تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقعے پر پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی ملاقات میں شاید وہ گرمجوشی نہیں تھی جو ایسی ملاقاتوں میں ہوتی ہے۔
لیکن پھر بات یہ کہ حالات غیر معمولی ہیں۔ افغان صدر اشرف غنی کے فرار کے بعد طالبان اقتدار سنبھال چکے ہیں۔ صدارتی محل میں مقیم اشرف غنی جنہوں نے شاید سوچا ہو گا کہ امریکہ انہیں کبھی نہیں چھوڑے گا، اپنی اس سوچ پر یقین کر کے انہوں نے بڑا گناہ کیا۔
ایسے وقت جب خطہ اور دنیا نئی حقیقت کے ساتھ مصالحت کی کوشش میں ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ’امریکہ کی فوجی شکست اور افغانستان سے انخلا‘ کا شروع میں خیرمقدم کرنے کے بعد ایران کی تکلیف میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد جلد ہی افغانستان کو تیل کی فراہمی بحال کر دی تھی۔
اس عمل کو افغانستان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوشش کے طور نہ سہی کم از کم کابل کے نئے حکمرانوں کی مخالفت نہ کرنےکے اقدام کے طور پر دیکھا گیا لیکن جب طالبان نے وادی پنج شیر پر حملہ شروع کیا تو حقیقت میں ایران کی جانب سے آنے والے پیغامات میں تجسس پیدا ہو گیا۔ ایرانی ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا کہ پاکستانی فوج اپنی خصوصی فورسز اور ڈرونز کے ساتھ طالبان کی حملے میں مدد کر رہی ہے۔
اس سے پہلے یہ الزام ایک مضحکہ خیز تماشے میں لگایا گیا جو بھارتی میڈیا نے پیش کیا۔ توقع کے مطابق بھارتی میڈیا نے اپنی رپورٹس میں دکھانے کے لیے ویلز اور ایریزونا میں کی جانے والی فضائی مشقوں کی فوٹیج اور کبھی ویڈیو گیم کا استعمال کیا۔ لیکن یہ مناظر ایرانی ذرائع ابلاغ کے مقابلے میں کم غیر حقیقی تھے جنہوں نے امریکی ٹیلی ویژن چینل فوکس نیوز کا حوالہ دیا۔ (ایران کے بارے میں فوکس نیوز کی پالیسی کے غیر جانبدار اور متوازن ہونے کے کے حوالے حتمی طور پر کچھ معلوم نہیں ہے۔) ایرانی میڈیا نے اپنی’رپورٹ‘میں امریکی سینٹ کام کے ایک نامعلوم ذریعے کا ذکر کیا۔ (ایران میں سینٹ کام کا نام دہشت گردوں کی فہرست میں ہے۔)
اب کوئی بحث کر سکتا ہے کہ یہ میڈیا رپورٹس ہیں اور کسی بھی طرح سرکاری بیانیہ نہیں ہیں، لیکن پھر کچھ دن قبل ایک ایرانی رکن پارلیمنٹ نے اس الزام کو دہرایا۔ یہاں تک کہ اس مبینہ حملے میں پاکستان پر ان سابق چیچن فوجیوں کو استعمال کرنے کا الزام لگایا جو شام میں خانہ جنگی کے دوران لڑتے رہے ہیں۔ اب یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کیونکہ یہ اتنا ہی نہیں کہ برتن کیتلی کو کالا کہہ رہا ہے بلکہ برتن دراصل کیتلی ایجاد کر رہا ہے۔
اگر کسی پر الزام لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی حامی جنگجو قوتوں کو خارجہ پالیسی میں توسیع کےلیے استعمال کر رہا ہے تو وہ ایران ہے جس نے فرقہ وارانہ ملیشیاؤں کو استعمال کیا ہے جو ایران کے پاسداران انقلاب کی سرپرستی میں عراق سے شام اور لبنان تک پورے مشرق وسطیٰ میں طاقت اور اثر و رسوخ کے لیے کام کر رہی ہے۔ یہ ایسی حکمت عملی ہے جو کم اخراجات کے ساتھ کہیں زیادہ کامیاب ہے۔ یہ حکمت عملی 16 ستمبر دوسرے ملکوں میں بہت نمایاں تھی جب ایرانی ایندھن کے ٹرکوں کا ایک قافلہ شام کے راستے لبنان میں داخل ہوا اور حزب اللہ کے ارکان نے اس کا استقبال کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ کامیاب حکمت عملی دوسرے میدانوں میں دہرائے جانے کی متقاضی ہے۔ اس لیے ممکن ہے کہ ایران نے افغانستان میں بھی ایسا ہی کرے جہاں طالبان اور حکومتی فوج کے درمیان آنے والے کچھ وقت کے لیے فوجی تعطل رہے گا۔ اس منظر میں نہ صرف ہرات کے اسماعیل خان ایک انمول اثاثہ ثابت ہوتے بلکہ ہو سکتا ہے کہ طویل عرصے تک جاری رہنے والی لڑٖائی’لیوا فاطمیون‘کو نئے سرے سے تعینات کرنے کا موقع فراہم کرتی۔ یہ شیعہ افغانوں پر مشتمل دھڑا ہے جو عراق اور شام میں بڑے پیمانے پر کارروائیاں کرتا رہا ہے۔
اگر یہ تعیناتی کبھی نہ ہوتی تب بھی ایران اپنے اہم افغان حلیف جنگجو سردار اسماعیل خان کو امریکہ کے بعد کی تقسیم میں اثر و رسوخ کے لیے استعمال کرنے کے قابل ہوتا لیکن اس کے بجائے اسماعیل خان طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بعد ایران فرار ہو گئے اور لڑائی کے فوری نتیجے کا مطلب یہ تھا کہ ایران افغانستان میں سٹریٹیجک گہرائی حاصل نہ کرتا جس طرح اس نے عراق اور دوسرے ملکوں میں حاصل کی۔
لیکن صرف اس سے پاکستان سے ایران کی ناراضی کی وضاحت نہیں ہوسکتی جو ممکن ہے کہ یہ سمجھتا ہو کہ پاکستان نے ایران کے خرچے پر افغانستان میں اثرورسوخ حاصل کیا۔ اس لیے ہمیں ایک بڑا جال پھیلانا ہو گا اور اپنی نظرکو جغرافیائی سیاست سے جغرافیائی معیشت کی طرف لانا ہوگا، خاص طور پر مستقبل کے تجارتی راستوں کی طرف جو اس خطے میں آڑے ترچھے ہو سکتے ہیں۔
مشرقی وسطیٰ میں ایران کی سرگرمیوں کے پیش نظر ایرانی میڈیا اور حکام کی جانب سے پاکستان کو ہدف بنانا لازمی طور پر حکمت عملی کے اعتبار سے غلط اندازہ دکھائی دیتا ہے۔ دہانہ گیری ( محاذ آرائی اور خطرناک صورت حال سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کا فن) ایرانی حکمت عملی کا امتیاز ہو سکتی ہے لیکن اس کے آپ کو یقینی طور پر علم ہونا چاہیے کہ دراصل دہانہ کس جگہ ہے۔
نوٹ: یہ تحریر اس سے قبل عرب نیوز میں چھپ چکی ہے۔