خوشی پر تحقیق کرنے والے ایک ممتاز محقق کا کہنا ہے کہ وہ خواتین جو غیر شادی شدہ ہیں اور جن کے بچے نہیں ہیں، وہ سب سے زیادہ خوش رہتی ہیں۔
لندن سکول آف اکنامکس میں انسانی رویوں پر تحقیق کرنے والے پروفیسر پال ڈولن کہتے ہیں کہ غیرشادی شدہ اور بچوں کے بغیر خواتین اپنی ہم عمر لیکن شادی شدہ اور بچوں والی خواتین کے مقابلے میں لمبے عرصے تک زندہ رہتی ہیں اور ان سے زیادہ صحت مند ہوتی ہیں۔
ہفتے کو منعقدہ ایک ادبی میلے ’ہے فیسٹول‘ میں بات کرتے ہوئے ڈولن نے کہا کہ نئے اعداد و شمار سے پتہ چلا ہے کہ ضروری نہیں کہ عام طور پر رائج سمجھے جانے والے کامیابی کے پیمانوں کا خوش رہنے سے بھی تعلق ہو۔
بیسٹ سیلر کتابیں لکھنے والے پروفیسر ڈولن انسانوں میں خوشی کے پیمانوں، وجوہات اور نتائج پر تحقیق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شادی مردوں کے لیے خواتین کی نسبت زیادہ فائدہ مند ہوتی ہے کیونکہ یہ انہیں ’سکون‘ فراہم کرتی ہے۔
ڈولن نے کہا کہ شادی کے بعد مرد ’کم رسک لیتے ہیں، زیادہ پیسہ کماتے ہیں اور تھوڑا زیادہ زندہ رہتے ہیں جبکہ خواتین کو اس سب سے گزرنا ہوتا ہے اور وہ زیادہ جلدی انتقال کرجاتی ہیں، بہ نسبت اس کے کہ ان کی شادی نہ ہوئی ہوتی۔ عام آبادی میں سب سے زیادہ خوش اور صحت مند گروپ اُن خواتین کا ہے جو شادی شدہ نہیں ہیں اور بچوں کی ذمہ داری سے آزاد ہیں۔‘
ڈولن نے کہا: ’شادی شدہ افراد دیگر افراد کی نسبت زیادہ خوش رہتے ہیں، لیکن صرف تب تک جب تک ان کا شریک حیات اُس کمرے میں موجود ہوتا ہے، لیکن جیسے ہی وہ کمرے سے جاتا ہے تو اس سوال کا جواب بدل کر ’بہت بری حالت ہے‘ ہو جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’ہمارے پاس اس حوالے سے ایک بہت جامع تحقیق موجود ہے لیکن میں سائنس کا بڑا نقصان کرتے ہوئے صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ اگر آپ مرد ہیں تو شادی کرلیں لیکن اگر خاتون ہیں تو ایسا سوچیں بھی مت۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈولن کی نئی کتاب ’ہیپی ایور آفٹر‘ میں امیریکن ٹائم یوز سروے کے نتائج کو مدنظر رکھا گیا ہے، جس میں انسانوں کے مختلف گروہوں جیسے شادی شدہ، غیر شادی شدہ، مطلقہ، بیوہ اور شریک حیات سے علیحدگی اختیار کرنے والے افراد میں خوشی کے پیمانے کو جانچا گیا ہے۔ اس تحقیق میں یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ شادی شدہ افراد باقی افراد کی نسبت زیادہ خوش رہتے ہیں لیکن صرف تب تک جب تک ان کے شریک حیات ان کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ ان کی غیر موجودگی میں یہ صورتحال تبدیل ہو جاتی ہے۔
جو لوگ شادی شدہ نہیں تھے انہوں نے زندگی میں تکالیف اور پریشانیاں ان افراد کی نسبت کم بتائیں جن سے یہی سوال تب کیا گیا جب ان کے شریک حیات موجود نہیں تھے۔
ایک اور تحقیق میں شادی شدہ افراد میں صحت اور معاشی حالات کے بارے میں کچھ مثبت تبدیلیاں بھی دیکھی گئیں جو ڈولن کے مطابق زیادہ آمدنی اور زندگی میں کسی سہارے کے ہونے کی وجہ سے ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مردوں میں شادی کے بعد صحت کے حوالے سے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں جس کی وجہ ان کی جانب سے کم خطرات مول لینا ہے، جبکہ خواتین کی صحت پر شادی کے بعد کوئی اثر نہیں دیکھا گیا۔ درمیانی عمر کی خواتین میں جسمانی اور ذہنی طور پر متاثر ہونے کی شرح ان کی ہم عمر کنواری خواتین سے کافی زیادہ ہے۔
ڈولن کے مطابق خواتین کے لیے کنوارہ اور بغیر بچوں کے رہنے میں فوائد کے باوجود شادی کرنا اور بچوں کو جنم دینا معاشرے میں کامیابی کی روایت سمجھا جاتا ہے اور اس کے برعکس جانا غیر شادی شدہ خواتین کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔
انہوں نے کہا: ’اگر آپ کسی 40 سالہ خاتون کو دیکھیں گے جو کنواری ہیں اور ان کے بچے بھی نہیں ہیں تو آپ ان سے افسوس کا اظہار کریں گے اور ان کو کہیں گے کہ ہوسکتا ہے کہ وہ ایک دن کسی اچھے انسان سے ملیں اور یہ سب بدل جائے۔ لیکن نہیں، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کسی برے انسان سے ملیں جو ان کو بدل کے رکھ دے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ ایسے شخص سے ملیں جو انہیں کم خوش رکھے اور وہ کم صحت مند ہوتی جائیں اور جلد فوت ہو جائیں۔‘
ڈولن نے مزید کہا کہ کچھ افراد کے لیے بچوں کا ہونا بھی نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ ان کے مطابق کچھ والدین شاید ایک مشہور دانشور کے ان الفاظ سے دل ہی دل میں اتفاق کرتے ہوں کہ وہ ’اپنے بچوں کے وجود رکھنے پر تو خوش ہیں لیکن ان کی موجودگی پر ہرگز خوش نہیں۔‘
ڈولن نے کہا: ’یہ بہت افسوس ناک بات ہوگی اگر انہیں کچھ ہو جاتا ہے لیکن بچوں کے حوالے سے ہمارے تجربات تکلیف دہ اور پریشان کن ہی ہوتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ بچوں کا ہونا ایک ’شاندار بات ہے‘ لیکن کچھ لوگوں کے لیے ’شاید ایسا نہ ہو اور اس بارے میں کھل کر بات نہ کر سکنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔‘