بلوچستان میں حکمران جماعت میں شامل باغی اراکین نے وزیراعلیٰ جام کمال کو دیے گئے الٹی میٹم کے بعد آج اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا ہے۔
ایسے میں تجزیہ کار پوچھتے ہیں کہ آخر نئی حکمراں جماعت کے قیام سے لے کر اب بلوچستان میں تازہ سیاسی تجربے میں کیا غلط ہوگیا؟ اور صوبہ اکثر سیاسی عدم استحکام کا شکار کیوں رہتا ہے؟
باغی ارکان کی جانب سے صوبائی وزیر اسد بلوچ نے میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے وزیراعلیٰ کو مستعفیٰ ہونے کے لیے بدھ تک کی مہلت دی تھی جو ختم ہو گئی۔
انہوں نے الزام لگایا کہ بلوچستان میں امن وامان کی صورت حال خراب ہے، بے روزگاری سے لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں جبکہ جام کمال ٹوئٹر پر سب اچھا کا تاثر دے رہے ہیں۔
اسد بلوچ نے کہا کہ ناراض اراکین نے جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کر لیا ہے جو دو دن بعد جمع کرائی جائے گی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے لیے انہیں 38 سے 40 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔ ’ہم نے اپنے استعفے بھی لکھ کر جیبوں میں رکھ لیے ہیں۔‘
اخباری اطلاعات کے مطابق ناراض گروپ نے گورنر سید ظہور احمد آغا سے رات گئے گورنر ہاؤس میں ملاقات میں اپنے استعفے انہیں سونپ دیے۔
اسد بلوچ نے صحافیوں کو بتایا کہ مائنس جام کمال کے فارمولے سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
ادھر بلوچستان حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلی بلوچستان جام کمال خان کو اکثریتی اراکین کی حمایت حاصل ہے اور وہ استعفی نہیں دیں گے۔
لیاقت شاہوانی مزید کہتے ہیں کہ حکمران جماعت کے ناراض دوستوں کو منانے کی کوشش جاری رہے گی اور ان کی شکایات اور تحفظات دور کیے جائیں گے۔
اسد بلوچ نے میڈیا کو بتایا کہ جام کمال کے خلاف ان کے 14 ارکان نے اجلاس میں تحریک لانے کا فیصلہ کیا ہے۔
ناراض اراکین کے گذشتہ روز بھی 11 ارکان نے بلوچستان اسمبلی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ جام کمال نے اپنی پارٹی ارکان کا اعتماد کھو دیا ہے۔
صوبائی وزیر خزانہ ظہور بلیدی نے اس موقعے پر کہا کہ عدم اعتماد کی وجہ صوبے میں بڑھتی ہوئی بے چینی ہے۔
’ہم نے وقت دیا لیکن وزیراعلیٰ نے استعفیٰ دینے کی بجائے سوشل میڈیا پر ہمارے درمیان اختلافات کا تاثر دینے کی کوشش کی۔‘
انہوں نے بتایا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے ناراض اراکین کی تعداد 14 سے 15 ہے۔ وزیراعلیٰ اتحادیوں کے ساتھ وعدوں پر پورا نہیں اترے۔
تجزیہ کار سینیئر صحافی رشید بلوچ سمجھتے ہیں کہ اس وقت جام کمال سے 14 ارکان ناراض ہیں اور اپوزیشن کے ملنے کی صورت میں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوسکتی ہے۔
رشید بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس وقت نمبر گیم کی صورت حال یہ ہے کہ اگر ناراض ارکان کے 14 اور اپوزیشن کے 22 ارکان مل جائیں تو یہ تعداد 36 بن جاتی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے لیے سادہ اکثریت 33 کی ضرورت ہوتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بظاہر اس وقت صورت حال جام کمال کے خلاف نظر آ رہی ہے۔ تاہم اگر جام کمال ناراض اراکین میں سے کچھ کو توڑنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو وہ اپنی وزارت بچا سکتےہیں۔ جس کےلیے وہ اس وقت ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ادھر تین اکتوبر کو وزیر اعلی بلوچستان جام کمال خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا تھا کہ بے اے پی ان کی جماعت ہے اور وہ اپنے معاملات کو خود حل کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’میں پھر کہوں گا، بی اے پی پاکستان کی سب سے جمہوری جماعت ہے۔ اختلافات آتے ہیں، ہم ان پر بحث کرتے ہیں اور الحمدللہ ان کو حل بھی کرتے ہیں۔
’آج تک میں بی اے پی کے تقریباً چھ ناراض اراکین سے بہت اچھے ماحول میں ملا ہوں اور انشا اللہ سب حل ہو جائے گا۔ کچھ افراد مزید اختلافات پیدا کرنا چاہتے تھے تاکہ ہم ایک دوسرے پر ردعمل ظاہر کریں۔
ملاقاتوں اور ناراض ارکان کو منانے کا سلسلہ کل بھی جاری رہا اور حکومت کی طرف سے صوبائی وزرا نے، جن میں گہرام بگٹی اور عبدالخالق ہزارہ شامل تھے، ناراض ارکان سے ملاقات کی۔
ملاقات کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے گہرام بگٹی نے بتایا کہ اسد بلوچ سمیت دیگر ناراض اراکین کے سامنے اپنا موقف رکھا۔
صوبائی وزیر عبدالخالق ہزارہ نے بتایا کہ اتحادی ہونے کے ناطے انہوں نے پل کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ’تین سال گزر گئے ہیں مزید دو سال بھی ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔‘
گہرام بگٹی نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں بی اے پی سمیت حکومت اتحاد کے 40 اراکین ایک ساتھ بیٹھ کر یہ مسئلہ حل کریں۔
ادھر وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کی زیرصدارت کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں صوبے میں نئے سب ڈویژنوں کے قیام جبکہ نئے یونین کونسلز، میونسپل کمیٹیوں اور میونسپل کارپوریشنز کے قیام کے منصوبے کی اصولی منظوری دے دی گئی۔
اس اجلاس میں ناراض اراکین موجود تھے یا نہیں اس بارے میں تجزیہ کار رشید بلوچ نے بتایا کہ اس میں یہ موجود نہیں تھے بلکہ اجلاس کے بعد خبر آئی کہ انہوں نے اپنے استعفے وزیر خزانہ ظہور بلیدی کے پاس جمع کرا دیے ہیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتےہوئے کہا ہے کہ انہیں 28 اتحادیوں کی حمایت حاصل ہے۔
اس سے قبل صوبے میں جاری سیاسی کشمکش کے حوالے سے چیئرمین سینٹ نے بھی دو دفعہ بلوچستان کا دورہ کرکے ناراض اراکین سے ملاقات کی تھی اور معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی کوششیں بھی کامیاب نہ ہوسکیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی۔ جسے گورنر نے اعتراض لگا کر واپس کردیا تھا۔ اس قرار داد کو تاحال دوبارہ جمع نہیں کرایا گیا ہے۔
اس تمام صورت حال پر سیاسی مبصرین کا کہنا ہےکہ یہ اختلافات اور ناراضگی مراعات اور فنڈز حاصل کرنے کی کوشش ہے۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار انور ساجدی کے کہتے ہیں کہ بلوچستان کےسیاست دانوں اور لوگوں کو اختیار نہیں کہ وہ اپنے فیصلے خود کرسکیں۔
’ان کے تمام فیصلے مرکز سے ہوتے ہیں۔ یہاں کبھی شفاف انتخابات نہیں ہوئے۔ 1970 سے جب یہ صوبہ بنا ہے ابھی تک تجربات کیے جارہے ہیں۔‘
دوسری جانب بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن رہنما یونس زہری نے نجی ٹی وی چینل سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ متحدہ اپوزیشن کےاجلاس میں جام کمال کے خلاف ناراض اراکین کا مکمل ساتھ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔
سیاسی اتحاد
جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں 2018 کے عام انتخابات سے قبل اس سال مارچ میں بلوچستان عوامی پارٹی کے نام سے نئی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بلوچستان کے اس وقت کے وزیر داخلہ اور ن لیگ کے منحرف گروپ کے رہنما میر سرفراز بگٹی نے نئی جماعت بنانے کا اس وقت اعلان کیا تھا۔
ابتدائی طور پر بلوچستان عوامی پارٹی میں ق لیگ، ن لیگ، پی کے میپ اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے منحرف رہنما شامل تھے۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے قیام کی وجہ بیان کرتے ہوئے پارٹی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ وفاق کی سطح پر فعال دیگر جماعتیں موجود تو ہیں لیکن بلوچستان سے تعلق رکھنے والا کوئی وفاق پرست پلیٹ فارم نہیں تھا۔
لیکن صوبے میں کسی اچھے اتحاد کی صورت میں زیادہ دیر مقامی سیاست دان ساتھ چل پائے ہیں ایسا کم ہی دیکھا گیا ہے اور اس مرتبہ بھی بظاہر یہی دیکھا جا رہا ہے۔