اکرم ایک نجی کمپنی میں 15 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر ملازم ہے۔ اس کے چار بچے ہیں۔ دو سکول جاتے ہیں، ایک تین سال کا اور چوتھا ایک ماہ پہلے پیدا ہوا ہے۔
15 ہزار روپے کی تقسیم کچھ اس طرح سے ہے کہ 10 ہزار روپے میں کچن کے لیے دال سبزی کا سامان آتا ہے اور اوسطاً پانچ ہزار روپے بجلی اور گیس کا بل ادا ہوتا ہے۔ صرف دو فرائض کی ادائیگی میں تنخواہ ختم ہو جاتی ہے۔
ابھی گھر کا کرایہ، دفتر آنے جانے کا کرایہ، ڈاکٹر دوائی کے اخراجات، خوشی غم پر دینا دلانا اور بچوں کے کپڑوں کھلونوں جیسی خواہشات کی تکمیل ادھوری ہے۔ ان خراجات کے لیے رقم ادھار مانگ کرپوری کرتا ہے۔ محلے کے دکاندار کے پاس تین ماہ ادھار کا بل بن چکا ہے۔
آج دوپہر کھانے کی بریک پر وہ اس سوچ میں گم تھا کہ دو سال قبل 10 ہزار روپے ماہانہ پر گزرا ہو جاتا تھا لیکن آج 15 ہزار روپے میں آدھے اخراجات پورے نہیں ہوتے۔
ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ٹی وی پر خبر چلی کہ پاکستانی عوام کے لیے خوش خبری ہے۔ جولائی 2020 سے فروری 2021 تک لارج مینوفیکچرنگ یونٹس کی پیداوار میں 7.9 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کے مطابق پچھلے پانچ ماہ میں یہ اضافہ مسلسل ہو رہا ہے جو کہ معاشی ترقی کی طرف اشارہ ہے۔ پچھلے سال جنوری 2020 کی نسبت جنوری 2021 میں یہ اضافہ تقریباً نو فیصد ہے۔
سال کے آغاز پر حکومت نے بتایا تھا کہ رواں سال شرح نمو منفی ڈھائی فیصد رہے گی لیکن سات ماہ بعد ملک میں ہونے والے ترقی یافتہ کاموں کی بدولت یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ اس سال کے اختتام پر جی ڈی پی مثبت ہو سکتی ہے۔
اکرم ان اعداد و شمار کو سمجھنے سے قاصر تھا۔ اس نے معصومانہ انداز میں اپنے ساتھی سے پوچھا، ’کیا مہنگائی کم ہو گئی ہے، آٹا اور چینی سستے ہو گئے ہیں، بجلی کم ریٹ پر مل رہی ہے۔ پیٹرول سستا ہو گیا ہے، سکول کی فیس کم ہو گئی ہے؟‘
ان تمام سوالات کے جوابات نفی میں تھے۔ اس نے کہا کہ ’مجھے کیا مطلب کہ کون سے اشاریے بہتر ہو رہے ہیں اور کس کی پیدوار بڑھ رہی ہے۔ میرے لیے تو خوشخبری اس وقت ہو گی جب میرے اخراجات میری آمدن میں سے پورے ہونے لگیں گے اور مجھے ادھار نہیں لینا پڑے گا۔‘
سچ بھی یہی ہے کہ تکنیکی اعدادوشمار فائلوں کا پیٹ بھرنے کے لیے تو ٹھیک ہیں لیکن عوام کی تکلیف کا صحیح اندازہ اس وقت تک نہیں لگایا جا سکتا جب تک سرکار کا ہاتھ عوام کی نبض پر نہ ہو۔
اکرم کو آنے والے دن مزید سخت ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ کس طرح، یہ آپ کو آگے چل کر بتاتا ہوں فی الحال ایک جائزہ حکومتی کارکردگی اور اعداوشمار کا آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔
اگر ہم اعداو شمار کی بھی بات کر لیں تو تحریک انصاف کی حکومت تصویر کا صرف ایک رخ دکھا رہی ہے۔ دوسرا رخ یہ ہے کہ فروری 2021 میں مہنگائی کی شرح جنوری 2021 کی نسبت تین فیصد زیادہ رہی ہے۔
فروری 2021 میں مہنگائی کی شرح 8.7 فیصد تک بڑھ گئی ہے، جو پچھلے چار ماہ میں سب سے زیادہ ہے۔ جنوری 2021 میں یہ شرح 5.7 فیصد تھی۔
اس وقت اسد عمر صاحب نے میڈیا پر آ کر کامیابی کا اعلان بھی کیا تھا۔ اس کے علاوہ رزاق داود صاحب نے ٹوئٹر پر خوب چرچا کی تھی۔ یہاں تک کہ وزیراعظم صاحب بھی اسے پی ٹی آئی کا کریڈٹ قرار دیتے ہوئے سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر دکھائی دے رہے تھے۔
اسد عمر صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تھی تو اس وقت مہنگائی کی شرح 5.8 فیصد تھی اور اڑھائی سال بعد اسے اشاریہ ایک فیصد نیچے لانا بہت بڑی کامیابی ہے۔
حکومتی وزرا سے گزارش ہے کہ اب بھی ٹی وی پر آ کر عوام کو بتائیں کہ ایک مہینے میں مہنگائی میں تین فیصد اضافے کا ذمہ دار کون ہے۔ پی بی ایس کے مطابق ایک سال میں بجلی 43 فیصد مہنگی ہوئی ہے۔
گندم، آٹا اور چینی سمیت اشیا خورد و نوش کی قیمتوں میں دہرے ہندوسوں میں اضافہ ہوا ہے۔ شہروں میں فوڈ انفلیشن 10.8 فیصد ہے۔ جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔
ایک ماہ میں انڈوں کی قیمت میں 48 فیصد، مرغی 36 فیصد اور تیل اور گھی کی قیمتوں میں 15 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ حیرت اس بات پر بھی ہے کہ سرکاری طور پر اعداد و شمار جاری ہونے سے تین دن قبل وزرات خزانہ نے بتایا تھا کہ ماہ فروری میں مہنگائی کی شرح 5.5 فیصد سے 5.7 فیصد کے درمیان رہے گی۔ یعنی کہ وزرات خزانہ کو بھی معلوم نہیں تھا کہ حالات کس حد تک بگڑ چکے ہیں۔
اگر تجارتی خسارے پر نظر ڈالی جائے تو ماہ فروری میں پچھلے سال کی نسبت 24 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ لگاتار دوسرا مہینہ ہے جس میں برآمدات کم ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ دسمبر میں جو برآمدات میں اضافہ دکھایا گیا تھا وہ تصویر کا ایک رخ تھا۔
صرف ماہ دسمبر میں بہتری دکھائی گئی اور یہ نہیں بتایا گیا کہ سال 2020 میں ٹیکسٹائل برآمدات سال 2019 کی نسبت کم رہیں۔
تحریک انصاف کی حکومت میں اوسطا ماہانہ برآمدات دو بلین ڈالرز ہیں۔ ن لیگ کے پانچ سالہ دور میں بھی یہ تقریباً دو ارب ڈالر ہی رہی ہیں۔ بلکہ کچھ ماہ میں 2.3 ارب ڈالر رپورٹ کی گئی ہیں۔
موجودہ حکومت میں ڈالر کی قیمت میں تقریباً 30 فیصد اضافے کے بعد بھی برآمدات اوسطا دو ارب ڈالر ہی ہیں جو تکنیکی اعتبار سے ن لیگ کے دور کی نسبت کم ہیں۔ عوام سے گزارش ہے کہ حکومتی کارکردگی پر کوئی رائے بنانے سے پہلے تمام پہلووں کو مدنظر رکھیں۔
اب میں واپس اکرم کی پریشانی کی طرف آتا ہوں۔ ماہ رمضان شروع ہونے والا ہے اور اشیا کی قیمتوں کو ایک مرتبہ پھر پر لگ گئے ہیں، لیکن آمدن میں اضافہ نہیں ہو رہا۔
حکومت ممکنہ طور پر چند دنوں تک عوام کو خوشخبری سنائے گی کہ رمضان سے پہلے اشیا کی قیمت میں 10 سے 15 روپے کمی کر دی گئی ہے، جس سے ممکن ہے کہ اکرم کو وقتی طور پر کچھ تسلی ہو لیکن وہ بے سود ہے۔
مثال کے طور پر 50 روپے فی کلو اضافے کے بعد رمضان پیکج کے نام پر 15 روپے فی کلو کمی کی جائے تو 35 روپے فی کلو پھر بھی عوام کے اوپر اضافی بوجھ پڑے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
معصوم عوام وقتی طور پر خوش ہوں گے لیکن حقیت اس وقت کھلے گی جب 15 رمضان سے پہلے ہی تنخواہ ختم ہو جائے گی۔
اکرم بتاتا ہے کہ ’اڑھائی سال پہلے جب میرے گھر بیٹا پیدا ہوا تھا تو 230 روپے فی کلو مٹھائی ملتی تھی میں نے دو کلو مٹھائی لے کر خاندان میں تقسیم کی تھی، لیکن ایک ماہ پہلے پیدا ہونے والے بیٹے کی مٹھائی ابھی تک نہیں خریدی ہے کیونکہ اب مٹھائی پانچ سو روپے فی کلو ہے۔ اگر ہزار روپے کی مٹھائی خریدوں گا تو چار دن گھر کا راشن نہیں ڈلے گا۔‘
وہ کہتا ہے کہ ’میں نے تین سال پہلے کمیٹی ڈال کر ایک لاکھ روپے جمع کیے تھے کہ مشکل وقت میں کام آئیں گے لیکن آج خرچ کیے بغیر ان کی ویلیو 50 ہزار کے برابر رہ گئی ہے۔ یہ وہ سچ ہیں جنھیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘
اس کے علاوہ بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہونے کی خبر ہے اور سوئی نادرن گیس نے ریوینیو ٹارگٹ پورا کرنے کے لیے اوگرا سے گیس کی قیمتوں میں 200 فیصد اضافے کی اجازت مانگی ہے۔ حکومت کی جانب سے اس کی وجہ آئی ایم ایف بتائی جا رہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت بجلی اور گیس کی چوری روکنے میں ناکام رہی ہے۔
سندھ حکومت نے گندم کی سرکاری قیمت دو ہزار روپے فی بوری کر دی ہے جو کہ پاکستانی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔ آنے والے دنوں میں آٹے اور چینی کی قلت کے بھی امکانات ہیں جس سے قیمتیں مزید بڑھ سکتی ہیں۔
حکومت سے گزارش ہے کہ عام آدمی کو حساب کتاب میں الجھانے کی بجائے ان کی معاشی بہتری کے لیے حقیقی اقدامات کرے، کیونکہ جب اکرم جیسے لوگوں کی زندگی بہتر ہو جائے تو حکومت کو اعداد و شمار پیش کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی، عوامی حالت ہی حکومتی کارکردگی کا ثبوت بن سکتی ہے۔