خلیجی ممالک کی حالیہ کشیدگی اور خطے کو جنگ سے بچانے کے لیے عرب ممالک نے سر جوڑ لیے ہیں اور سعودی عرب نے خلیجی تعاون کونسل (جی سی سی) کے مکہ میں ہونے والے 30 مئی کے ہنگامی اجلاس میں قطر کو بھی شرکت کی دعوت دے دی ہے۔
قطر ی وزارت خارجہ کے مطابق اتوار کو سعودی وزارت خارجہ کے حکام سے ہونے والی ملاقات میں سعودی فرمانروا سلمان بن عبد العزیز کی جانب سے قطر کے امیر تمیم بن حمد الثانی کے لیے تحریری پیغام دیا گیا جس میں 30 مئی کو مکہ میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی۔
خلیجی تعاون کونسل چھ ممالک پر مشتمل علاقائی اور اقتصادی اتحاد ہے۔ عراق کے علاوہ خلیج فارس کی تمام عرب ریاستیں اس کی رکن ہیں۔ اس کے رکن ممالک میں بحرین، عمان، کویت، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔
خلیجی تعاون کونسل کے اتحاد میں اُس وقت دراڑ آئی جب جون 2017 میں سعودی عرب نے قطر پر الزام عائد کیا کہ وہ ایران کی پشت پناہی رکھنے والے گروہوں کی شدت پسندی کی کارروائیوں میں مدد کر رہا ہے، ساتھ ہی قطر پر یمن میں حوثی باغیوں کی پشت پناہی کرنے کا بھی الزام لگایا گیا، تاہم دوحہ نے ان الزامات کی تردید کردی تھی۔
قطر کے ایران سے تعلقات دیگر عرب ریاستوں کے لیے ناپسندیدہ تھے۔ نتیجتاً سعودی عرب سمیت چھ عرب ممالک، جن میں مصر، متحدہ عرب امارات، بحرین، لیبیا اور یمن شامل تھے، نے دوحہ کے ساتھ تعلقات منقطع کرلیے تھے۔
تجزیہ کار اس صورتحال کو کیسے دیکھتے ہیں؟
اگرچہ ریاض کی جانب سے دوحہ کو اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے لیکن سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ قطر، جو جی سی سی کا رکن ہے، اُس کے خلیجی تعاون کونسل کے باقی پانچ ممالک سے تعلقات کشیدہ ہیں۔
بین الاقوامی سفارتی امور کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر نذیر حسین اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’قطر کو سعودی دعوت نامے سے خطے میں بے چینی بڑھے گی۔‘ انہوں نے کہا کہ ’سعودی عرب دنیا کو یہ دکھانا چاہتا ہے کہ خلیجی ریاستیں ایک صفحے پر ہیں لیکن ایسا تب ہی ممکن ہے جب قطر اس دعوت کا مثبت جواب دے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ قطر کی اپنی ترجیحات بھی ہیں۔ قطر کا ترکی اور ایران کے ساتھ سکیورٹی اتحاد ہے اور وہ ایران سے کافی اشیا درآمد کرتا ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے امید ظاہر کی کہ اگر امیر قطر 30 مئی کو ہونے والے اجلاس میں شرکت کرتے ہیں تو قطر پر عائد پابندیاں ختم ہونے کا امکان موجود ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
واضح رہے کہ سعودی عرب نے بحرین کے ساتھ مل کر قطر پر معاشی پابندیاں بھی عائد کی تھیں۔
دوسری جانب سینیئر صحافی و تجزیہ کار شوکت پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات چیت کرتے ہوئے مختلف رائے دی۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اور قطر کے درمیان اختلافات کی نوعیت اتنی سادہ نہیں ہے کہ یہ خلیجی تعاون کونسل کے اجلاس میں ختم ہو سکیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ سعودی عرب نے قطر کو کسی علاقائی کانفرنس کے لیے دعوت دی ہے۔ گذشتہ برس کی ابتدا میں تو قطر کو سعودی عرب میں ہونے والی فوجی مشقوں میں بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی، لیکن قطر کی شرکت کے باوجود معاملات آگے نہیں بڑھ پائے تھے۔
شوکت پراچہ نے مزید کہا کہ سعودی عرب کی سلامتی کے تحفظات دور کیے بغیر دو عرب ہمسایہ ممالک کے تعلقات معمول پر نہیں آئیں گے۔