عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے (یونیسف) نے پیر کو افغانستان میں پولیو ویکسینیشن مہم شروع کر دی ہے۔
یہ افغانستان میں تین سالوں کے دوران بچوں میں پولیو کے مرض سے بچاؤ کے لیے ملک گیر سطح پر چلائی جانے والی پہلی مہم ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق افغان وزارت صحت میں پولیو پروگرام کے لیے نیشنل ایمرجنسی آپریشنز کے رابطہ افسر نیک ولی شاہ مومن نے بتایا ہے کہ پیر کو ملک کے مختلف حصوں میں پولیو مہم شروع کی گئی ہے لیکن تربیت یافتہ عملے کی کمی سمیت مہم کو بہت سی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق 30 لاکھ افغان بچوں کو پولیو سے بچاؤ کی ویکسین لگائی جائے گی۔
طالبان نے اس مہم کی حمایت کی ہے۔ پولیو ٹیمز ملک کے ان علاقوں میں جائیں گی جہاں اس سے پہلے رسائی ممکن نہیں تھی۔
مشرقی بحیرہ روم کے لیے عالمی ادارہ صحت کے ریجنل ڈائریکٹر احمد المنظری نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’طالبان کی قیادت جس عجلت کے ساتھ پولیو مہم کو آگے بڑھانا چاہتی ہے اس سے اس کے صحت کے نظام کو برقرار رکھنے اور قابل انسداد بیماریوں کے مزید پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ضروری حفاظتی ٹیکے لگانے کی مہم دوبارہ شروع کرنے کے مشترکہ عزم کا اظہار ہوتا ہے۔‘
تاہم دوسری جانب مومن کا کہنا تھا کہ دور دراز کے علاقوں میں کام کرنے والی ٹیمز کی مزید تربیت کی ضرورت ہے اس لیے ابتدائی طور پر پولیو مہم کا آغاز دارالحکومت کابل جیسے مقامات سے ہو گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
واضح رہے کہ افغانستان اور پاکستان دنیا میں وہ آخری ممالک ہیں جہاں پولیو کا مرض مقامی سطح پر موجود ہے۔
یہ لاعلاج اور انتہائی متعدی مرض گندے پانی کی نکاسی کے نظام کے ذریعے پھیلتا ہے جس سے بچے معذوری کا شکار ہو سکتے ہیں۔
10 سال تک جاری رہنے والی حفاظتی ٹیکوں کی مہم کی بدولت پولیو عالمی سطح پر عملاً ختم ہو چکا ہے لیکن افغانستان اور پاکستان کے بعض علاقوں میں عدم تحفظ، بعض علاقوں میں رسائی نہ ہونے، بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور بیرونی مداخلت کے شبے کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ویکسینیشن کی مہم میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے۔
اس سال مشرقی افغانستان میں مسلح افراد نے متعدد پولیو ورکرز کو ہلاک کر دیا تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ان حملوں میں کون ملوث ہے۔