’خواجہ سراؤں کو گوگل یا یوٹیوب سے ڈاؤن لوڈ نہیں کیا گیا۔ وہ کوئی خلائی مخلوق نہیں ہوتے۔ انہیں بھی ایک عورت ہی پیدا کرتی ہے، لیکن یہ معاشرہ انہیں قبول نہیں کرتا۔‘
مسلم دنیا میں کسی سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والی پہلی خواجہ سرا نایاب علی بھی دیگر خواجہ سراؤں کی طرح معاشرتی رویوں پر نالاں نظر آتی ہیں۔
نایاب علی، پاکستان میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرتی ہیں۔ وہ 2018 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے 142 سے پاکستان تحریک انصاف (گلالئی) کی امیدوار تھیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا: ’میرا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے مگر میں نے پاکستان تحریک انصاف (گلالئی) سے ٹکٹ لے کر ملک کے سب سے بڑے قانون ساز ادارے کے لیے الیکشن لڑا۔ میں نے گلالئی گروپ سے الیکشن اس لیے لڑا کیونکہ کہ کوئی اور سیاسی جماعت مجھے ٹکٹ دینے کے لیے تیار نہیں تھی۔‘
اپنے الیکشن میں کھڑے ہونے کی وجہ کے حوالے سے نایاب نے بتایا کہ ’ضروری ہے کہ خواجہ سراؤں کی نمائندگی پارلیمنٹ اور قانون ساز اداروں میں بھی ہو کیونکہ کوئی خاتون یا مرد خواجہ سراؤں کے مسائل کو نہیں سمجھ سکتا۔ اگر میرے سر میں تکلیف ہے تو اس تکلیف کی شدت میں ہی بتاسکتی ہوں کوئی اور نہیں بتا سکتا۔‘
ساتھ ہی انہوں نے سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ خواجہ سراؤں کو سینیٹ یا قومی اسمبلی کی جنرل سیٹ پر منتخب کرائیں جبکہ انہیں مخصوص نشستوں پر بھی منتخب کیا جانا چاہیے۔
معاشرتی رویوں پر بات کرتے ہوئے نایاب نے کہا: ’ہمارا معاشرہ ہمیں قبول نہیں کرتا اور جب آپ سوسائٹی کی بات کرتے ہیں تو اس میں قانون نافذ کرنے والے ادارے، ڈاکٹرز اور اساتذہ بھی شامل ہیں۔ پڑھے لکھے خواجہ سراؤں کو نوکری نہیں ملتی اور اگر نوکری مل بھی جائے تو مردوں اور خواتین کے مقابلے میں ہمیں تنخواہ کم دی جاتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’لوگوں کا رویہ ہمارے ساتھ صحیح نہیں ہوتا۔ یہ رویے اس سوچ کا نتیجہ ہیں جس کی انہیں تربیت دی جا رہی ہے۔ ہماری کتابیں پڑھیں تو کسی بھی خواجہ سرا کا مثبت ذکر نہیں ہے۔ بچوں کو اسکول میں یہی بتایا جاتا ہے کہ مرد اور عورت ہیں خواجہ سراؤں کا وجود ہی نہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ کچھ پڑھے لکھے لوگ بھی ہمیں اچھوت سمجھتے ہیں۔‘
نایاب کے مطابق: ’آپ کسی بھی ادارے میں چلے جائیں خواجہ سراؤں کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور انہیں تضحیک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ہمارے مسائل کو سننا تو دور ہم سے بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ سرکاری و نجی اداروں میں ملازمت نہیں دی جاتی اور اگر نوکری مل بھی جائے تو معاوضہ کم دیا جاتا ہے۔ انہیں ہر وقت تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ بالآخر خواجہ سرا کہتا ہے کہ میں نوکری ہی نہیں کرتا، میرے لیے وہی زندگی ٹھیک ہے۔‘
لیکن ان کا ماننا ہے کہ خواجہ سرا کمیونٹی کو بھی اپنی سوچ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بہت سے خواجہ سرا سمجھتے ہیں کہ اس معاشرے میں رہنا ہے تو ہمیں تشدد اور حق تلفی کو برداشت کرنا ہے۔ بقول نایاب: ’ہم جب تک حق کے لیے لڑیں گے نہیں، اپنے حق کے لیے آواز نہیں اٹھائیں گے تب تک ہم حقوق سے محروم رہیں گے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ خواجہ سراؤں کو کمتر سمجھنے والے یا ان سے نفرت کرنے والوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خواجہ سرا قابلیت کے اعتبار سے کسی مرد یا عورت سے کم نہیں۔ آج پوری دنیا میں خواجہ سرا وکیل بھی ہیں، ڈاکٹر، سیاستدان اور پروفیسر بھی ہیں۔ اگر ہمیں ہمارے جائز حقوق دیئے جائیں اور تفریق نہ کی جائے تو ہم ہر شعبے میں خود کو ثابت کرسکتے ہیں۔
نایاب کا کہنا ہے کہ خواجہ سراؤں کے حقوق کے حوالے سے قوانین تو بنائے گئے ہیں مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ آئے روز خواجہ سراؤں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انہیں روزگار کے مواقع میسر نہیں اس لیے خواجہ سرا ناچنے گانے پر مجبور ہیں۔ حکومت کو خواجہ سراؤں کے لیے کوٹہ سسٹم مختص کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے قوانین بنانے کی ضرورت ہے کہ خواجہ سراؤں کو صرف سرکاری ہی نہیں بلکہ غیر سرکاری اداروں میں بھی نوکریاں دی جائیں۔