پی ڈی ایم نے آج سے مہنگائی کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کیا واقعی حزب اختلاف کو عوام کا خیال آ گیا ہے یا وہ ’مہنگائی کارڈ‘ استعمال کرکے صرف اپنے حصے کا فیض پانے کی کوشش کر رہی ہے؟
عوام پر تو کب کی بلائیں تمام ہو چکیں۔ نارسائی کا ایک سونامی ہے جو کوچوں میں ٹھہر گیا ہے اور سیلن گھروں تک آ گئی ہے۔ حکومت تو عوام سے خوفناک حد تک بے نیاز تھی ہی، ستم یہ ہوا کہ حزب اختلاف بھی عام آدمی کے دکھوں سے لاتعلق رہی۔
جنون یہاں خلق خدا کے لیے آزمائش بن گیا، اب ہر طرف اشکباری ہے۔ لیکن حکومت اور حزب اختلاف دونوں کے غم اور ہیں۔عوام اور اس کے دکھ کسی کا موضوع نہیں۔ خلق خدا بھوک سے مر رہی ہے یہ اپنے اپنے رجز پڑھ رہے ہیں۔ فاقہ ز دہ بستی میں جیسے دو قزاق موتیوں کی تقسیم پر لڑ پڑیں۔
حزب اقتدار کا سارا بیانیہ ’ایک پیج‘ کے خمار میں لپٹا ہے۔ عوام سے بے نیاز یہ اس پیج کی شکنوں کو زیارت کدہ بنائے بیٹھی ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ کوئی جمہوری حکومت اپنے عوام سے اس قدر بھی بے نیاز ہو سکتی ہے۔ نامعتبر بڑھکیں، لایعنی وعظ، خلط مبحث اور چند پھیکے رجز ، اس گروہ کی کل متاع اس کے سوا کیا ہے؟
مولانا فضل الرحمٰن کے واحد استثنیٰ کے ساتھ، حزب اختلاف کا عالم بھی یہ ہے کہ جب سو کر اٹھتی ہے تو اپنے نصیب کو رونا شروع کر دیتی ہے۔ دو خاندان ہیں اور مبارک سلامت۔ قصیدے بھی ان خاندانوں کی پاکی داماں کے ہیں اور نوحے بھی انہی کی شب غم کے۔ خدام ادب ہیں جیسے جوشِ بادہ سے شیشے اچھل رہے ہوں۔حزب اختلاف کی تندی گفتار کا حاصل صرف یہ ہے کہ امکانات کی دنیا میں کچھ فیض ان کو بھی مل جائے۔ چنانچہ صبح یہ فولاد بنتی ہے، شام اترتی ہے تو تاب رخ یار دیکھ کر موم ہو جاتی ہے۔
لوگوں نے اگر ایسی بے نیاز حکومت پہلے کبھی نہیں دیکھی تو ایسی نیاز مند حزب اختلاف کی زیارت بھی وہ پہلی مرتبہ کر رہے ہیں۔ہر شخص پریشان ہے اور اپنے نصیب کو رو رہا ہے۔ معیشت کو تو اسد عمر نے پہلی سہہ ماہی میں ہی ادھیڑ کر رکھ دیا تھا ۔سرے سے کوئی معاشی سمت تھی ہی نہیں۔ معاشی بد حالی کے دور میں لوگوں کے دکھوں پر مرہم رکھنے کی بجائے انہوں نے آتے ہی تجاوزات کے خلاف مہم کے نام پر وہ ادھم مچایا کہ سالوں کے چلتے کاروبار پل بھر میں برباد ہو گئے۔ عالم یہ ہے کہ آج تک کوئی سمت طے نہیں ہو سکی۔ ہر سال ایک نیا وزیر خزانہ ہوتا ہے۔
مہنگائی کا سونامی دنیا بھر میں آتا ہے لیکن ایسا ادھم کہیں نہیں مچتا کہ وہ اشیا بھی صبح شام مہنگی ہونے لگیں جن سے زندگی کی ڈور بندھی ہے۔ فوڈ آئٹم اور ادویات کی قیمتوں کو بھی اگر حکومت قابو میں نہ رکھ سکے تو حکومت کی افادیت کیا ہے ؟ کیا حکومتیں اس لیے بنائی جاتی ہیں کہ عوام صبح شام وفاقی وزرا کا تقریری مقابلہ سن کر لطف اندوز ہوتے رہیں؟
حزب اختلاف کو مگر آج تین سال بعد یاد آیا ہے کہ مہنگائی بہت ہے۔ قیادت جب فکر معاش سے بے نیاز ہو تو ایسی ہی بے نیازی جنم لیتی ہے۔ چنانچہ آج حزب اختلاف مہنگائی کے نام پر نکل رہی ہے تو یہ سوال اس کے ساتھ نکل رہا ہے کہ کیا سچ میں حزب اختلاف کو عوام کا خیال آ گیا ہے یا اپنے سارے کارڈ استعمال کرکے بھی ناکام ہونے کے بعد انہیں عوام کی یاد ستائی ہے اور یہ اپنے حصے کا فیض پانے کے لیے اب مہنگائی کارڈ کھیلنے جارہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حزب اختلاف میں کون ہے جس کے مشاغل مہنگائی نے متاثر کرنے کی گستاخی کی ہو؟ پوری پارلیمانی سیاست میں کوئی ایک رہنما دکھا دیجیے، غم روزگار جس کے دامن سے لپٹا ہو۔ایک آدھ استثنیٰ کے ساتھ یہ سب وہ ہیں جو مراعات سے فیض یاب ہوتے آئے ہیں۔ پارلیمان میں عام آدمی کے جانے کا کوئی در کھلا ہوتا تو اس مقدس ایوان میں کوئی عام آدمی کے دکھوں کو روتا۔وسائل پر قابض اس اشرافیہ کو کیا معلوم اس آدمی کا دکھ کیا ہوتا ہے جسے ہر پہر پیاس بجھانے کے لیے ہاتھوں سے کنواں کھودنا پڑے۔چنانچہ ان کے جھگڑے بھی الگ اور ان کے معرکے بھی جدا۔ عام آدمی ان کے نزدیک محض فکری اور سیاسی استحصال کا عنوان ہے۔
وطن عزیز میں عوام کا حسین عنوانات کے تحت بہت استحصال ہو چکا۔ ’گھاس کھا لیں گے مگر یہ کر کے رہیں گے، بھوکے رہ لیں گے مگر وہ نہیں ہونے دیں گے‘۔ یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔ خالق کائنات نے اس ملک میں لوگوں کو گھاس کھانے کے لیے پیدا نہیں کیا۔ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر ان کا بھی حق ہے۔مقتدر اشرافیہ کو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ اس ملک کے وسائل اور عوام اسے مال غنیمت میں نہیں ملے۔وہ نظریاتی استحصال کا خام مال نہیں، زندہ انسانی وجود ہیں۔
حزب اختلاف اگر مہنگائی کے خلاف تحریک چلانے جا رہی ہے تو اس تحریک کو کامیاب ہونا چاہیے۔ یہ کامیابی اس لیے بھی ضروری ہے کہ آئندہ کے لیے ہر حکومت کو یہ بات اچھی طرح سمجھ آ جائے کہ عوام کو اس بے رحمی سے نظر انداز کر کے حکومتیں نہیں چل سکتیں۔ حکومتیں ’ایک پیج‘ کے خمار سے نہیں، زمین پر موجود حقیقتوں حکمت اور بصیرت سے چلتی ہیں۔
اس خواہش کے ہمراہ مگر یہ سوال بھی رہے گا کہ حزب اختلاف خود اس معاملے میں کتنی سنجیدہ ہے۔ وہ اپنے اعلانیہ مقصد سے مخلص ہے یا وہ ’مہنگائی کارڈ‘ استعمال کرکے صرف اپنے حصے کا فیض پانے کی کوشش کر رہی ہے؟