امریکی خارجہ پالیسی پر نظر رکھنے والے مبصرین ایسے نعرے سننے کے عادی ہو چکے ہیں جن میں دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ واشنگٹن، مشرق وسطیٰ کے بحرانوں سے نکل رہا ہے اور خطے میں مداخلت امریکہ کی اولین ترجیح نہیں رہی۔
حال ہی میں ترتیب دیا جانے والا وائٹ ہاؤس کا ایجنڈا دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مشرق وسطیٰ، واشنگٹن کی ترجیحات کی فہرست سے نکلتا جا رہا ہے۔ چین اور روس سے امریکہ کے کشیدہ تعلقات، ماحولیاتی تبدیلی اور کرونا وبا سے نمٹنے جیسے امور نے اب نئی امریکی ترجیحات میں جگہ بنا لی ہے۔
یہ حقیقت کسی حد تک امریکہ کے اعلان کردہ سرکاری نقطہ نظر سے بھی ہم آہنگ دکھائی دیتی ہے، لیکن اردگرد کے طوفانی حالات میں مشرق وسطیٰ کا ایشو مزید بگاڑ سے بچنے کے لیے پوری قوت کے ساتھ خود کو امریکہ کی ترجیحات میں شامل کروا لیتا ہے مبادہ کہ اس کا حل بعد میں افغانستان، یمن، عراق اور جوہری معاہدے پر مذاکرات کی طرح زیادہ مہنگا نہ پڑ جائے۔
مبہم سٹرٹیجی
افغانستان سے انخلا کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال دیکھتے ہوئے موجودہ امریکی انتظامیہ کی خارجہ پالیسی اور بالخصوص کابل سے متعلق حکمت عملی پر کئی سوال اٹھ رہے ہیں۔
سوال اٹھانے والوں میں بزرگ امریکی سفارت کار ڈینس راس اور سی آئی اے کے سابق تجزیہ کار کینتھ ایم پولک بھی شامل ہیں۔ امریکی اخبار ’دی ہل‘ میں اپنے ایک مشترکہ مضمون میں امریکی دانشور لکھتے ہیں: ’صدر جو بائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد امریکہ کی مشرق وسطیٰ سے متعلق پالیسی ماضی کی اپنی چکا چوند برقرار نہیں رکھ سکی۔‘
امریکی پالیسی پر جامع تبصرہ کرتے ہوئے آگے چل کر سابق امریکی سفارت کار لکھتے ہیں: ’خطے کے ہر ملک سے متعلق امریکی خارجہ پالیسی متلون اور تبدیلی کی شکار دکھائی دیتی ہے۔‘ مشرق وسطیٰ میں امن عمل کا آغاز کرنے والے پہلے امریکی سفارتکار ڈینس راس نے اپنے مضمون میں امریکہ سے ’ایک جامع منصوبہ تشکیل دینے پر زور دیا جس میں ہر ملک کے حوالے سے پالیسیز مجتمع کی جائیں کیونکہ اس محاذ پر ناکامی امریکہ کو بہت مہنگی پڑے گی۔‘
مشرق وسطیٰ کے ملکوں سے متعلق امریکی خارجہ پالیسی کے بارے میں پائے جانے والے ابہام کی جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے فاضل مضمون نگار رقمطراز ہیں: ’اس مبہم پالیسی کی وجہ سے خطے کے ممالک یہ نہیں جان سکے کہ امریکہ ان سے کیا چاہتا ہے اور بدلے میں انہیں کیا دینا چاہتا ہے؟ اسی گو مگو کی پالیسی کی وجہ سے خطے میں ایک خلا دکھائی دیتا ہے۔ ہر ملک اپنے تئیں بنائی پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے لگا ہے، جس سے علاقے میں نئے بحرانوں نے سر اٹھا لیا اور معاملات کنٹرول سے باہر ہو گئے۔‘
مضمون نگاروں نے دو سابق امریکی صدور ٹرمپ اور اوباما کے ادوار حکومت سے متعلق یہ نتیجہ اخذ کیا ہے ’کہ جب ترکی نے شام اور شمالی عراق میں مداخلت کی اور پھر مصر، قطر سے ایسی ہی حرکت لیبیا میں سر زد ہوئی۔ تو دوسری جانب سعودی عرب اور امارات نے یمن میں معاملات سدھارنے کے لیے عرب اتحاد کو متحرک کیا جسے بنیاد بنا کر روس کو خطے میں زیادہ مداخلت کا موقع مل گیا۔‘
بائیڈن اور شرق اوسط
عراق، سعودی عرب اور اسرائیل کے گذشتہ دو مہینوں کے دوران اپنے دوروں کا حوالہ دیتے ہوئے فاضل مقالہ نگار کہتے ہیں کہ ’خطے کے بارے میں امید اور شک کی مظہر امریکی سوچ اور اپروچ کا عکس انہیں متعدد علاقائی قائدین کے رویے میں نمایاں دکھائی دیا۔ امریکی انتظامیہ علاقے میں کون سے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے اس سے متعلق پائی جانے والی کنفیوژن الگ سے درد سر بنی ہوئی ہے۔‘
یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ایران کا معاملہ امریکہ کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور یہ صدر بائیڈن کے پالیسی اہداف کا اہم نقطہ ہے۔ امریکہ، ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے 2015 کے جوہری معاہدے کی طرف واپس لوٹ سکتا ہے جس سے ڈونلڈ ٹرمپ اپنے عہد حکومت میں باہر نکل آئے تھے۔ معاہدے میں واپسی کے لیے شرط عائد کی گئی تھی کہ ایران اپنے جوہری پروگرام پر عائد پابندیوں کا من وعن پاس کرے گا۔
جو بائیڈن کے منصب صدارت پر فائز ہونے کے بعد سے اب تک ویانا میں مذاکرات کے چھ دور ہو چکے ہیں، لیکن ان مذاکرات میں کسی قسم کی پیش رفت دیکھنے کو نہیں ملتی، بلکہ اس مدت کے دوران بائیڈن، ایران کو براہ راست دھمکی دے چکے ہیں ’کہ واشنگٹن، تہران کو کبھی جوہری طاقت نہیں بننے دے گا۔‘
ڈینس راس نے اپنے مضمون میں اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’امریکی انتظامیہ ایران کے جوہری معاہدے کی راہ میں رکاوٹ بنی اور واشنگٹن نے وقت ضائع کیے بغیر ایران کے غیر معمولی مطالبات کو ماننے سے انکار کر دیا۔‘
ایران کا مطالبہ تھا کہ جوہری معاہدے سے متعلق تہران پر عائد تمام پابندیاں ہٹائی جائیں۔ کانگریس کے ایران سے متعلق نرم گوشہ کے باوجود صدر بائیڈن تنقید کے ڈر سے تہران کے مطالبات ماننے میں پس وپیش سے کام لیتے رہے۔
سعودی عرب سے متعلق امریکی موقف کے ضمن میں ڈینس راس اور پولک نے اس رائے کا اظہار کیا ہے’کہ واشنگٹن، سعودی عرب کو خطے میں اپنا تزویراتی شریک سمجھتا ہے۔ صدر بائیڈن کے اقتدار کے آغاز میں ہی ریاض ۔ واشنگٹن تزویراتی تعلق میں بال آنا شروع ہو گیا۔’
’امریکہ نے سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت اور حوثیوں کے خلاف لڑنے والے عرب اتحاد کی فوجی حمایت بند کر دی۔ باغی حوثیوں کو دہشت گردوں کی فہرست سے نکال دیا گیا۔ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی ہلاکت سے متعلق امریکی تحقیقاتی رپورٹ کے مندرجات کو ڈی کاسیفائی کیا گیا۔‘
ڈینس راس کے مطابق یہ تمام صورت حال قطعی طور پر اس بات کی غمازی نہیں کرتی کہ امریکہ نے مملکت کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا ہے کیونکہ یمن بحران، ایران کے جوہری پروگرام ایسے امور ہیں جن میں امریکہ کی دلچپسی تادم تحریر برقرار ہے۔
جو بائیڈن انتظامیہ کی صدارتی ٹرم کے آغاز پر جوہری معاہدہ اور یمن میں لڑائی مشرق وسطی میں امریکی مفادات کی ترجیحی فہرست میں شامل تھے لیکن غزہ کی کشیدہ صورت حال کے بعد فلسطین۔اسرائیل تنازع بین الاقوامی توجہ کا مرکز بن گیا۔
جنگ کے بادل چھٹنے کے بعد صدر بائیڈن نے قضیہ فلسطین کے حل کی خاطر اپنی مشہور زمانہ ’دو ریاستی‘ پالیسی کا ڈھول ایک مرتبہ پھر یو این جنرل اسمبلی سے خطاب میں زور وشور سے پیٹا، لیکن بات زبانی کلامی نعروں سے آگے نہ بڑھ سکی۔
قضیہ فلسطین سے متعلق یروشیلم اور سرحدوں کا تعین ایسے بنیادی مسائل تھے کہ جن سے متعلق امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن یہ کہتے سنے گئے کہ ’اسرائیل اور فلسطینیوں کو مساوی تحفظ، آزادی، مواقع اور وقار ملنا چاہیے۔‘
واضح حکمت عملی کی ضرورت
خطے میں امریکہ کی دلچسپی ختم نہیں ہوئی، تاہم واشنگٹن کی سوچ اور فکر میں یکسوئی کا المیہ اپنی جگہ موجود ہے۔ راس اور پولک نے بھی اپنے تجزیے میں یہ بات نوٹ کی ہے ’کہ بائیڈن اور ان کے حواریوں نے شرق اوسط کے اپنے شرکا کو اس بات پر قائل کر لیا ہے کہ وہ انہیں اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔
’صدر بائیڈن اپنے پیش روؤں اوبامہ اور ٹرمپ کی طرح ایران کی بڑھتی ہوئی جارحیت اور توسیع پسندی کے سامنے سپر نہیں ڈالیں گے۔ تاہم صدر بائیڈن مشرق وسطیٰ کے حلیفوں پر یہ واضح نہیں کر سکے کہ اس مقصد کو کیسے حاصل کیا جائے گا اور اس میں دوسرے ممالک کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟‘
خطے میں ایران کی نمایاں کامیابیوں کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی کاؤنٹر منصوبہ عمل تشکیل دینا آسان کام نہیں، لیکن اس کے باوجود امریکہ اور ان کے اتحادیوں کو کثیر وسائل خرچ کیے بغیر کوئی راستہ تلاش کرنا ہو گا۔
شرق اوسط میں امریکہ کے علاقائی پارٹنرز اور دوستوں کو یقین دلانے اور واشنگٹن کے مخالفین کو خبردار کرنے کے لیے ایک جامع منصوبے کی تیاری وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس منصوبے میں خطے کے چھوٹے ملکوں کی تشکیل دی گئی تزویراتی حکمت عملی شامل کیے بغیر پیش نظر بڑا مقصد حاصل نہیں کیا جا سکے گا۔