دنیا بھر میں حکومتیں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پر انحصار کرتی ہیں جس سے ان پر سائبر حملوں کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
2007، ایسٹونیا میں روس نواز ہیکرز نے حکومتی سرورز پر حملہ کر کے ملکی نظام مفلوج کر دیا تھا۔
اسی طرح یوکرائن میں بجلی گھروں کو نشانہ بنانے سے پورا ملک اندھیرے میں ڈوب گیا تھا جبکہ ایران میں تو ایٹمی اثاثوں تک کو نہیں چھوڑا گیا جہاں ممکنہ نیوکلیئر میلٹ ڈاؤن کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔
دنیا کی سپر پاور امریکہ کو بھی سائبر حملوں کے خطرے کا چیلنج درپیش ہے، جہاں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں امریکی کمپوٹرز کو ’غیرملکی دشمنوں‘ سے بچانے کے لیے قومی سطح پر ہنگامی صورتحال کا اعلان کیا ہے۔
دنیا میں سیاسی عزائم کے ساتھ کیے جانے والے سائبر حملوں کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے جبکہ خطرناک بات یہ ہے کہ دو یا زائد ریاستوں میں ہونے والی روایتی جنگوں کے برعکس سائبر لڑائی میں کوئی بھی انفرادی شخص یا گروہ ملوث ہو سکتا ہے۔
ریاستیں ایک ہی وقت میں مخالف ہیکنگ گروپس پر توجہ مرکوز رکھنے کے ساتھ مزید حملوں سے نمٹنے کی تیاری اور جوابی حملوں کے لیے بھی سرگرم رہتی ہیں جیسا کہ برطانوی دفاعی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ روس کے ممکنہ حملے کی صورت میں وہ ماسکو کے پاور گرڈ پر سائبر حملے کے لیے تیار ہیں۔
زیادہ تر معاملات میں سائبر وار فیئر آپریشن پس پردہ انجام دیے جاتے ہیں، جن کا مقصد مخالفین میں خوف پیدا کرنا یا اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔
لیکن لگتا ہے کہ روایتی وار فیئر (فوجی کارروائی) اور سائبر وار فیئر کا ٹکراؤ اب تقریباً ناگزیر ہو چکا ہے۔ اسرائیلی فورسز نے حال ہی میں ایک عمارت کو بم سے اڑا دیا جو مبینہ طور پر حماس کے ہیکرز کا ٹھکانہ تھا۔ فوج کا دعوی تھا کہ یہاں سے اسرائیلی اہداف پر آن لائن حملے کی کوشش کی گئی۔ یہ پہلی بار تھا جب ایک ریاست نے سائبر حملے کا جواب فوجی قوت کے ساتھ دیا۔
تاہم، سوال یہ ہے کہ اس کا الزام کس کو دیا جائے اور کسی بھی سائبرحملے کے خلاف دفاع کرتے ہوئے کس طرح کا جواب دیا جانا چاہیے؟
مسلح جھڑپوں کے لیے بنائے گئے قوانین سائبرحملوں پر لاگو کرنا ایک چیلنج ہے۔ سائبر حملے کے ماخذ کا تعین ممکن نہیں ہوتا اور اصل حملہ آور کی تلاش میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔
یہاں تک کہ جب اصل حملہ آور کا پتہ بھی چل جائے تب بھی یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ کوئی ریاست اس کی ذمہ دار تھی یا یہ محض کسی انفرادی شخص کی کارروائی تھی۔
نیٹو ماہرین اس سوال پر غور کر رہے ہیں کہ کوئی ریاست اُس سائبر حملے کی ذمہ دار ہو سکتی ہے یا نہیں جو اس کے نیٹ ورک استعمال کرتے ہوئے کیا گیا ہو اور وہ اس سے قطعی بے خبر بھی ہو۔
غیر ارادی طور پر سائبر حملے کی ’میزبان‘ ریاست کی جانب سے حملے کی روک تھام کے لیے مناسب اقدامات کرنے میں ناکامی کا مطلب یہ ہے کہ حملے کی شکار ریاست اپنے دفاع میں طاقت کا استعمال کرتے ہوئے حملے کا جواب دینے کی حقدار ہے لیکن حملے کا الزام کس کو دیا جائے؟ اس بارے میں غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس سے جوابی حملے کا جواز ختم ہو جاتا ہے۔
یہاں تک کہ اگر ذرائع کی معلومات کا مسئلہ حل ہو بھی جائے تب بھی ایک سائبرحملے کا جواب فوجی طاقت سے دینا ممنوع قرار دیا جائے گا۔
اقوام متحدہ کے چارٹر کا آرٹیکل 2 (4) کسی حملے کی صورت میں ریاستوں کو اپنی علاقائی سالمیت اور سیاسی ڈھانچے کی حفاظت کا حق دیتا ہے لیکن یہ صرف مسلح حملے کی صورت میں ممکن ہے۔
انصاف کی بین الاقوامی عدالت کے مطابق مسلح حملے کی صورت میں جوابی حملے کی شدت کے درمیان فرق کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
لہذا سائبرحملے کے جواب میں دفاع کے طور پر طاقت کا استعمال اسی صورت جائز قرار دیا جائے گا اگر اسے ’مسلح حملہ’ سمجھا جائے۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے؟
ایسا اس صورت میں ممکن ہے جب کسی حملے سے اموات اور بنیادی ڈھانچے کو وسیع پیمانے پر نقصان پہنچا ہو، اگر ایسا ہوتا ہے تو اپنے دفاع کے حق کو جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔
تاہم جب سائبر حملہ کسی ملک کی دفاعی صلاحیت کو کامیابی سے نشانہ بنا لے تو پھر کیا کیا جائے؟ ایسی صورتحال میں جوابی کارروائی کا فیصلہ کرنا مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے جب ہم صرف نقصان کا محض تخمینہ ہی لگا سکتے ہیں۔
اس صورت حال میں فوجی قوت کا استعمال غیر ضروری اور غیر قانونی بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر ممکنہ طور کوئی بڑا حملہ ہونے جا رہا ہو تو اسے روکنے کے لیے کارروائی کی رعایت دی جا سکتی ہے۔
جب اپنے دفاع کے لیے کارروائی ضروری سمجھی جائے تو حفظ ماتقدم طاقت استعمال کرنےکی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے۔
تاہم سائبر حملے کا روایتی فوجی کارروائی سے جواب دینے کے حق کو بین الاقوامی قانون کے تحت قبول کیا جا سکتا ہے۔
یہ مسائل سائبروار فیئر کے حوالے سے صرف چیلنجوں کا آغاز ہیں جو ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ مزید پیچیدہ ہوتے جائیں گے، جس کے لیے ہم سوائے خوف زدہ ہونے کے ابھی کچھ نہیں کر سکتے۔
معاشرے سائبروار فیئر کے ممکنہ تباہ کن نتائج کا سامنا کر رہے ہیں کیونکہ روزمرہ کی زندگی کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مواصلات کے نیٹ ورک پر ہمارا انحصار کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے اور ایسے میں ہم صرف اس بارے میں سوالات کر رہے ہیں۔