خواتین کے جسم کو معمول سے ہٹا ہوا کہنے کا مطلب اس کی اہمیت کو گھٹانا ہوگا۔ ہم بحیثیت ایک انسان خود کو بدلتا دیکھ سکتی ہیں۔ یہ حیران کن ہے۔ ہم کھانا بنا سکتی ہیں، کھا سکتی ہیں، کھیل سکتی ہیں اور اپنے جیسے نئے انسان بھی پیدا کر سکتی ہیں۔ اس حقیقت کو تخلیق کی اعلیٰ سطح پر ایک وقت میں ایک سے زیادہ افعال کی انجام دہی کہا جا سکتا ہے۔
میرا جسم حیرت انگیز ہے۔ اس نے مجھے دو بہترین لڑکیوں کو جنم دینے کے قابل بنایا ہے۔ خواتین کا جسم حیرت انگیز ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ان کی ماہواری کے آغاز سے لے کر حیض کی بندش تک کے درمیانی عرصے میں بہت کچھ شرم سے لپٹا ہوا ہے۔
اب تک ہمیں ٹیلی ویژن پر ماہواری پر بات نہ کرنے کی تلقین کی جاتی رہی ہے۔ کیونکہ خیال یہ تھا کہ ناظرین اس بارے میں کچھ سننا نہیں چاہتے۔ ایک قدرتی عمل کو گندے اور خفیہ معاملے کے طور پر کیوں لیا جاتا ہے؟ جس کے لیے ضروری ہے کہ خواتین اسے بند دروازوں کے پیچھے نمٹائیں۔
اس لیے کہ دوسروں کو ناگوار نہ گزرے خواتین کو یہ قدرتی عمل چھپانا نہیں چاہیے جس سے وہ گزر رہی ہوتی ہیں۔ ہمیں خواتین کے جسم اور اس کے افعال کے ارد گرد موجود شرم کے احساس کے مسئلے کو حل کرنا ہوگا۔ آئیں ماہواری پر بات سے آغاز کریں۔ دنیا بھر میں کسی بھی ایک وقت میں 30 لاکھ کے لگ بھگ خواتین کو ماہواری آتی ہے۔ اس کے باوجود اس موضوع پر بہت لوگ شدید تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں۔
غیرسرکاری تنظیم ’واٹر ایڈ‘ کے زیراہتمام ایک سروے کے مطابق چار میں سے ایک شخص ماہواری پر بات کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے۔ اگر بات کرنی ہی پڑ جائے تو ایک چوتھائی لوگ متبادل الفاظ کا سہارا لیتے ہیں۔ آپ نے کتنی بار خود ماہواری کا ذکر’مہینے میں ایک بار آنے والا وقت‘ کہہ کر کیا ہے (58 فیصد لوگ ماہواری کا ذکر اسی طرح کرتے ہیں) یا پھر ماہواری کو نسوانی مسئلہ کہہ دیا جاتا ہے۔ ایک تہائی افراد ایک قدرتی عمل کا ایسے ہی ذکر کرتے ہیں۔ متبادل الفاظ کے استعمال سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین ماہواری کے معاملے میں شرم محسوس کرتی ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ لوگ ماہواری پر کھل کر بات نہیں کرتے۔ دنیا بھر میں اس رویے کا خواتین اور لڑکیوں پر اثر پڑتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ برطانیہ میں بھی 8 لڑکیوں میں سے ایک کو ماہواری شروع ہونے تک اس کا علم نہیں ہوتا۔ جنوبی ایشیا میں یہ تعداد 3 میں 2 لڑکیاں ہیں۔
ان تمام لڑکیوں کے لیے یہ کتنا خوفناک ہوتا ہوگا؟
میری بیٹیوں کو چھوٹی عمر میں ہی ماہواری کا علم تھا۔ میں نے اس معاملے میں ان سے ہمیشہ کھل کر بات کی ہے بالکل اسی طرح جیسے میری والدہ میرے ساتھ کرتی تھیں تاکہ مجھے یقین ہوجائے کہ ماہواری معمول کا عمل ہے۔
ماہواری قدرتی اور طاقتور ہوتی ہے اورمیں چاہتی ہوں کہ میری بیٹیوں کو اس کا علم ہو۔ وہ اعتماد محسوس کریں اور اپنے جسم سے پیار کریں۔ کیا یہ بہترین صورت حال نہیں ہوگی کہ کوئی بھی خاتون ماہواری کی وجہ سے شرم محسوس نہ کرے اورنہ ہی امتیازی سلوک کا شکار ہو کر پیچھے رہے؟
ماہواری سے حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق نمٹنے کی تعلیم کے بغیر خواتین کے انفیکشن میں مبتلا ہونے کا خطرہ رہتا ہے جبکہ ان کی روزمرہ کی سرگرمیاں بھی محدود ہوجاتی ہیں۔ کم علمی کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ اس معاملے میں بے بنیاد کہانیوں پر یقین کرنے لگتے ہیں جس کا نتیجہ دنیا کے مختلف حصوں میں خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور ان پر غیرضروری پابندیوں کی صورت میں نکلتا ہے۔
خواتین کی روزمرہ کی سرگرمیوں اور بعض چیزیں کھانے پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ امتیازی سلوک کی بدترین شکل یہ کہ ماہواری کی صورت میں لڑکیوں یا خواتین کو گھر سے نکال دیا جاتا ہے۔
پاکستان، سری لنکا اور بنگلہ دیش میں 3 میں سے ایک لڑکی ماہواری کی صورت میں سکول نہیں جاتی، جس کی وجہ ایسے ٹوائلٹس کی عدم موجودگی ہے جہاں ضرورت کے وقت معاملہ نمٹایا جاسکے۔
دنیا بھر میں 2.3 ارب لوگ صفائی کے مناسب نظام کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔ یہی معاملہ خواتین کے ساتھ بھی ہے۔ ان کی صلاحیتیں دبائی جاتی ہیں۔ یہ معمول کی بات نہیں ہونی چاہیے۔
کل ماہواری کے حوالے سے حفظان صحت کا عالمی دن منایا گیا تھا۔ اس موقع پرغیرسرکاری تنظیم ’واٹر ایڈ‘ نے لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ ماہواری پر کھل کر بات کریں تاکہ یہ بدنامی کا سبب نہ رہے اور خواتین اور لڑکیاں اپنی زندگی آسانی سے گزار سکیں۔ میں نئی فلم ’پیکی بلیڈرز‘ ( Peaky Bleeders) کے ذریعے اس حوالے سے مہم کی حمایت پر فخر محسوس کر رہی ہوں۔
ماہواری کے بارے میں گفتگو اتنی ہی معمول کی بات ہونی چاہیے جتنا کہ خود ماہواری۔ ہوسکتا ہے یہ معمولی دکھائی دے لیکن اس کے اثرات غیرمعمولی ہو سکتے ہیں۔ ماہواری پر کھل کر بات نہ صرف لڑکیوں اور خواتین کی ضروریات اور حقوق کا تحفظ یقینی بنا سکتا ہے بلکہ دنیا بھر میں ان کی بات سنی اور سنجیدگی سے لی جا سکتی ہے۔