بلوچستان کی سیاست میں اکثر معمول رہا ہے کہ وزارت اعلی کے ایک سے زیادہ امیدوار ہونے کی وجہ سے کوئی بھی وزیراعلی زیادہ عرصے ٹک نہیں پاتا۔ راتوں رات حکومتیں بنتی اور ختم ہو جاتی ہیں اور چٹکی بجتے ہی وزیراعلی کا تبدیل ہونا کوئی زیادہ حیرت کی بات نہیں۔
موجودہ وزیراعلی جام کمال کے خلاف بھی بغاوت کا آغاز ان کے حلف اٹھاتے ہی ہو گیا تھا کیونکہ سابق وزیراعلی اور انہی کی پارٹی کے سپیکر قدوس بزنجو بھی وزارت اعلی کے مضبوط امیدوار تھے۔ سپیکر صاحب کی نجی محفلیں ہوں یا میڈیا گفتگو وہ اب تک کھل کر جام کمال کی مخالفت میں پیش پیش رہے ہیں۔ لیکن جام کمال کو اب تک وہ کوئی نقصان پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
اب لیکن معاملہ جام کمال کے ہاتھ سے نکلتا ہوا نظر آ رہا ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ وہ حلقے جنوں نے جام کمال کو وزیراعلی بنوانے میں کلیدی کردار ادا کیا یا تو کسی اور کو وزیراعلی لانے یا نیوٹرل رہنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔
حالیہ سیاسی ہلچل کا آغاز تو 14 ستمبر کو ہوا جب اپوزیشن جماعتوں کے 16 اراکین نے جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی لیکن اسے گورنر نے اعتراض لگا کر جام کمال کو ایک لائف لائن فراہم کر دی۔
لیکن اس کے باوجود حکمراں جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے ناراض اراکین اسمبلی اور اپوزیشن کی بیٹھکیں اور پھر اسلام آباد میں بھی اہم ملاقاتیں جاری رہیں جس کے دباؤ میں دو اکتوبر کو یہ خبر تک پھیل گئی کہ جام کمال مستعفی ہونے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ یہ خبر (فی الحال) البتہ درست نہ ثابت ہوئی۔
لیکن اس پیش رفت کے ساتھ ہی ایک اور ایسی ڈیویلپمنٹ ہوئی کہ جس سے فی الحال جام کمال کی حکومت کا جانا تقریبا ٹہر چکا ہے (بشرطیکہ اگر جام کمال کو وزیراعلی بنوانے والے حلقے ایک دفعہ پھر انہیں بچانے کے لیےمیدان میں نہ اتر آئیں تو)۔ حکمران اتحاد کے ناراض اراکین نے جام کمال کو مستعفی ہونے کے لیے گذشتہ بدھ یعنی چھ اکتوبر تک کی ڈیڈلائن دی تھی۔ تاہم جام کمال اپنے منصب پر برقرار رہے۔
جس کے بعد۔۔ان کی اپنی کابینہ کے تین وزیر وزیر خزانہ ظہور احمد بلیدی، وزیر خوراک عبدالرحمان کھیتران، وزیر سماجی بہبود اسد بلوچ، جبکہ چار مشیر وں نے احتجاج استعفی دیدیا۔۔۔
اپوزیشن کے علاوہ ان کی اپنی جماعت کے 14 اراکین نے اپنے ہی وزیراعلی کے خلاف عدم اعتماد پیش کر کے جام کمال کے ٹہرنے کی رہی صحیح کسر بھی ختم کر دی ہے۔
جمع تفریق کے مطابق جام کمال کے خلاف اپوزیشن اراکین کی تعداد 23 ہے، جام کمال کی اپنی جماعت کے منحرف اراکین اور بی این پی عوامی کا نمبر 16 تک جا پہنچا ہے جبکہ جام کمال کے حمایتوں کی تعداد 24 ہے یعنی نمبر گیم سے یہ نتیجہ اخذ ہو رہا ہے کہ جام کمال اپنی اسمبلی کی اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں۔
اگر زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو جام کمال نے اپنی وزارت کو دوام بخشنے کے لیے وہ گر بھی آزما لیے جو شاید ان سے پہلے قبل از وقت گھر جانے والے وزیراعلی میں سے کسی نے نہیں آزمائے۔
مرکزی حکومت کی شدید ناقد جماعت جمعیت علمائے اسلام کے رہنما غفور حیدری سے جام کمال کی ملاقات اور مدد کی درخواست نے ان کی کمزور پوزیشن کو مزید عیاں کیا۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکز میں مائی باپ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے بھی جام کمال کو بچانے کے لیے ہنگامی دورے کیے، ناراض اراکین کو رام کرنے کے لیے ہرممکن اور سر توڑ کوششیں کی تاہم فل الحال نتیجہ ناپید ہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اپوزیشن تو شروع سے ہی جام کمال کے طرز حکمرانی کو بلوچستان کے لیے نقصان دہ قرار دیتی رہی لیکن خود حکمران جماعت باپ کے 14 اور اتحادی پی ٹی آئی کے ممبران کا ایک مشترکہ گلہ یہ ہے کہ جام کمال ایک ’مطلق العنان‘ حکمران ہیں جو کسی کی نہیں سنتے اور کوئی ایسی وزارت نہیں جس میں وہ براہ راست مداخلت نہ کرتے ہوں۔ تحریک انصاف بلوچستان کے صدر سردار یار محمد رند ہوں، سپیکر قدوس بزنجو ہوں یا وزیر خزانہ ظہور بلیدی جیسے کابینہ کے سینیئر اراکین انہیں گلہ جام کمال کے رویے اور طرز حکمرانی سے ہے۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ جب رند ہی روٹھ جائے تو جام کتنا عرصہ چھلک سکتا ہے؟
مسئلہ یہ ہے کہ جام کمال ابھی بھی بضد ہیں نہ تو وہ نوشتہ دیوار پڑھ پا رہے ہیں اور نہ ہی اپنے ساتھیوں منانے کے لیے اپنا رویہ تبدیل کر پائے ہیں۔ نقصان بلوچستان اور وہاں کی عوام کا ہو رہا ہے جہاں گذشتہ چند ماہ سے حکومتی رٹ مسلسل کمزور ہوتی چلی آرہی ہے۔ آدھی سے زیادہ اسمبلی اور کابینہ بلوچستان ہاؤس اسلام آباد میں ڈیرے ڈال چکی ہے۔
ایک اور پہلو کو بھی جام کمال نظر انداز کر رہے ہیں اور وہ یہ جتنی تیزی سے انہوں نے اپنے قریبی ساتھیوں کا اعتماد کھویا ہے اتنی ہی تیزی سے ان کی حکومت غیر مستحکم ہو چکی ہے۔
جام صاحب کے پاس کمال دکھانے کے لیے وقت کم ہے لیکن انہیں یہ ذہن نشین کرنا ہوگا کہ اگر وہ جلد بلوچستان اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ نہیں لیتے یا بصورت دیگر مستعفی نہیں ہوتے تو بلوچستان کی غیریقینی کی سیاست مرکز کو بھی اپنی لپیٹ میں لے کر عمران خان کے لیے بھی نہ ٹلنے والے مسائل پیدا کر سکتی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔