افغان وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی کی سربراہی میں اعلیٰ سطح کا ایک وزارتی وفد بدھ (10 نومبر) کو پاکستان کا دورہ کر رہا ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق یہ دورہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے 21 اکتوبر 2021 کو کابل کے دورے کے بعد کیا جا رہا ہے۔
افغان وزارت خارجہ کے ترجمان عبد القہار بلخی نے گذشتہ روز ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں بتایا تھا کہ اس تین روزہ دورے کے دوران وفد تعلقات کو بڑھانے، معیشت، ٹرانزٹ ٹریڈ کی سہولت، پناہ گزینوں، سرحد پار نقل و حرکت کے لیے سہولیات کو بڑھانے پر تبادلہ خیال کرے گا۔
A senior delegation led by FM Mawlawi Amir Khan Muttaqi will travel to Pakistan on Nov 10.
— Abdul Qahar Balkhi (@QaharBalkhi) November 9, 2021
Delegation will discuss enhancing ties, economy, transit, refugees & expanding facilities for movement of people, & will include Ministers & working groups from Finance & Trade Ministries. pic.twitter.com/FzF3eKWp9Q
اخباری اطلاعات کے مطابق یہ وفد 11 اور 12 نومبر کو اسلام آباد میں ہونے والے دو روزہ ٹرائیکا پلس اجلاس میں بھی شریک ہوگا، جس میں پاکستان، روس، امریکہ اور چین کے وفود بھی شریک ہوں گے۔
موجودہ صورت حال کے پیش نظر پاکستان عالمی برادری پر زور دیتا رہا ہے کہ وہ افغان عوام کے مصائب کو کم کرنے کے لیے فوری طور پر انسانی امداد اور معاشی مدد فراہم کرے۔
15 اگست 2021 کو سابق صدر اشرف غنی کی حکومت کا تختہ الٹ کر جب سے افغان طالبان نے ملک کا کنٹرول سنبھالا ہے، افغانستان کی سماجی اور معاشی صورت حال تشویش ناک ہے۔ ملک کے بیرون ملک اثاثے بھی منجمد ہیں جب کہ عالمی امداد اور مالی معاونت بند ہونے کی وجہ سے خشک سالی، خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور ملازمتیں ختم ہونے کے اثرات مزید گھمبیر ہوگئے ہیں۔
طالبان حکومت نے، جسے عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا جاسکا، جہاں بھوک اور افلاس سے نمٹنے کے لیے بے رورگار افراد کے لیے ’کام کے بدلے گندم‘ کا پروگرام متعارف کروایا ہے، وہیں عالمی برادری پر بھی زور دے رہے ہیں کہ افغانستان کے اثاثوں کو غیر منجمد کیا جائے تاکہ عوام کی امداد ہو سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگرچہ امریکہ افغانستان پر عائد پابندیوں میں بعض پر استثنیٰ دے چکا ہے تاکہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی جاری رہ سکے، لیکن مکمل امداد کی بحالی ممکن نہیں ہوسکی ہے۔
عالمی فلاحی اداروں نے بھی افغانستان میں غذائی قلت سمیت شدید انسانی بحران کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
اسلام آباد میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے ترجمان بابر بلوچ روئٹرز کو ایک حالیہ انٹرویو میں بتا چکے ہیں کہ اگر سردیوں سے پہلے بے آسرا اور مجبور افغانوں کی مدد نہ کی گئی تو نتائج بہت بھیانک اور پریشان کن ہوں گے۔
بابر بلوچ نے کہا: ’افغانستان کی موجودہ آبادی چار کروڑ ہے اور ان میں سے آدھے یعنی تقریباً دو کروڑ افراد کا گزر بسر 15 اگست کے واقعات سے پہلے بھی امداد پر تھا۔‘
بقول بابر بلوچ: ’صرف 2021 میں تنازعے کی وجہ سے بے گھر افراد کی تعداد سات لاکھ ہے۔ مجموعی طور پر بے گھر افراد کی تعداد 35 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ ہمارے پاس سردیوں سے پہلے بے آسرا اور مجبور افغانوں کی امداد کے لیے بہت کم وقت ہے۔ ہمیں ڈر ہے کہ اگر ان کی جلد از جلد مدد نہ کی گئی تو نتائج بہت بھیانک اور پریشان کن ہوں گے۔‘