ایک سال پہلے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی بنیاد اس جواں اور توانا امید پر رکھی گئی کہ سیاسی مزاحمت کے ذریعے موجودہ نظام کو سرنگوں اور 2018 کے انتخابات کے بعد ملک میں پیدا ہونے والے سیاسی بحران کو قبل ازوقت انتخابات کے ذریعے سیاسی کامیابی میں بدلنا ہوگا۔
پچھلے اتحادوں کی طرح پی ڈی ایم بھی سیاسی طاقت کے حصول کے لیے ایک ذریعہ تھا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ملکی مسائل کو حتمی طور پر طے کرنے کا عزم بظاہر اس اتحاد کو ایک غیرمعمولی اہمیت دیتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ حالات بھی موافق تھے۔
موجودہ حکومت کے پہلے سال معیشت 5.8 فیصد کی شرح سے گر کر منفی میں چلی گئی تھی۔ دوسرے سال شرح ترقی دو فیصد پر کھڑی تھی اور بین الاقوامی اداروں کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار اگلے چند سالوں کے بارے میں ایک بھیانک تصویر بنا رہے تھے۔ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے نوکریاں ختم ہو رہی تھیں، مہنگائی غیر معمولی حدوں کو چھو رہی تھی۔ عوام پریشان تھی۔
یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے عمران خان آپشن کشش ثقل کھو کر بادلوں میں تحلیل ہو رہی ہے۔ یعنی وہ تمام اجزائے ترکیبی موجود تھے جن سے ایک مضبوط سیاسی مزاحمت کو کامیابی نصیب کروائی جا سکتی تھی۔
مگر ایک سال کے عرصے میں پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ نے اپنے ساتھ وہی کیا جو حکومت نے تین سال میں خود پر گزاری۔ اتحاد نفاق میں تبدیل ہو گیا۔ جن توپوں سے حکومت کے قلعے کی فصیلیں تباہ کرنی تھیں وہ اتحادیوں نے اپنی طرف تان لیں۔ جس تنقید سے موجودہ نظام کے پرخچے اڑانے تھے اس کی طاقت ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے کے لیے استعمال ہونا شروع ہو گئی۔
حکومت کو تبدیل کرنے کا لائحہ عمل درجنوں یو ٹرن کے بعد ایک ایسے اونٹ میں بدل گیا جس کی کوئی کل سیدھی نہیں۔ آغاز کیا تھا عوامی سیلاب سے اسلام آباد کو مسخر کرنے کا، اختتام ہوا ہے ٹویٹس اور پریس ریلیزز کے توسط مزمت کرنے پر۔ عہد کیا تھا استعفے دے کر اسمبلیوں کو مفلوج کرنے کا، انجام یہ ہے کہ پانچ سال کے بعد انتخابات کی شفافیت کی منتیں کی جا رہی ہیں۔
کہا گیا تھا کہ 2018 میں انتخابات کی مبینہ دھاندلی کرنے والوں کا احتساب کیا جائے گا اب بات ٹھہر گئی ہے کہ ہر 15 دن کے بعد اپنی ضمانت میں توسیع ہو جائے تو شکر بجا لائیں گے۔ تب مریم نواز اور بلاول بھٹو بھائی بہن کے حوالوں سے خود کو متعارف کرواتے تھے اب حالت یہ ہے کہ حکومتی وزیروں سے بڑھ کر پیپلز پارٹی کی قیادت ن لیگ کا اور ن لیگ پیپلز پارٹی کا تمسخر اڑاتی ہے۔
کہاں عوامی نیشنل پارٹی مولانا فضل الرحمان کے پیچھے صفیں باندھ کر نماز پڑھنے پر تیار تھی اور کہاں دونوں ایک دوسرے کو موجودہ قومی بحران کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ وہ زمانہ تھا جب آصف علی زرداری جے یو آئی کے ساتھ مل کر سب پر بھاری ہونا چاہتے تھے اب وقت یہ ہے کہ آپس میں رابطہ کرنے کے لیے سرتوڑ کوشش کرنا پڑتی ہے۔ پہلے عوامی جلسے کر کے خوش ہوتے تھے، لوگوں کے دلوں کو گرمانے والی تقاریر کرنے کے بعد خود کو شاباشی دیتے تھے، اب اپنے کارکنان کو وضاحتیں دیتے پھر رہے ہیں کہ نواز شریف اور شہباز شریف کے درمیان کوئی خلیج نہیں، دشمن کی افواہوں پر کان نہ دھریں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کہاں مریم نواز کیمروں کے سامنے سے ہٹتی نہ تھیں اور کہاں آج کل کی صورت حال کہ سیاسی میٹنگز میں ان کی شرکت کے بارے میں شہباز شریف سے اجازت لینا پڑتی ہے۔ ایک سال پہلے مزاحمتی لشکر سر پر کفن باندھے تیار کھڑے نظر آ رہے تھے۔ ایک سال کے بعد مفاہمت کے وفد درخواستیں لے کر دائیں بائیں گھوم رہے ہیں۔
پی ڈی ایم نے ایک سال میں خود کو سیاسی طور پر تباہ کرنے کی بنیاد اسی وقت رکھ لی تھی جب اس نے سوچے سمجھے بغیر عوامی طاقت سے حکومت کو گرانے کا ہدف متعین کیا تھا۔ لڑکپن کی سیاست میں اس قسم کی خواہشات سمجھ میں آتی ہیں مگر ایسی جماعتیں جو کئی نسلوں سے طاقت کے کھیل سے منسلک ہیں خود کو ایک ناقابل عمل رستے پر ڈالنے کی جستجو کو لے کر کیوں کھائی میں چھلانگ لگا رہی تھیں؟
اس کی وضاحت صرف جذباتی فیصلوں کے حوالے سے نہیں کی جا سکتی۔ پیپلز پارٹی کو پتہ تھا کہ نہ انہوں نے حکومت کی ٹانگ کھینچنی ہے اور نہ ہی شہباز شریف کا دھڑا مقتدر حلقوں کی مخالفت کے باوجود یہ کام کرنے پر تیار ہو گا۔ پیپلز پارٹی کے دونوں مفروضے درست ثابت ہوئے۔ انہوں نے کمال مہارت سے پی ڈی ایم کے اتحاد کو اپنے لیے نام نہاد احتسابی عمل سے بچنے کا ایک موثر ذریعہ بنایا۔
شہباز شریف جو کچھ ماہ پہلے سیاست سے کنارا کشی کی باتیں کر رہے تھے، پی ڈی ایم کی ابتدائی دھماکہ خیز اٹھان سے ملک کی اسٹیبلشمنٹ کو یہ باور کروا پائے کہ مفاہمت کے ذریعے ملک میں اٹھتے ہوئے ابال کو ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کی یہ توقع غلط ثابت ہوئی کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی حکومت کو ہٹانے کے لیے ان کی طرف سے تجویز کردہ لائحہ عمل پر قائم رہیں گی اور وہ پنجاب اور سندھ میں سے جلسے جلوسوں کے ہنگامے کے بعد سیاسی طور پر خود کو بطور مرکزی معاملہ کرنے والے قائد کے طور ہر متعین کر پائیں گے۔
پاکستان ڈیموکریٹک الائنس نے اسٹیبلشمنٹ اور موجودہ حکومت کے درمیان عملی وابستگی کو بھی صحیح طریقے سے نہیں تولا۔ وہ یہ بھول گئے کہ عمران خان کو ہٹانے کے لیے نہیں لایا گیا۔ نہ ہی کسی نے یہ سوچا کہ اگر یہ نظام قائم رہتا ہے تو پی ڈی ایم کا مستقبل کیا ہو گا؟
لہذا ایک سال بعد پی ڈی ایم کی حالت حکومت سے مختلف نہیں۔ دونوں نے اپنے ساتھ وہ سب کچھ کیا جو بدترین مخالفین تمام تر قوت کے استعمال کے بعد بھی نہ کر پاتے۔