افغانستان کے دارالحکومت کابل کے دور دراز حصے میں واقع ایک مدرسے میں بچے یک زبان قرآن کی تلاوت کر رہے ہیں۔
اس مدرسے کا نام ’ مدرسہ خاتم الانبیا‘ ہے۔ مدرسے کے مرکزی ہال کی کھڑکیوں سے سورج کی روشنی داخل ہو رہی ہے جہاں ایک درجن چھوٹے لڑکے اپنے استاد عصمت اللہ مدقق کے گرد ایک دائرے میں بیٹھے ہیں۔
طلبہ صبح سویرے 4:30 بجے تک بیدار ہو جاتے ہیں اور دن کا آغاز نماز فجر سے کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ اپنی کلاس میں قرآن حفظ کرنے اور آیات کی تلاوت کرنے اور انہیں یاد کرنے میں وقت صرف کرتے ہیں۔ کسی بھی لمحے ان کے استاد مدقق اچانک کوئی بھی آیت سنانے کا کہہ کر ان کا امتحان لے سکتے ہیں۔
طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان میں تعلیم کے مستقبل کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے جہاں تعلیم یافتہ افغان شہریوں اور بین الاقوامی برادری کی طرف سے لڑکیوں اور خواتین کو تعلیم تک مساوی رسائی کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔
مدارس ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ مذہبی تعلیمی ادارے ہیں جہاں صرف لڑکے ہی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ مدارس افغان معاشرے کے غریب اور زیادہ قدامت پسند طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں اور وہ بھی طالبان کے دورہ اقتدار میں اپنے مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی کا شکار ہیں۔
یہاں تعلیم حاصل کرنے والے زیادہ تر طلبہ کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے۔ ان کے لیے مدارس ایک اہم ادارے ہیں۔ بعض اوقات یہ ان کے بچوں کے لیے تعلیم حاصل کرنے کا واحد راستہ ہوتا ہے جہاں بچوں کو رہائش کے ساتھ کھانا اور کپڑے بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔ رات کے وقت وہ پتلے گدوں پر لیٹ جاتے ہیں۔ نیند کے لیے وہ لڑکھڑاتے ہوئے بنک بیڈز کی بجائے زمین پر سونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ افغانستان کے بیشتر اداروں کی طرح، مدارس بھی ملکی معیشت کے زوال سے متاثر ہوئے ہیں۔ 15 اگست کو طالبان کی جانب سے افغانستان پر قبضے کے بعد سے ملک کی اقتصادی صورت حال ابتری کی جانب گامزن ہے۔
طالبان، جس کا لغوی مطلب ہی طلبہ ہے، 1990 کی دہائی میں پڑوسی ملک پاکستان میں قائم مدارس سے فارغ التحصیل ہو کر افغانستان میں ابھرے تھے۔
گذشتہ دو دہائیوں کے دوران افغانستان میں مدرسوں نے طالبان کے خلاف لڑنے والے امریکہ کی حمایت یافتہ حکومت کی نگرانی میں عسکریت پسندانہ نظریات کو ختم کیا تھا لیکن اب ان کی حکومت کا خاتمہ ہو چکا ہے۔
مدرسے کی انتظامیہ نے محتاط رویہ اپنایا جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ طالبان کی نئی حکومت سے زیادہ تعاون کی امید رکھتے ہیں؟
مدقق نے وضاحت کرتے امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کو بتایا: ’اس سے قطع نظر کہ طالبان کی حکومت ہو یا کسی اور کی، مدارس کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ ان کے بغیر لوگ اپنے مذہب کی بنیاد کو بھول جائیں گے۔ حکومتِ وقت اورلاگت سے قطع نظر مدرسوں کو ہمیشہ قائم رہنا چاہیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاریخی طور پر افغان حکومت کے پاس ہمیشہ سے دیہی علاقوں میں تعلیم کی فراہمی کے لیے وسائل کی کمی رہی ہے جس سے مدرسوں کی اہمیت میں اضافہ ہوتا ہے۔
مدارس کے نظام کو زیادہ تر کمیونٹی کی کوششوں کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ اس کی زیادہ تر فنڈنگ نجی ذرائع سے آتی ہے۔ لیکن امریکی پابندیوں اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی جانب سے افغان اثاثوں کو منجمد کرنے کے نتیجے میں حکومت مالی خسارے کے ساتھ ساتھ سرکاری ملازمین کو تنخواہیں تک ادا نہیں کر پا رہی اس لیے مدارس کو پہلے کی طرح حکومتی امداد کی امید نہیں ہے۔
جو نوجوان لڑکے مدرسوں میں پروان چڑھتے ہیں وہ علما اور مذہبی ماہر ہی بن سکتے ہیں۔ عام طور پر یہ اسلام کی قدامت پسندانہ تشریح سکھاتے ہیں اور تحقیقی سوچ کی بجائے رٹے بازی کی وجہ سے ان پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔
لیکن کچھ لوگوں کے لیے یہ نظام بنیادی تعلیم اور خوراک حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔
مذہبی مطالعے کے دوران وہ گرم چائے اور روٹی کھانے کے لیے ایک ہال میں جمع ہوتے ہیں۔ غروب آفتاب سے پہلے وہ مغرب کی نماز تک شیشے کی گولیوں سے کھیلتے ہیں اور پھر رات ڈھل جاتی ہے۔
(اے پی)