ایک میں پھل اور دوسرا خالی تھا۔ اس نے کہا کہ کچرا سڑک نہ پھنکیں بلکہ اس میں ڈال کر کچرا دانی میں ڈال دیں۔
’ہم نےاس سفر کےدوران خوراک کی قلت نہیں دیکھی۔ ہرات میں ایک ڈیلر نے بتایا کہ طالبان آنے کے بعد پراپرٹی کی قیمتیں آدھی گرگئی ہیں۔ تاہم بینک اور دفاتر کی بندش سے لوگ بہت پریشان تھے۔‘
’بینکوں اور دفاتر پر قابض طالبان جنگجو نہیں جانتے تھے کہ اس نظام کو کس طرح چلانا ہے۔ جس سے شہری جلد حکومت کے قیام اور دفاتر کے معاملات بحال کرنے کا مطالبہ کرتےتھے۔‘
بلوچستان کے صحافیوں کی گمشدگی اور بعد میں طالبان کے ہاتھوں گرفتاری کی خبریں سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آئیں۔
واضح رہے کہ بلوچستان کے سرحدی شہر چمن سے تعلق رکھنے والے پشتو ٹی وی چینل کے نمائندےمتین خان کو بھی سپن بولدک میں طالبان میں کچھ وقت کےلیے حراست میں لیا تھا۔
محمداقبال اور ان کے ساتھی کو گیارہ روز بعد جیل سے رہائی ملی اور انہوں نے وہاں سے واپس قندھار کی طرف سفر شروع کیا اورچمن کے راستےواپس کوئٹہ اور پھر اپنے علاقے خضدار چلے گئے۔