حکومت پاکستان خصوصاً وزیر اعظم عمران خان ہمسایہ ملک افغانستان میں نئی طالبان حکومت کے ’وکیل نمبر ایک‘ بن کر سامنے آئے ہیں۔ یہ پاکستان کی شبیہہ کے لیے کتنی اچھی یا بری بات ہے؟
وزیر اعظم عمران سے لے کر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور مشیر برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف تک سب ہی بین الاقوامی برادری سے طالبان کو ’انگینج‘ کرنے کا مشورہ تواتر سے دے رہے ہیں۔
یہ اعلیٰ ترین عہدیدار عالمی اجلاسوں، پریس کانفرنسوں، اخباری مضامین اور انٹرویوز میں افغان طالبان سے بات کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ طالبان کو تنہا چھوڑنا ایک سنگین غلطی ہوگی۔ ’افغانستان کو تنہا چھوڑنے کے نتیجے میں پناہ گزین اور سکیورٹی کے بحران پیدا ہوں گے جو کسی ایک علاقے یا خطے تک محدود نہیں رہیں گے۔‘
یہ بات کوئی اتنی بری نہیں کیونکہ ماضی میں دنیا کا افغانستان کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ القاعدہ اور دیگر تنظیموں کی موجودگی کی شکل میں دیکھ چکے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آیا پاکستان کو جس پر افغان طالبان کی مدد کے الزامات پہلے دن سے لگائے جاتے ہیں اسے ایسا کرنے کی ضرورت ہے؟ یہ ذمہ داری کوئی دوسرا ملک کیوں نہیں نبھانا چاہتا ہے؟
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ دیگر خطے کے ممالک کے ساتھ مل کر مشترکہ طور پر طالبان سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ عمران خان نے اس سلسلے میں طالبان سے بات کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔
پاکستان کے سابق سفیر عاقل ندیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے اس حکمت عملی کو غلط قرار دیا ہے۔
’میرے خیال میں یہ بہت ایموچور پالیسی ہے جس سے لگتا ہے کہ پاکستان افغانستان میں فتح کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے۔ یہ ہماری اس شبیہہ کو بری طرح متاثر کر رہی ہے کہ ہم افغانستان میں مداخلت نہیں کر رہے اور ہمارا وہاں کوئی پسندیدہ گروپ نہیں ہے۔ یہ ہمارے بیانیے کے خلاف بات ہے۔‘
عاقل ندیم کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں اس پالیسی پر کچھ زیادہ سوچا نہیں گیا ہے۔ ’اس پالیسی میں یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ یہ ہمیں دنیا میں مزید اکیلا (آئسولیٹ) کر دے گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا مشورہ تھا کہ افغان حکومت میں تمام اہم گروہوں اور سیاسی شخصیات کی شمولیت کے لیے خاموشی سے کام کرنا چاہیے۔ اس میں اپنے آپ کو عوامی سطح پر کم از کم زیادہ آگے دیکھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں میگا فون سفارت کاری سے گریز کرنا چاہیے۔‘
امریکہ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے عاقل ندیم نے اس بابت گذشتہ دنوں خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے دورہ کابل کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ اسے اتنا ہائی پروفائل نہیں بنانا چاہیے تھا۔ ’میڈیا سے خفیہ ایجنسیاں نہیں بلکہ سیاسی قیادت بات کرتی ہے۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ کوئی دوسرا ملک یہ ذمہ داری کیوں ادا نہیں کر رہا تو ان کا جواب تھا کہ ’دیگر ممالک بھی یہ ضرور کر رہے ہوں گے۔ چین، ایران اور روس خاموشی کے ساتھ طالبان کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ وہ انہیں پبلک نہیں کر رہے ہیں۔ ہمیں بھی یہی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔‘
مبصرین کے مطابق خاموش سفارت کاری کیسے ممکن ہے جب ابتدا میں پاکستانی وزرا اور اعلیٰ حکام نے یکے بعد دیگرے افغانستان سے متعلق ایسے بیانات دیے جن سے وہ مزید تنقید کا نشانہ بنا۔
دنیا کے اکثر ممالک طالبان کی حکومت تسلیم کرنے سے متعلق یقیناً سوچ رہے ہیں۔ کئی مغربی ممالک کے وزرا اسلام آباد اپنے خدشات اور مطالبات کی فہرستیں لے کر گذشتہ دنوں آئے بھی تھے۔ انہیں اپنے قومی مفادات کے تناظر میں بعض ضمانتیں درکار ہوں گی۔ کل کو اگر طالبان اپنی بات سے پھر جاتے ہیں تو پھر پاکستان کہاں کھڑا ہوگا؟
امریکہ کے سابق قومی سلامتی مشیر لیفٹیننٹ جنرل ایچ آر میک ماسٹر نے گذشتہ دنوں پالیسی ایکسچینج سیمینار میں کہا تھا کہ ’اگر پاکستان نے جہادی گروہوں کی حمایت بند نہ کی تو اسے ایک ’اچھوت ریاست‘ سمجھا جانا چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں یہ دکھاوا بند کرنا ہوگا کہ پاکستان شراکت دار ہے۔ پاکستان ان افواج کو منظم، تربیت اور لیس کرکے اور دہشت گرد تنظیموں کو اپنی خارجہ پالیسی کے ایک بازو کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ہمارے خلاف دشمن قوم کے طور پر کام کر رہا ہے۔‘
اسی طرح پختون سیاست دان، نئی جماعت نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے بانی اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے ایک اخباری مضمون میں لکھا کہ وہ شمالی وزیرستان کے منتخب نمائندے کی حیثیت سے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کا مطالبہ کب سے کر رہے ہیں تاکہ ’افغانستان کی صورت حال، طالبان کے قبضے اور طالبان کے لیے ہماری ریاست کی سرپرستی اور حمایت پر کھل کر تبادلہ خیال کیا جاسکے۔‘
تاہم انہوں نے شکایت کی کہ ’ان کی کالز کو نظر انداز کیا گیا ہے کیونکہ سکیورٹی سٹیبلشمنٹ نہ صرف طالبان کو وہی مدد فراہم کر رہے ہیں جس کا ان پر ہمیشہ سے الزام لگایا جاتا رہا ہے بلکہ وہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کروانے کے لیے دنیا بھر میں لابنگ کی کوششوں کو منظم کر رہے ہیں۔‘