ستاون سالہ لینس ہیرٹ کے بیٹوں کا کہنا ہے کہ گھریلو تشدد میں ملوث ان کے والد کوعورتوں سے نفرت پر مبنی آن لائن مواد نے بیوی اور بیٹی کے قتل پر اکسایا تھا۔
ہیرٹ نے 2016 میں شارٹ گن سے اپنی 50 سالہ بیوی اور 19 سالہ بیٹی کو قتل کرنے کے بعد لنکولن شائیر کے علاقے سپیلڈنگ میں ایک سوئمنگ پول کی کار پارکنگ میں خود کو بھی مار ڈالا تھا۔
قتل کی تفتیش کرنے والے افسر کے مطابق ہیرٹ سرد مزاج، نپے تُلے اور ترکیبیں لڑانے والے شخص تھے۔
قتل کی واردات کے بعد میڈیا کا کہنا تھا کہ وہ ایک اچھے اور ہمیشہ خیال رکھنے والے انسان تھے جبکہ حقیقت میں ان کی اہلیہ گھریلوتشدد اور جبری کنٹرول کے خلاف 27 سال سے جدوجہد کر رہی تھیں۔
ہیرٹ کے بیٹوں لُک اور رائن نے قتل کی واردات سے پانچ روز قبل اپنی والدہ کلائر اور بہن شارلٹ کو فرار کرانے میں اُن پیسوں سے مدد کرنے کی کوشش کی تھی جو وہ کئی سالوں سے جمع کر رہے تھے۔ لیکن وہ اس حادثے سے بچ نہیں پائیں۔
دونوں بھائی اپنے والد کو’گھریلو دہشت گرد‘ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے دماغ میں مردانہ بالادستی کے تصورات اُن کی والدہ سے منتقل ہوئے تھے جو 1950 کی دہائی میں خود بھی ایک روایتی اور فرماں بردار بیوی تھیں۔
تیس سالہ رائن کا کہنا ہے: ’وہ [دادی ۔ ہیرٹ کی والدہ] ہر وقت صفائی ستھرائی اور کھانا پکانے کا کام ہی کرتی رہتی تھیں اور گاڑی بھی نہیں چلا سکتی تھیں۔ ان کا کام محض اپنے شوہر کی خدمت کرنا تھا۔ ہمارے والد جس ماحول میں بڑے ہو رہے تھے وہ اُسی ماحول کو ہمارے خاندان میں دہرانا چاہتے تھے۔ ان کے خواتین اور خاندان سے متعلق خیالات پانچ سے چھ دہائیوں پرانے تھے۔‘
’وقت کے ساتھ سماجی رویے تو تبدیل ہو گئے مگر انہوں نے اپنی سوچ تبدیل کرنے سے انکار کر دیا۔ ہمارے والد کا عقیدہ تھا کہ مرد کو عورت پر برتری حاصل ہے اور چونکہ وہ ایک مرد تھے اس لیے ان کی ایسی بیوی ہونی چاہیے جو ان کی خدمت کرے اور ان کی تمام خواہشات کی تکمیل کرے۔‘
’ان کو کبھی نہیں لگتا تھا کہ وہ کچھ غلط کر رہے ہیں، یہاں تک کہ ہماری ماں اور بہن کا قتل بھی ان کے نزدیک صحیح قدم تھا، جیسا کہ انہوں نے قتل کے حوالے سے ایک نوٹ میں اس اقدام کو جائز قرار دیتے ہوئے لکھا کہ ہم نے دنیا سے متعلق ان کے تصورات کو تباہ کر دیا تھا اور ہم ان کی سوچ کے مخالف جا رہے تھے۔ ان کے نزدیک نافرمانی کی سزا صرف موت تھی۔‘
ہیرٹ نہ صرف اپنے خاندان پر مالی کنٹرول رکھتے تھے بلکہ وہ انہیں تنہا بھی رکھتے تھے۔ اگر ان کی بیوی کام کے بعد اپنی دوستوں سے ملتیں تو وہ ان پر ہم جنس پرستی یا کسی دوسرے شخص سے تعلق کا الزام لگا دیتے تھے۔
ان کو اپنی پرموشن کے لیے درخواست دینے یا چھٹیوں پر جانے کی بھی اجازت نہیں تھی یہاں تک کہ وہ ترکی میں اپنے بیٹے رائن کی ریس دیکھنے بھی نہیں جا پائی تھیں۔ بچوں پر دس برس تک اپنی خالہ یا ماموں سے بات کرنے کی بھی پابندی تھی۔ ان کی ماں نے اپنے شوہر کے بنائے ہوئے شیڈول اور کاموں کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال لیا تھا۔
انتیس سالہ لُک نے کہا: ’جب ہم بڑے ہو رہے تھے تو ہمارے والد نے اپنے ہی اصول بنا رکھے تھے جیسا کہ چائے کی کیتلی کو اوپر تک بھرا ہونا چاہیے، اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ پاگل ہو جاتے اور یہ جنونی کیفیت گھنٹوں جاری رہتی۔ وہ ہمیں کنٹرول میں رکھنے کے لیے ہر طریقہ آزماتے تھے۔‘
لُک کا مزید کہنا تھا کہ ان کے والد انٹرنیٹ پر سازشی نظریات کی تلاش میں سرگردہ رہتے تھے اور وہ عورت بیزاری والے گمنام فورمز پر بیشتر وقت سرف کرتے تھے۔
لُک نے بتایا کہ ہیرٹ نے ان کی والدہ کو تمام عمر مالی محتاجی کا شکار رکھا تاکہ وہ انہیں چھوڑ کر نہ جا سکیں اور قتل کے بعد ان کو معلوم ہوا کہ ان کے والد نے انہیں مالی طور پر کنگال رکھنے کے لیے اپنے انٹرنیٹ کے دوستوں کو دس ہزار پاؤنڈز دیے تھے۔ دنیا کی نظرمیں وہ ایک کم درجے کے مرد تھے مگر ذاتی طور پر وہ خود کو برتر آدمی تصور کرتے تھے جن کا ان کے پورے خاندان پر کنٹرول تھا۔
رائن اور لُک دونوں انجینیئر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہیرٹ ان کی والدہ کے بینک اکاؤنٹس اور اخراجات پر بھی گہری نظر رکھتے تھے اور والدہ کو ہر چیز کی رسید انہیں دکھانا پڑتی تھی حتیٰ کہ ہم دونوں بھائیوں کے کمائے ہوئے پیسے بھی والدہ تک پہنچتے نہیں دیکھ سکتے تھے۔
دونوں بھائیوں نے اس قتل پر میڈیا کوریج کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان کے والد کی کار سے ملنے والی یو ایس بی میں موجود 12 صفحوں پر مشتمل ’مرڈر نوٹ‘ کو جس طرح انٹرنیٹ پر پیش کیا گیا اور قتل کو میڈیا میں جائز قرار دیا جاتا رہا وہ قابل افسوس ہے۔
لُک نے کہا: ’میڈیا میں اس نوٹ کو ’خودکشی کا خط‘ بنا کر پیش کیا گیا جو اصل میں ’مرڈر نوٹ‘ ہے۔ بلکہ یہ ایک منشور ہے، ایک سیاسی منشور۔ ان لوگوں کا منشور جو وہ اپنے خاندان کے افراد کو قتل کر کے لکھتے ہیں۔ یہ دنیا کے صنفی نقطہ نظر کے بارے میں ایک منشور تھا جس کی ذرائع ابلاغ میں گونج سنائی دی اور میڈیا اس کی کوریج کے لئے بہت پُرجوش تھا۔ ‘ْ
’اگر نسلی طور پر بدسلوکی کے حوالے سے کوئی جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو میڈیا کہتا ہے کہ ایسے مواد کو شائع نہیں کرنا چاہیے لیکن جب گھریلو تشدد کے بارے میں ایسا کیا جاتا ہے تو اسے من و عن شائع کر دیا جاتا ہے۔ ہماری والدہ اور شارلٹ وہ لوگ تھے جن پر میڈیا نے سوالات اٹھائے اور ہمارے والد کے جرم کو جائز تصور کیا گیا جبکہ ان کے رویے کے حوالے سے کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا۔‘
لُک نے کہا کہ ان کا یا ان کے بھائی کا اپنے والد کے ساتھ رشتہ معمول سے ہٹ کر تھا وہ اپنے بچوں کو ایک آلے کے طور پر دیکھتے تھے جس کے ذریعے صرف خواتین پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔
’شروع میں ہم نے اپنے والد کے رویے کو گھریلو تشدد کے طور پر نہیں دیکھا کیوں کہ ایسے ماحول میں رہتے ہوئے یہ معمول لگنا شروع ہو جاتا ہے اور آپ اصل میں یقین کرنا شروع کردیتے ہیں کہ یہ تشدد نہیں۔‘
انہوں نے کہا گھریلو تشدد سے نمٹنے کے لیے معاشرے کو اپنی توجہ ان رویوں پر مرکوز کرنے کی ضرورت ہے جس سے کوئی کسی کو کنڑول کرنا چاہے کیوں کہ تشدد کا مقصد ہی لوگوں کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے۔
’ہم سوچتے ہیں کہ گھریلو تشدد محض ایک بدنصیبی ہے اور یہ جان لیوا نہیں ہو سکتا لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے، کیوں کہ تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ گھریلو تشدد ہمارے معاشرے میں انتہائی خطرناک صورتحال اختیار کر چکا ہے۔‘
تحقیقات کے مطابق برطانیہ میں ہونے والے قتل کے تمام واقعات میں تقریبا ایک چوتھائی کا تعلق گھریلو تشدد سے ہے اور اس بات کے کافی خطرات موجود ہیں کہ خواتین اور بچوں کو ان کے اپنے گھروں میں مار دیا جائے۔
ایک چیز جس نے واقعی ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا وہ یہ حقیقت ہے کہ ملک میں ہر سال 100 خواتین کو ان کے موجودہ یا سابق ساتھی قتل کر دیتے ہیں۔ یہ تعداد دہشت گرد حملوں میں مرنے والے افراد سے بھی دس گنا زیادہ ہے۔
’اہم بات یہ ہے کہ تسلیم کی جائے کہ گھریلو تشدد مہلک ہے، ہم ہمیشہ اس قسم کے تشدد میں ملوث افراد کے بارے میں تومعلومات رکھتے ہیں لیکن گھریلو تشدد سے ہونے والی ہلاکتوں کی کوئی تاریخ نہیں ہے، جیسا کہ ہمارے معاملے میں ہے۔‘
یہ دونوں بھائی جو اب گھریلو تشدد کے خلاف مہم چلا رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ یہ ان کی والدہ اور بہن ہی تھیں جنہوں نے دنیا میں اچھا کام کرنے کے بارے ان کی مدد کی۔
’اپنی والدہ اور شارلٹ سے ہم نے سیکھا کہ نفرت اور تکلیف کے ماحول میں بھی آپ اپنی مدد آپ کر سکتے ہیں اور آپ کو کوئی عذر دینے کی بھی ضرورت نہیں جیسا کہ ہمارے والد کیا کرتے تھے۔ لیکن ماں اور شارلٹ نے اس ماحول کے باوجود خود کو ناقابل یقین لوگوں کی فہرست میں شامل کیا اور خود کو ایک مثال بنایا۔‘