یہ تحریر آپ یہاں مصنفہ کی آواز میں بھی سن سکتے ہیں
یہ کہاوت مشہور ہے کہ اگر ہارنے والے گھوڑے پر بار بار بازی لگا کر سبق نہیں سیکھا جاتا تو سمجھ لینا چاہیے کہ بازی لگانے والا انتہائی نااہل ہے۔
افغانستان پر پہلے طالبان کی فتح اور اب پنج شیر پر پرچم کشائی کے بعد جہاں آس پڑوس ملکوں کی خارجہ پالیسی ایک نیا محاذ اختیار کرنے لگی ہے وہیں بھارت کی ’ناکام خارجہ پالیسی‘ پر سوال اٹھانے کی بجائے 20 کروڑ مسلمانوں کو مشکوک سمجھا جانے لگا ہے جن میں سے بیشتر نے اپنے پڑوس میں امن و استحکام کے لیے محض دعائیں مانگی تھیں۔
بھارت کے مسلمان ویسے ہی آر ایس ایس کی پالیسیوں سے پریشان ہیں لیکن طالبان کی واپسی کے بعد ان کو تاڑنا، ہراساں کرنا یا اذیتیں دینا ہندوتوا پالیسی کا اب ایک معمول بنتا جا رہا ہے۔
اس کے پیش نظر آئے روز معروف سے لے کر ادنی اشخاص تک کو اپنی بھارتی شناخت کے شواہد دینے پڑ رہے ہیں۔
خود کو محب الوطن ظاہر کرنے کی دوڑ میں مسلمانوں کے ساتھ بیشتر ہندو بھی شامل ہیں جن کو ہندو ہونے کا بھی ثبوت دینا پڑ رہا ہے۔
بالی ووڈ کے معروف مصنف اور شاعر جاوید اختر نے حال ہی میں ایک گفتگو کے دوران کہا تھا کہ ’طالبان، آر ایس ایس، بجرنگ دل یا وشوا ہندو پریشد ایک ہی ذہنی سوچ کے مالک ہیں، محض طالبان کو نشانہ نہیں بنایا جاسکتا ہے۔‘
اس روز سے انہیں ہندوتوا جماعتوں کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا ہے حتی کہ بی جے پی کے ممبر اسمبلی رام کادم نے اعلان کیا کہ جاوید اختر یا ان کے اہل خانہ کی اس وقت تک کوئی فلم ریلیز نہیں کرنے دی جائے گی جب تک نہ وہ بھارتی عوام سے معافی نہیں مانگتے ہیں۔
جاوید اختر کے مقابلے میں معروف اداکار نصیر الدین شاہ نے لبرل مسلمان کا لبادہ پہن کر ان مسلمانوں کی شدید تنقید کی جنہوں نے طالبان کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کیا۔
انہوں نے طالبان کی واپسی کو ’اسلام کے اندرون قدیم بربریت‘سے تعبیر کیا۔ بیشتر مسلمانوں نے سوشل میڈیا پر شاہ پر نشانہ سادھا جبکہ ہندوتوا تنظیموں نے ان کی تعریف کرتے ہوئے مسلمانوں سے طالبان کی مذمت کرنے کی صلاح دی۔
ظاہر ہے کہ ہندوتوا میڈیا کے لیے نصیر الدین شاہ کی خبر بڑی اہمیت کی حامل بنی جبکہ جاوید اختر مخالفین کے جال میں پھنستے ہی جا رہے ہیں۔
معروف اداکارہ سورا بھاسکر کے خلاف بھارت میں سوشل میڈیا پر اس وقت ’سورا بھاسکر کو گرفتار کرے‘ کا ہیش ٹیگ چلایا گیا جب انہوں نے اپنی ایک پوسٹ میں لکھا تھا کہ ’ہمیں ہندوتوا پر تو اطمینان نہیں ہونا چاہیے اور طالبان پر صدمے اور تباہی کا خوف۔‘
انہوں نے مزید لکھا تھا کہ ’ہمارے انسانی اور اخلاقی قدریں ظالم اور مظلوم کی شناخت پر منحصر نہیں کرنی چاہیں۔‘
ان کی اس پوسٹ پر طوفان کھڑا ہوگیا اور وہ شدید تنقید کا شکار ہوگئیں۔ ٹوئٹر پر سورا بھاسکر کے 16 لاکھ سے زائد مداح ہیں۔ بعض مداحوں نے بھی طالبان کے بارے میں ان کے خیالات سے اختلاف کیا اور انہیں طالبان اور ہندوتوا کو جوڑنے سے منع کرنے کا مشورہ دیا۔
اسی تناظر میں بھارت کے سیاسی مبصر آدیتہ مینن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسے وقت جب ہندوستانی مسلمان اقتصادی بائیکاٹ، ہجومی تشدد، پولیس زیادتیوں کا شکار ہو رہے ہیں، نصیر الدین شاہ کا طالبان سے متعلق یہ بیان ان کے لیے ایک اور شامت کی علامت بن سکتا ہے۔ طالبان کی سوچ ہندوستانی مسلمانوں پر حاوی ہونا صیح نہیں ہے۔‘
اس سے قبل اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمان شفیق الرحمان برق پر غداری کا کیس درج کیا گیا جب انہوں نے طالبان کے بارے میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’طالبان غیرملکی تسلط سے آزادی چاہتے تھے جیسے ہندوستان نے برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کی۔ ہمیں ان کے معاملے میں مداخلت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘
ابھی برق پر ہندوتوا کے تیر برس ہی رہے تھے کہ کُل ہند مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن مولانا سجاد نومانی نے طالبان پر پھول برسانا شروع کر دیا۔
انہوں نے طالبان کو ’مسلمانان ہند کی جانب سے سلام‘ بھیج کر مسلم اقلیت کے لیے مزید مشکلات پیدا کر دیں ہیں۔
چند روز پہلے حیدر آباد دکن میں کئی مسلم نوجوانوں کو اپنے علاقے میں روپوش ہونا پڑا جنہوں نے سوشل میڈیا پر طالبان کی کامیابی پر کسی ولی یا بزرگ کی پیش گوئی کا ذکر چھیڑا تھا جس میں انہوں نے اس پورے خطے میں اسلامی نظام کے قیام کی بشارت دی تھی۔
حیدرآباد دکن کے شہری ریاض مصطفی انصاری کہتے ہیں کہ ان کے ہندو پڑوسی، طالبان کی کامیابی پر اتنے برہم تھے کہ انہیں چند روز گھر میں ہی قید رہنا پڑا۔
’ہم پر خوف لرزاں ہوا جب ہم نے بیشتر ہندووں کو اپنی گلی میں جمع ہوتے دیکھا جو مسلم نوجوانوں کے بارے میں معلومات اکٹھا کر رہے تھے۔ ہم پولیس سے بھی تحفظ کی درخواست نہیں کر سکتے جو گہری ہندو سوچ کی حامل ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صحافی مہندر جلوٹا کہتے ہیں کہ ’ہندوتوا میڈیا 15 اگست کے اس صدمے سے ابھی تک نہیں نکل پا رہا ہے جب کابل میں طالبان کا پرچم لہرایا گیا جس سے ہماری یوم آزادی کا جشن کراکرا تو ہوگیا مگر اس صدمے سے نکلنے کے جتن میں بعض چینلز تمام دنیا سے ایسے افغانوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کے گفتگو کے لیے لا رہے ہیں جو بظاہر کئی دہایوں سے افغانستان سے نکل کر بیرونی ملکوں میں آباد ہوئے ہیں اور ان سے طالبان مخالف باتیں کہلوا کر دل کی بھڑاس نکالنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
’اپنے مسائل پر توجہ دینے کی بجائے ہم افغانستان پر بحث کرتے ہیں جبکہ ہماری معیشت اندر سے کھوکھلی ہوچکی ہے۔‘
چند روز کے لیے یہ سلسلہ ذرا سا تھم گیا تھا کہ پنج شیر سے خبر ملی کہ طالبان نے اس پر بھی فتح حاصل کی ہے، مسلمان اور دوسری اقلیتیں ہندوتوا کے راڈار پر واپس آگئیں۔
مسلمانان ہند نے گو کہ اب کی بار ہونٹوں پر تالے چڑھائے ہیں اور دعا کر رہے ہیں کہ طالبان کی پیش قدمی افغانستان کی سرحدوں تک ہی رکی رہے اور اس پورے خطے میں استحکام پیدا ہو کیونکہ بھارتی مسلمانوں کو مزید صدمے یا مزید تشدد برداشت کرنے کی سکت نہیں رہی ہے۔