قبائلی علاقوں میں صحافت کبھی بھی آسان نہیں رہی۔ اس کی تازہ ترین مثال شمالی وزیرستان میں گذشتہ دنوں ایک صحافی کی محض اس لیے گرفتاری تھی کہ انہوں نے پشتون تحفظ موومنٹ کے ایک رہنما کا انٹرویو کیا تھا۔
اس علاقے میں آئیں اور قبائلی صحافیوں سے نہ ملیں یہ تو ممکن ہی نہیں۔ ضلع مہمند میں قائم اس کے پریس کلب پہچے، جو بات کہنےاور سننے کی روایت کا امین بنا ہوا ہے۔ لہذا مہمند پریس کلب کی عمارت جو سابق گورنر لیفٹیننٹ جنرل (ر) افتخار حسین شاہ کے دور میں تعمیر ہوئی اب زیادہ پررونق اور متحد دکھائی دے رہی ہے۔
کلب کے داخلی گیٹ کے سامنے بیچ سڑک کے دیوار تو سکیورٹی خدشات کی وجہ سے ابھی بھی قائم ہے لیکن عقب میں ایک دیوار گری ہوئی دیکھی جو ایک متوازی پریس کلب کے خاتمے اور صحافیوں میں نئے اتحاد کی مثبت خبر دے رہی تھی۔
پریس کلب کے صدر فخر عالم اور مہمند یونین آف جرنلسٹس کے صدر گل محمد سے حال احوال ہوا تو معلوم ہوا کہ بہتری تو ہے لیکن مشکلات ابھی باقی ہیں۔
سب سے بڑا مسئلہ تو خود پریس کلب کے وجود کو ہے کیونکہ پولیٹکل ایجنٹ کے خصوصی فنڈز ختم ہونے سے فنڈنگ سوکھ گئی ہے۔ دوسرے ذریعے پریس کانفرنسوں کی فیس ہے لیکن ان علاقوں میں ایسی اخباری کانفرنسیں بتایا گیا کہ ہوتی ہی کتنی ہیں۔
خیر وسائل کا مسئلہ تو ہمیشہ رہا ہے لیکن اصل وبال تو جانوں کو خطرے کا ہے۔ مہمند میں شدت پسندی کی لہر کے دوران چار صحافیوں نے شہادت پائی، جو حالات کی اصل سنگینی کو ظاہر کرتی ہے۔
یہیں ایک ایسے صحافی سے بھی ملاقات ہوئی جن کو طالبان کی جانب سے ایک شخص کو سرعام قتل کرنے کے واقعے کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے سے ایسا ذہنی صدمہ پہنچا کہ وہ آج تک اس سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فخر عالم نے بتایا کہ جنگی حالات میں خبر کو متوازن کرنا انتہائی مشکل تھا۔ ’سکیورٹی اداروں اور شدت پسندوں کا دباؤ ہوتا تھا کہ ان کی بات نشر کی جانی چاہیے۔ ایسے میں دوسرے کا موقف حاصل کرنا جان جوکھوں کا کام تھا۔‘
تربیت کی کمی اور مواصلات کے ابتر نظام کی وجہ سے بھی یہاں کے صحافیوں کو مشکلات رہیں لیکن اس کے باوجود وہ اپنا کام کرتے رہے۔
مہمند یونین آف جرنلسٹس کے صدر گل محمد نے بتایا یہاں کے صحافی بغیر تنخواہوں کے کام کر رہے ہیں۔ ’قبائلی علاقوں میں بد قسمتی سے 400 صحافی ہیں لیکن دس، بارہ کو ہی بین الاقوامی ادارے کچھ ادائیگی کرتے ہوں گے۔ پاکستانی نجی اداروں کو تو چھوڑیں سرکاری ادارے بھی جیسے کہ ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کے نمائندے کو کچھ نہیں ملتا، پی ٹی وی کا نمائندہ ہے تنخواہ نہیں ہے۔ میں 15 سال سے ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوں، ملتا کچھ نہیں۔‘
فخر عالم نے بتایا کہ شہدا کے لواحقین کا بھی کوئی پرسان حال نہیں۔
ان تمام مسائل کے باوجود مثبت پہلو یہ ہے کہ قبائلی نوجوان میڈیا میں آنے کا شوق رکھتے ہیں، ڈیجیٹل میڈیا کی سدھ بدھ بھی ہے اور کچھ زبردست کرنے کی تمنا بھی۔ تو کیا فاٹا کا انضمام انہیں یہ سب کچھ دے سکے گا؟