کٹے پھٹے بےجان جسم۔۔ بکھرے ہوئے لاشے۔۔ اُدھڑے ہوئے اعضا۔۔ امید، آرزو، آس، خوف اور تکلیف سمیت ہراحساس سے عاری خون آلود چہروں کی پتھرائی آنکھیں۔۔ نئے مستقبل کی خواہش سے لبریز، صرف چند لمحات پہلے دھڑکتے دل، محض گوشت کے لوتھڑوں میں تبدیل ہو کر رہ گئے۔
خوشنما دِنوں کے خواب لیے کہیں چمکتی کہیں جلتی بجھتی آنکھوں کی شمعیں جو بس چند ہی لمحات پہلے تک تو کسی معجزے کی منتظر تھیں، بُجھ کر راکھ ہو گئیں۔
خواب عذاب بن گئے۔ آس، آکاس بیل کی مانند گلا گھونٹنے چڑھ آئی۔ خوف کالی رات کے ناگ روپ میں ڈھل گیا۔ کابل ایک بار پھر کرب و بلا کی داستان میں رنگ گیا۔
شہر کی ساکت فضائیں ایک بار پھر نوحہ خواں ہو گئیں۔ گذشتہ جمعرات کو خونی حملے کا دھماکہ ہوا تو کابل میں مگر دہلا دیا اِس نے تمام عالم کو۔ ہر دردمند دل سہم گیا۔
حلق میں گھٹی آوازیں چیخوں میں ڈھل گئیں۔ ہر آنکھ غمگیں ہو کے نم ہو گئی۔ ارزاں افغان خوں ایک بار پھر کابل کی پتھریلی پتھرائی سڑکوں پر خاموش رقصاں ہو گیا۔
لیکن یہ سب اس شہر کے لیے، اس بدنصیب دیس کے لیے، یہاں کے اجنبی باسیوں کے لیے نیا تو نہیں۔
وقت چار دہائیوں سے اوپر ہو گیا لیکن افغانوں کے لیے زندگی گویا ایک نقطے پر آ کر ٹھہر گئی۔ مقتل گاہ کا کوئی ایک نقطہ۔ ہجرت، مسلسل ہجرت کا کوئی ایک نقطہ۔
گوری چمڑی والے ترقی یافتہ، مہذب، امیر قیمتی خون نے کہا یہ 10 سالوں میں اِس سرزمیں پر ہم پر پہلا بڑا خونیں حملہ ہے، خراج لیا جائے گا۔
کوئی تو پوچھے قندھاری سیب کی طرح سرخ و سپید گالوں والے افغانوں کا خون آخر 40 سال سے اوپر تلک کس بھاؤ بہتا رہا۔
خاص کر 2005 سے لے کر رواں برس تک افغانستان میں افغان ہلاکتوں میں تو مسلسل اضافہ ہی ہوا ہے۔ صرف گذشتہ چھ سالہ عرصے میں داعش خراسان نے سڑکوں، شاہراہوں، بازاروں، مارکیٹوں، ہسپتالوں اور سکولوں میں افغانوں کا جو قتلِ عام کیا ابھی تک تو اُسی کے چھینٹے تمام عالم کے چہرے پر تاحال تازہ ہیں۔
افغان کٹ رہے ہیں، مَر رہے ہیں، مار کھا رہے ہیں، تڑپ رہے ہیں، چیخ رہے ہیں، پکار رہے ہیں، گول دائرے کی ہجرت میں مقیّد ہیں اور اقوامِ عالم کے پاس انہیں دینے کے لیے محض طِفل تسلیوں اور مذمتی بیانات کے سِوا اور کیا ہے۔
افغانوں کی قومی زندگی کا ماضی حال اور مستقبل تو مسلسل ایک ہی تکرار کی دھرائی ہے۔ جنگ، وقتی امن، ہجرت۔
آخر کون اس کا ذمہ دار ہے؟ کس نے ایک بار پھر افغان عوام کو اُنہی کے دیس میں دربدرکر دیا؟ کس نے وہیں کے باسیوں کے لیے زمین پھر سے تنگ کر دی؟
کس نے افغانوں سے زندگی اپنی مرضی سے گزارنےکے حقوق دوبارہ ان سے چھین لیے؟ کس نے معصوم بچوں سے نازک کھلونے اور مضبوط خواب پھر سے نوچ لیے؟ کس نے اس دھرتی کی بہادر خواتین کو خوفِ مسلسل کی زنجیروں میں ایک مرتبہ پھر جکڑ دیا؟
کس نے معصوم بچیوں کے بڑھتے قدموں میں بیڑیوں کی رکاوٹ پھر سے بچھا دی؟ آخر اس ظلمِ مسلسل کا کون ذمہ دار ہے؟ کیسا بدنصیب دیس ہے کہ 1979 سے اب تلک مسلسل ہجرت کے عذاب کے دور سے ہی گزر رہا ہے۔
شام اور وینیزویلا کے بعد افغانستان کو دنیا کا سب سے بڑا مہاجر ملک اور انسانی حقوق کی پامالی، انسانی بحران کی آماجگاہ بنانے کا ذمہ دار آخر کون ہے؟
کہتے ہیں کہ یہ ملک عالمی طاقتوں کا قبرستان ہے لیکن اس ہنستے بستے دیس کو زندہ لوگوں کا قبرستان آخر کن طاقتوں نے بنایا؟
عالمی طاقتیں تو بڑے فخر سے اور ’احسانِ عظیم‘ کے احساسِ تفاخرانہ سے افغان مہاجرین کی اپنی اپنی سرزمینوں پر مہاجرانہ آمد کا پرچار کر رہی ہیں مگر افغانوں سے پوچھیے تو وہ رو رو کرکہتے ہیں ہم اپنے ملک سے ہجرت نہیں کرنا چاہتے۔
وہ اپنی مٹی میں زندہ رہنا اور وہیں خوشحال زندگی جی کر آسودگی سے اپنی مٹی میں دفن ہونا چاہتے ہیں۔ آخر ان کا بنیادی حق انہی سے چھیننے کا ذمہ دار کون ہے؟
2001 میں بھی افغانستان دنیا کی بڑی مہاجرآبادی کا ملک تھا اور 20 سال بعد بھی حالات جوں کے توں وہیں آ کر ٹھہر گئے ہیں۔
عالمی طاقتیں تو اس دیس میں اِس خطّے میں محض دہشت گردی کی محفوظ پناہ گاہیں ہی ختم کرنے نہیں آئیں تھیں بلکہ جمہوریت کے نفاذ اور مضبوطی، عوام کی حفاظت، انفراسٹرکچرکی تعمیر اور بنیادی انسانی حقوق بشمول خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کی بحالی کے پرچم کا پرچار کرتی وارد ہوئی تھیں۔
ان تمام وعدوں کا جواب اور حساب آخر کون لے گا؟ جمعرات کے خونی بربریت زدہ حملے نے 170 سے زائد ہلاکتوں کے ساتھ افغان سرزمین کے زخم ایک بار پھر بےدردی سے ادھیڑ کر رکھ دیے۔
افغان طالبان اور داعش خراسان کی اندرونی لڑائی میں معصوم افغانوں کے قتلِ عام سے اب کس کس کے ہاتھ رنگے جائیں گے۔
ظاہر ہے یہ سلسلہ اب یہیں تو نہ تھمے گا، خاکم بدہن، مگر اقتدارو اختیار کی اندرونی خونی جنگ میں افغانستان کا مستقبل مزید تاریک نظر آتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کشمیر اور فلسطین کی مانند افغانستان کےحوالے سے بھی روایتی اجلاسوں اور روزانہ کے مذمتی بیانات سے بڑھ کر مزید کچھ کرنے سے قاصر ہے۔
افغان بحران کے ذمہ دار فی الحال مہاجرین کو پناہ دینے کے نام پر انسانی ہمدردی کے خوشنما خول تلے اپنے اپنے دامن پر لگے بےوفائی اور بدنامی کے داغ دھونے میں کوشاں ہیں جبکہ افغانستان ہر گزرتے دن کے ساتھ بےیقینی اور خوف کی گہری فضا میں ڈوبتا چلا جا رہا ہے۔
اقوامِ عالم کا کوئی ایک نمائندہ بھی فی الحال افغان صورتحال کی ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہیں۔ ہر ملک ’دیکھو اور انتظار کرو‘ کی مبہم خودغرض پالیسی کے تحت افغانوں کو موت کے رحم و کرم پر چھوڑے ہوئے ہے۔
دوسری جانب افغان طالبان جو کہ 2001 کے بعد زیادہ مضبوط بن کر افغانستان پر کنٹرول حاصل کیے ہوئے ہیں اور جو نہ صرف ازخود اپنے آپ کو بلکہ انُ کے ہمدرد کرم فرما بھی انہیں ’تبدیل شدہ طالبان 2.0‘ کے طور پر پیش کر رہے ہیں، ایک بڑے نظریاتی اور انتظامی مخمصے یا انگریزی میں آپ اسے ‘ dilemma’ کہہ لیں، کا شکار ہوئے نظر آتے ہیں۔
نئی تبدیل شدہ دنیا میں طالبان خود کو ایک طرف تو نئے دین دار و دنیا دار مجموعے کی متناسب آمیزش کا حامل گروہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ترقی یافتہ اور تہذیب یافتہ ہونے کا سرٹیفیکیٹ بھی حاصل کرناچاہتا ہے جس کے لیے وہ عالمی زبانوں خاص کر انگریزی کا عبور بھی حاصل کر چکا ہے۔
انسانی حقوق خاص کر خواتین کے حقوق کی پاسداری کا یقین بھی دلاتا ہے، دہشت گردی کے بدنما سیاہ دھبّے سے بھی خود کو پاک کرنا چاہتا ہے، نئے دور کے تقاضوں کے تحت میڈیا کی آزادی کا پرچار بھی کرتا ہے۔
سوشل میڈیا کے پُرپیچ رَمُوز کی آگاہی پا کر وہاں بھی خود کو ایکٹو رکھتا ہے، خواتین صحافیوں کے عیاں چہروں کو قابلِ تازیانہ جرم نہیں سمجھتا بلکہ صحافیانہ اقدار کا احترام کرتے ہوئے دُوبدو سوالات کا جواب بھی دیتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مگر اِس دنیا دار روپ کا روایتی اور قدیم طالبانی سخت گیر دین دار اوتار کے ساتھ مسلسل مقابلہ، مخمصہ اور ‘dilemma‘ کی جنگ بھی جاری ہے جو خواتین کو حکومت سازی میں شرکت کی اجازت نہیں دیتا باوجود اِس کے کہ افغان آئین کے تحت پارلیمان کی ایک تہائی نمائندگی خواتین کی ہونی چاہیے۔
یہی سخت گیر رویہ سڑکوں پر افغانوں کو مارتا پیٹتا بھی نظر آتا ہے، یہ حجاب کی پابندی بھی نافذ کروانا چاہتا ہے، یہ موسیقی پر پابندی بھی لگواتا ہے، یہ صحافیوں کو قید بھی کر لیتا ہے اور مختلف طریقوں سے ان کے آزادانہ کام میں رکاوٹیں بھی عائد کرتا ہے۔
یہ افغان سرزمین کے پڑوسی ممالک کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہ ہونے کی زبانی یقین دہانیوں پر عمل کروانے سے بھی قاصر ہے۔
یہ تاحال افغانوں کو اُنہی کی سرزمین پر تحفظ دینے سے بھی قاصر ہے۔ یہی سخت گیر روایتی قدیم نظریہ اور روّیہ تاحال مسلسل یقین دہانیوں کے باوجود افغانوں کو احساسِ تحفظ فراہم کرنے اور ملک سے ہجرت نہ کرنے پر آمادہ کرنے میں بھی کامیاب نظر نہیں آتا۔
ایسی مشکل اور کٹھن صورتحال میں اقوامِ عالم نے افغانوں کو تنہا چھوڑ دیا ہے۔ دنیا کی ’دیکھو اور انتظار کرو‘ کی پالیسی کے دوران کتنے مزید افغان اپنے لہو سے اپنی سرزمین سرخ کرتے رہیں۔ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ خود افغانوں کے پاس بھی نہیں۔