نیوزی لینڈ کی ٹیم 18 سال بعد پاکستان آئی لیکن راولپنڈی سٹیڈیم میں پہلے ون ڈے کے آغاز سے چند گھنٹے پہلے اچانک غیر متوقع طور پر سکیورٹی خدشات کو وجہ بنا کر واپس لوٹ گئی۔ اس سیریز کے خاتمے کے بعد انگلینڈ کرکٹ ٹیم کے دورے کی منسوخی کا بھی صرف اعلان ہی باقی رہ گیا تھا۔
لندن میں پاکستان کے دورے کی منسوخی کے فیصلے سے چند گھنٹے پہلے ایک معروف چینل کے سینیئر صحافی سے دریافت کیا کہ وہ کس فیصلے کی توقع کر رہے ہیں؟ تو انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ اگلے چند گھنٹوں میں انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ دورہ پاکستان کی منسوخی کا اعلان کرنے والا ہے۔
میرے ذہن میں چند پاکستانی صحافیوں کی وہ ٹویٹ کھٹک رہی تھی کہ نیوزی لینڈ کو یہ تھریٹ پاکستان میں برطانیہ کے ہائی کمشنر نے دی ہے (اگرچہ ہائی کمشنر خود اس خبر کی تردید کر چکے ہیں)۔
نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ تو اصل سکیورٹی خدشے پر زیادہ بات کرنے سے گریزاں ہے لیکن انگلینڈ کرکٹ بورڈ کی پریس ریلیز کے ان الفاظ سے کہانی واضح ہو چکی ہے کہ ’اس وقت خطے کی صورت حال کی وجہ سے پاکستان سفر کرنے پر تحفظات ہیں، ایسے میں کھلاڑیوں کا وہاں سفر کرنا آئیڈیل نہیں اور موجودہ صورت حال میں کھلاڑی ویسے ہی ذہنی دباؤ میں ہیں۔۔‘
یہاں زبان سفارتی لیکن پیغام واضح ہے کہ افغانستان کی صورت حال کی وجہ سے اب پاکستان بھی محفوظ نہیں رہا۔
جتنا مایوس کن ان دو ٹیموں کا دورہ منسوخ کرنا تھا اتنا ہی مایوس کن ہمارے وزیر داخلہ شیخ رشید کی یہ تڑی تھی کہ جو سکیورٹی ہم نے کیوی ٹیم کو دی اتنی تو ان کے فوج کی تعداد بھی نہیں۔ اس تمام کے بعد ایک بات تو سمجھ لینی چاہیے کہ اس وقت ہمیں بطور ریاست تڑیاں لگانے کی بجائے اس پر غور کرنا چاہیے کہ
اب آگے کیسے بڑھنا ہے اور اس صورت حال سے کیسے نمٹنا ہے۔
ہمیں یہ مدنظر رکھنا ہوگا کہ نیوزی لینڈ اور انگلینڈ اپنے فیصلے کرنے میں بالکل آزاد ہیں چاہے اس کی وجہ کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی ہو یا واقعی سکیورٹی خدشات ہوں۔ لیکن اس سوال کا جواب ضرور ڈھونڈنا چاہیے کہ ہم خود تو اپنے سکیورٹی حالات سے مطمئن ہیں لیکن کیا دنیا بھی ہمارے خطے کے حالات کو ویسے ہی دیکھ رہی ہے جیسے کہ ہم دیکھ رہے ہیں؟
یہ معاملہ صرف دو کرکٹ ٹیموں کے دورہ کے منسوخ ہونے کا نہیں بلکہ اس تاثر کا مضبوطی سے سامنے لایا جانا ہے کہ طالبان کے افغانستان میں حکومت میں آنے کے بعد سے اب پاکستان دنیا کے لیے ایک محفوظ ملک نہیں رہا اور یہی بات انگلینڈ اور ویلز کرکٹ بورڈ کی پریس ریلیز سے جھلک بھی رہی ہے۔
ہم چاہے تحریک طالبان پاکستان کے بڑھتے ہوئے حملوں کو زیادہ سنجیدہ نہ لیں لیکن وہ عالمی ممالک جو کہ افغانستان میں اٹھائی گئی ہزیمت کا نزلہ پاکستان پر گرانے کے لیے موقع کی تلاش میں ہیں، کیوں اس موقع کو ہاتھ سے جانے دیں؟ یہ بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اس تاثر کے ابھرنے کا نقصان صرف کرکٹ کی حد تک نہیں ہوگا بلکہ غیرملکی سرمایہ کاری اور ہماری ایک دفعہ پھر تیزی سے بگڑتی معیشت اس کا شکار ہوگی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہی نہیں بلکہ پاکستان کو فیٹف اور آئی ایم ایف کے ذریعے دباؤ میں لائے جانے کی صورت میں حالات سے نمٹنے کی بھرپور تیاری پکڑنی چاہیے۔ اور معاملات اگر اسی طرح آگے بڑھتے گئے تو خدانخواستہ ہمارے وہ خدشات درست ثابت ہوں گے کہ افغانستان سے مکمل انخلا کے بعد چند ممالک یہ ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے کہ افغانستان کے ساتھ ساتھ اب پاکستان اور اس کے جوہری اثاثے غیر محفوظ ہو چکے ہیں۔ یہ سارے اشارے امریکی سیکرٹری خارجہ کے حالیہ پالیسی بیانات اور بلومبرگ جیسے ادارے کی ایڈیٹوریل بورڈ کی تحریروں سے صاف جھلک رہے ہیں۔
حالات کا تقاضا تو یہ ہے کہ عالمی منظرنامے پر گہری نظر رکھ کر معاملات کو ہر ممکن حد تک سنبھالنے کی کوشش کی جائے، ہم لیکن گذشتہ ایک ماہ سے عالمی طاقتوں کو یہ لیکچر دینے میں مصروف ہیں کہ طالبان کو کیوں نہ تسلیم کیا جائے؟ ساتھ میں کبھی طالبان کی حکومت کو کثیر النسلی بنانے کے وعدے کر رہے ہیں تو کہیں تاجکوں سے طالبان کی صلح کروانے کی۔
وزیر اعظم سمیت اہم حکومتی وزرا کے بیانات سے اس وقت یہی جھلک رہا ہے کہ ہمیں اس وقت اپنے گھر کی فکر کی بجائے افغانستان میں طالبان حکومت کے مستقبل کی زیادہ فکر ہے۔ افغان طالبان اپنی حکومت بنا چکے۔ ان کا اپنا فل ٹائم وزیر خارجہ موجود ہے۔ اس لیے اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اس بات کو ترجیح دیں کہ طالبان دنیا کے سامنے اپنا کیس خود لڑیں۔
وزیر اعظم جتنا جلدی یہ ذہن نشین کر لیں کہ طالبان کی وکالت ہمیں اور خود طالبان کے لیے آگے جا کر نقصان دہ ثابت ہو گی اتنا ہی دونوں کا فائدہ ہوگا۔ خود طالبان آف دی ریکارڈ ملاقاتوں میں اس بات پر قائل نظر آتے ہیں کہ پاکستانی وزرا کے ان کے حق میں بیانات سے انہیں الٹا نقصان پہنچ رہا ہے۔
پاکستان کی توجہ اس بات پر ہونی چاہیے کہ دنیا ہمیں اس وقت کس نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔ اس وقت سکیورٹی سطح پر ہمیں کن چیلنجز کا سامنا ہے۔
ہمارے سامنے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا خطرہ تیزی سے سر اٹھا رہا ہے۔گذشتہ چند ماہ میں پاکستان کے ناصرف سرحدی علاقوں بلکہ شہروں میں بھی حملے بڑھے ہیں جن میں سے اکثر کی ذمہ داری کالعدم ٹی ٹی پی نے ہی قبول کی۔
رواں سال 2021 کے نو ماہ کے دوران اب تک کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر شدت پسند گروہ پاکستان میں کم ازکم ڈیڑھ سو حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکے ہیں۔ اگرچہ اس بات کے قوی شواہد ابھی سامنے آنے باقی ہیں لیکن بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ فی الحال کرکٹ کی آڑ میں صحیح لیکن پاکستان کو سبق سکھانے کی دھمکیاں دینے والے ممالک اپنے عمل کا آغاز کر چکے ہیں۔
PCB Chairman Ramiz Raja reacts to @ECB_cricket decision to withdraw their sides from next month’s tour of Pakistan pic.twitter.com/hvPqHqdBcj
— Pakistan Cricket (@TheRealPCB) September 20, 2021
افغانستان کے حالات مزید بگڑیں یا سدھریں اس سے زیادہ ہمیں اب اس سے سروکار رکھنا پڑے گا کہ کرکٹ کے میدان میں ہمیں تنہا کرنے کے بعد اگلا وار کہاں سے اور کس میدان میں کیا جائے گا۔ عمران خان صاحب حقانیہ مدرسے سے فارغ التحصیل حقانیوں کو پشتونوں کا قبیلہ تو بنا چکے لیکن جس کھیل کے چیمپئن بن کر وہ وزیراعظم بنے اس کھیل میں ہمیں میدان جنگ میں اترے بغیر ہزیمت کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
ہم بےشک نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کرکٹ بورڈ کے فیصلوں کی سو وجوہات تلاش کر سکتے ہیں لیکن اگر ان وجوہات کی تلاش کا آغاز گھر سے ہو تو نتائج زیادہ مثبت ہوں گے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں افغانستان میں دیرپا امن ہی پاکستان میں امن کا ضامن ہے لیکن حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ہم بیک بینچز پر رہ کر ہی طالبان کی جتنی مدد کر سکتے ہیں وہی کریں خصوصا ایسے حالات میں جب ہمارے وزرا کے بیانات ہمارے ہی خلاف استعمال کرنے کے آثار نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا صروری نہیں۔