یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں:
’پاکستان جب میچ کھیلتا ہے تو کھیل کا مزا آتا ہے۔ بھارت کی مضبوط ٹیم سے جیتنے کا مزا ہی کچھ اور ہے، ہمیں مار پڑے یا جیل میں بند کریں، ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ روز روز کی اذیت اور ذلت سہنے سے اب ہم میں مرنے کا خوف نہیں ہے۔‘
یہ خیالات ہیں سری نگر کی میڈیکل کی طالبہ فریدہ (سکیورٹی کی وجہ سے نام تبدیل کیا گیا ہے) کے، جن کا نام ان درجنوں طلبہ میں شامل ہے جنہیں پاکستان ٹیم کی کرکٹ جیت پر جشن مناتے دیکھا گیا اور اس کی ویڈیو وائرل کر دی گئی تھی۔
پاکستانی ٹیم کی جیت کے بعد سری نگر میں قائم دو میڈیکل ادارے خبروں کی سرخیوں میں ہیں، جہاں کرکٹ کے بیشتر دیوانے ٹی 20 دیکھ کر جذباتی ہو کر جشن منانے لگے تھے۔
وادی سمیت برصغیر کی ڈیڑھ ارب سے زائد آبادی بھارت پاکستان میچ دیکھنے کے لیے ٹی وی سکرینوں کے سامنے بیٹھی تھی۔ کافی عرصے کے بعد دو پڑوسی ملکوں کے بیچ ہونے والے کرکٹ میچ کا مزا ہر کوئی لینا چاہتا تھا، گو کہ جنون ایسا پیدا کیا گیا تھا کہ یہ کھیل نہیں دونوں ملکوں کے درمیان جنگ ہونے والی ہے۔
جموں و کشمیر کی ایک کروڑ آبادی نے بھی اگر دس لاکھ افواج کے محاصرے میں رہ کر اس میچ کو دیکھنے کی ذرا سی جرات کی اور خوف کے اس ماحول میں میچ جیتنے کی خوشی میں چند پٹاخے بھی چھوڑے تو اس پر اتنا ہنگامہ کھڑا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ لوگوں کو سوشل میڈیا پر پوسٹ بھی ڈیلیٹ کرنا پڑے۔ اس پر ایک تجزیہ کرنا لازمی بنتا ہے کہ یہ جشن اتنی سکیورٹی کے پہروں میں ہوا اور پھر اس وقت جب مرکزی وزیر داخلہ کشمیری پھرن پہن کر لوگوں کے دل جیتنے کی کوشش کر رہے تھے۔
سوال یہ بھی کرنا ضروری ہے کہ بھارتی ٹیم کی شکست پر کشمیر میں ماتم کیوں نہیں ہوتا؟
ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے سے کروڑوں عوام کی زندگی بہتر بنائی جاسکتی ہے اور وہ تمام اخراجات ملک کی بہبود پر خرچ ہوسکتے ہیں، جو حکومت افواج کی بستیوں میں تعیناتی پر ضائع کرتی رہی ہے۔
بھارت کی ایک ارب آبادی کو ناراض ہونے کی بجائے اپنی حکومت کی پالیسیوں پر غور کرنا ہوگا۔ اسے پوچھنے کی جرات کرنی ہوگی کہ ’نیا کشمیر‘ کا خواب دکھانے والوں نے ایک بستی کو جیل میں تبدیل کرکے ابھی تک کتنوں کے دل جیتے یا پھر ان سے بھی ہاتھ دھویا جو کشمیریوں کو جمہوریت کے جال میں پھنسا کر بھارتی پرچم لہرایا کرتے تھے؟
ہر کشمیری شدید سردی میں پھرن پہنتا ہے۔ بھارت کے وزیر داخلہ نے کشمیر کے دورے کے دوران سردی سے بچنے کے لیے پھرن پہنا لیکن کیا پھرن پہننے سے عوام کا دل جیتا جا سکتا ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو آزاد بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے پھرن پہن کر کانگڑی بھی پھرن کے نیچے تاپی تھی اور شیخ عبداللہ کو دوستی کے شیشے میں بھی اتارا تھا، مگر اثر اتنا الٹا ہوا کہ آج تک اس خطے میں امن کا ایک دن بھی نصیب نہیں ہوا ہے۔
شیر کشمیر میڈیکل انسٹی ٹیوٹ میں زیر تعلیم مبشر حسین (نام بدل دیا گیا ہے) کہتے ہیں کہ ’بھارت کو علم ہے کہ کشمیر کے ڈی این اے کو تبدیل کرنا مشکل ہے جس میں آزادی کا جین بطن میں ہی شامل ہوتا ہے۔ پاکستان کی جیت پر جشن منانا اس اذیت کا ردعمل بھی ہے جو جذبہ آزادی کو دبانے کے لیے دی جاتی رہی ہے۔ بھارتی حکمران ہمیں اجتماعی سزا دے رہے ہیں۔ جو کشمیری پاکستان سے مکمل آزادی کے خواہش مند تھے وہ بھی اب پاکستان کے ساتھ الحاق کے حامی بن رہے ہیں۔‘
پاکستان کی جیت پر اظہار خوشی کے جرم میں کشمیریوں کو وادی سے باہر بھی اذیت سے گزرنا پڑا۔
پنجاب کے کئی تعلیمی اداروں میں کشمیری طلبہ کی شدید مار پیٹ کی گئی جب وہ میچ کے دوران تالیاں بجا رہے تھے۔ ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا کہ بہار اور اتر پردیش کے بعض عناصر نے کالج میں آ کر طلبہ کی مار پیٹ کی۔ سکھوں کی تنظیم خالصہ دل کا شکریہ کہ اس نے بروقت موقعے پر آ کر ان نوجوانوں کو مزید پٹائی سے بچایا۔
میڈیا کے کچھ چینلوں نے تو حد ہی کر دی جب کشمیریوں کے جوش کو دکھانے کے لیے وہ ویڈیوز سکرین پر چلائے جو چند برس پرانے اور اس وقت کے تھے جب پاکستان نے چیمپیئنز ٹرافی جیتی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کشمیر میں ویسے بھی بجلی کئی گھنٹے بند رہتی ہے۔ سکیورٹی کے گشت ساتوں پہر رہتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر آبادی سرشام دروازوں کو بند کر کے گھروں میں قید ہو جاتی ہیں۔ کرکٹ کا جنون چونکہ سب کو ہے لہذا بیشتر نے عارضی طور پر جنریٹر حاصل کر کے میچ کو دیکھنے کی کو شش کی۔ وہ ہر چوکے اور چھکے پر سیٹی نکالتے نکالتے رہ گئے حالانکہ وراٹ کوہلی کے آؤٹ ہونے پر بھی دھیمے لہجے میں دکھ کا اظہار کر رہے تھے۔ چند نوجوانوں نے جذبات میں بہہ کر چند ساعتوں کے لیے رقص کیا تو کیا یہ جرم ہے کہ ان کے خلاف ایف آئی آر درج کر دی گئی ہے اور انہیں غدار جیسے الفاظ سے نوازا جا رہا ہے۔
کیا بھارتی جمہوریت اتنی سکڑ گئی ہے؟
حکمراں جماعت بی جے پی کے ایک رہنما نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہر اس شخص کو جیل جانا ہوگا جس کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھی گئی۔ بقول ایک روزنامے کے ایڈیٹر، ’ایک کروڑ آبادی کے چہرے پر دو سال بعد پہلی بار مسکراہٹ دیکھی گئی جو پہلے ہی ایک بڑی جیل میں قید ہیں۔ اب یہ کون سی جیل ہے جس میں بھیجنے کی دھمکی دی جا رہی ہے۔‘
اگر کھیل دیکھنے اور اس پر ردعمل ظاہر کرنے سے ہندوتوا کو اتنی تکلیف ہوئی ہے تو وہ ایسا کریں کہ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے تک کرکٹ پر پابندی عائد کریں۔
کشمیر مسئلہ حل کرنے کے لیے دو ہی راستے ہیں مفاہمت سے یا جنگ سے۔
اب یہ دونوں ملکوں پر منحصر ہے کہ وہ کون سا راستہ اختیار کرتے ہیں مگر اس وقت تک کم از کم کشمیریوں کو اذیت دینا بند کریں، چند لمحے تفریح حاصل کرنے سے حب الوطنی کم نہیں ہوتی اگر واقعی دل کے نہاں خانوں میں ایسا جذبہ موجود ہو۔
یہ بھی ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ حب الوطنی کا جذبہ بندوق سر پر رکھ کر پیدا نہیں کیا جاتا۔