طالبان کی جانب سے منگل کو جاری شدہ بیان کے مطابق افغانستان میں عارضی طور پر 1964 کا آئین نافذ کیا جائے گا جس میں خواتین کو ووٹ دینے کا حق دیا گیا ہے لیکن وہ شقیں ختم کر دی جائیں گی جن سے طالبان اختلاف رکھتے ہیں۔
طالبان کے قائم مقام وزیر انصاف کے مطابق اسلام پسندوں نے افغانستان میں جمہوریت کے سنہری دور کے دوران استعمال ہونے والا آئین متعارف کرانے کا منصوبہ بنایا ہے جو کہ مختصر مدت کے لیے اور ترامیم کے ساتھ رائج کیا جائے گا۔
مولوی عبدالحکیم شرعی کا کہنا ہے کہ ’امارت اسلامیہ سابق بادشاہ محمد ظاہر شاہ کے وقت کا آئین قلیل مدت کے لیے اپنائے گی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ متن میں جو کچھ بھی شریعت اور امارت اسلامیہ کے اصولوں سے متصادم پایا جاتا ہے اسے خارج کر دیا جائے گا۔
تقریبا چھ دہائیاں قبل جب دنیا کی سپر پاورز نے افغانستان میں مداخلت نہیں کی تھی، افغانستان نے بادشاہ محمد ظاہر شاہ کے دور میں مختصر مدت تک آئینی بادشاہت کا لطف اٹھایا تھا۔
بادشاہ نے 1963 میں اقتدار میں آنے کے ایک سال بعد آئین کی توثیق کی تھی جس پر 1973 میں ان کے اقتدار کے خاتمے تک عمل درآمد ہوتا رہا اور ایک دہائی تک افغانستان میں پارلیمانی جمہوریت رائج رہی۔
1964 کے آئین نے افغان خواتین کو پہلی بار ووٹ ڈالنے کا حق دیا اور سیاست میں ان کی زیادہ شرکت کے دروازے کھولے۔
اگست کے وسط میں اقتدار میں آنے والے طالبان نے 1996 سے 2001 کے دوران اپنے اس ’سفاکانہ دور‘ کے مقابلے میں ایک نرم اور زیادہ جامع انداز اپنانے کا عزم کیا ہے جس میں خواتین کو کام اور تعلیم سمیت عوامی زندگی سے بڑی حد تک علیحدہ کر دیا گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن جب انہوں نے رواں ماہ کے آغاز میں اپنی نگران حکومت کا اعلان کیا تو تو تمام اعلیٰ عہدے سخت گیر موقف رکھنے والوں کو دیے گئے اور اس میں کوئی عورت شامل نہیں کی گئی۔
1980 کی دہائی میں سوویت قبضے سے گزرنے کے بعد ملک میں خانہ جنگی اور پھر طالبان کی سخت گیر حکومت قائم ہوئی جس کے بعد افغانستان پر دوبارہ امریکی قیادت میں 2001 میں حملے کیے گئے اور اب اس سب کے بعد طالبان کی جانب سے اسی آئین کو اپنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
لیکن انہوں نے پرانے شاہی آئین کو مکمل طور پر بحال نہ کرنے کا انتخاب کیا ہےاور اس کے بجائے 2004 میں حامد کرزئی عبوری دور کے اختیار کردہ متن کی منظوری دی ہے جس میں صدارت کا تصور دیا گیا تھا اور عورتوں کے مساوی حقوق کا ذکر کیا گیا تھا۔