’یہ ووٹ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں عمران خان کے لیے نہیں دے رہے بلکہ آپ جمہوریت کے لیے دے رہے ہیں یہ ایک جہاد ہے جس میں آپ بھی حصہ ڈالیں۔ یہ جمہوریت کے لیے جہاد ہے۔‘ یہ اعلان وزیر اعظم عمران خان نے اپنے نومبر 10 کے ایک ظہرانے میں تقریر کرتے ہوئے کیا تھا۔
اس ظہرانے کا مقصد حکومتی اور اتحادی جماعتوں کے ممبران کو حکومت کے الیکٹرانک ریفارمز بل کے حق میں ووٹ دینے کی تاکید کرنا تھی اور ساتھ ہی اس بات کی بھی تسلی کرنی تھی کہ تمام کے تمام 220 اراکین 24 گھنٹے کے بعد منعقد ہونے والے مشترکہ اجلاس میں شرکت کریں گے۔
حسب عادت وزیراعظم نے تمام ممبران کو اپوزیشن کے حوالے سے کہا کہ 'مقصد ان کا تبدیلی نہیں ہے۔ یہ ایک کرپٹ نظام کی پیداوار ہے اور یہ چینج نہیں آنے دیں گے۔ یہ چینج ہم نے لے کر آنا ہے۔‘
یہ سب ایک گھنٹے کے اندر اندر تبدیل ہوگیا۔
وزیر اطلاعات نے اپنی ٹویٹ کے ذریعے مشترکہ اجلاس کو موخر کرنے کا اور اپوزیشن سے اصلاحات پر بات چیت کرنے کا عندیہ دے دیا۔ اس اعلان سے کچھ ہی دیر پہلے وزیر اعظم نے اپوزیشن پر کڑی تنقید کی تھی کہ وہ ایک مافیا ہے جو تبدیلی نہیں آنے دے گی۔
حزب اختلاف کے بغیر بل کو منظور کرنے کا وزیر اعظم نے اعلان کر دیا تھا پر تبدیل کیا ہوا؟ وزیراعظم کی تقریر کے فورا بعد حکومت کے سیاسی مشیر اور وزیر دفاع پرویز خٹک نے ان کو اطلاع دی کہ نمبر پورے نہیں اور مشترکہ اجلاس میں حکومت کا بل ناکام ہوگا۔
مشترکہ اجلاس موخر کرنے کے علاوہ حکومت کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس بابت ان کی ٹیم کے اور کسی حد تک وزیراعظم کے بل پاس کرنے کے حوالے سے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔
پھر رخ مافیا کی طرف کیا گیا کچھ بہانہ بنایا گیا۔ مافیا کے حوالے سے وزیر اطلاعات نے ٹویٹ میں یہ لکھا کہ یہ بہت اہم بل ہے یعنی الیکٹرانک ووٹ کا تو بہتر یہ ہے کہ سب کو ساتھ لے کے چلا جائے۔
یہی بات تو حکومت کے بہت سے ناقدین ہزاروں مرتبہ کہہ چکے ہیں لیکن اپنے ہی غرور میں حکومت نے ان ’چوروں اور ڈاکوؤں اور مافیا سے‘ معنی خیز مذاکرات نہ کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔
دوسری طرف اپوزیشن حکومت سے بات چیت شاذ و نادر ہی کرنا چاہتی ہے۔ وزیر اطلاعات نے ٹویٹ کا سہارا لے کر حکومت کی بہت بڑی سیاسی شرمندگی مٹانے کی کوشش کی البتہ یہ ہو نہ سکا کیوں کہ حکومت کے اتحادیوں نے کھل کر حکومت کے بل کی حمایت نہ کرنے کی بات کر ڈالی۔
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور مسلم لیگ ق کے ممبران نے پوچھنے پر بتایا کہ حکومت نے انہیں ای وی مشین پر بریفنگ نہیں دی اور ہمارے اس پر تحفظات ہیں۔ ایسے میں حکومت کی ہار یقینی تھی۔
جہاں حکومت کو مشترکہ اجلاس میں 221 اراکین کی حاضری مطلوب تھی وزیراعظم کے ظہرانہ میں 160 ہی موجود تھے۔ باقی کہاں گئے؟ متحدہ اور مسلم لیگ ق کے 12 اراکین صاف انکاری تھے اور پرویز خٹک اپنی صلح صفائی میں کامیاب نہ ہو سکے۔
پھر حکمراں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اندر کی دراڑیں.... وزیراعظم کو آئی بی کی رپورٹ موصول ہو چکی تھی جس میں پی ٹی آئی کے 12 ممبران کی ناراضی کی خبر موجود تھی۔ اس ناراضی میں پاکستان پیپلز پارٹی کا ہاتھ تھا۔
کوشش کے باوجود پرویز خٹک ان ناراض ممبران کو راضی نہ کر سکے۔
مشترکہ سیشن تو موخر ہونا ہی تھا اور بعد میں سب کی شکایات اور ہار جیت کے دعوے بھی ناگزیر۔
وزیر اطلاعات فواد چوہدری بول اٹھے کہ یہ اتحادی جماعت والے تو کابینہ میں موجود ہیں وہاں جب بھی الیکٹرانک ریفارمز اور خاص طور پر الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر بات ہوئی ان اتحادی وزرا میں سے کسی نے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم تقریبا ہر کابینہ کے اجلاس میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر بات کرتے تھے۔ مسلم لیگ ق کے کامل علی آغا کے مطابق فواد چوہدری غلط بیانی کر رہے ہیں کیوں کہ ان کی جماعت کے وزیر طارق بشیر چیمہ نے ای وی ایم پر اختلافی نوٹ لکھا ہے جو حکومت کو پبلک کرنا چاہیے۔
نومبر 10 کا مشترکہ اجلاس موخر ہونے کے بعد اسے دوبارہ بلانے کی تیاریاں ہیں۔ فل الوقت نمبر پورے کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ متحدہ اور مسلم لیگ ق کی حکومت سے شکایات اب چہ میگوئیوں کی بجائے کھلے عام سنائی دے رہی ہیں۔ دونوں پھر سے حکومت کے اتحادیوں کی طرف لاپرواہی اور بے پروائی پر تنقید کر رہے ہیں۔
پی ایم ایل کیو حکومت کے رویے پر سخت نالاں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت اتحادی جماعتوں کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہے اور اس حکومتی رویے سے اسے آئندہ بلدیاتی الیکشن میں بہت نقصان اٹھانا پڑے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایم کیو ایم بہرحال حکومت سے مطالبہ کر بیٹھی ہے کہ اگر تحریک لبیک (ٹی ایل پی) اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جیسی شدت پسند تنظیموں سے بات ہو سکتی ہے اور ان کے دفاتر کھولے جا سکتے ہیں اور مبینہ دہشت گرد پکڑے جا سکتے ہیں تو پھر ایم کیو ایم کے ساتھ یہی رویہ کیوں نہیں اپنایا جا سکتا۔
ایم کیو ایم قیادت حکومت کی حمایت ختم کرنے پر بھی کچھ کہہ ڈالتی ہے لیکن اس سے آگے نہیں۔
سوال یہ ہے کہ کس حد تک پاکستان کے سیاست دان اپنی سیاست اپنے بل بوتے پر اور اپنی طاقت پر کرتے ہیں اور کس حد تک یہ اسٹیبلشمنٹ یعنی غیرجمہوری طاقتوں کے اشاروں پر کرتے ہیں۔
پچھلے ہفتے میں حکومت کے اتحادیوں نے کئی معاملات پر حکومت کی اسی طرح تنقید کی کہ بظاہر تو یوں لگے جیسے حکومت کے بل پر ووٹ نہیں کریں گے لیکن پچھلے چند گھنٹوں میں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے علیحدگی اختیار کرنا اور ووٹ نہ دینا اب حکومت کے اتحادیوں کی آپشن نہیں رہی۔
پاکستان کے کرتا دھرتا طاقتور حلقوں سے براہ راست پیغام موصول ہوا ہے کہ ووٹ دینا اب بنتا ہے۔ سرپرائز اور یوٹرن کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔
لیکن اپوزیشن بھی کچھ نئے معاملات میں الجھی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ شاید آپس کے نئے اتحاد اور جڑواں شہروں کے کچھ بدلتے ہوئے حالات، تعلقات اور تعیناتیاں سیاست میں کوئی نئے رجحان پیدا کر دے۔
پی ٹی آئی کے اندر کے کچھ بڑھتے ہوئے اندرونی اختلافات اس کے لیے سیاسی مشکلات کی شروعات ہو سکتی ہیں لیکن حالات جیسے بھی ہوں عمران خان اپنی سیاسی جنگ
و جدل سے پیچھے ہٹتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ ان کی اور ان کی پارٹی کی انجینئرنگ کرنا اسٹیبلشمنٹ کے لیے تقریبا ناممکن ہے۔
فل الحال انتظار فرمائیے، آگے دیکھتے ہیں تماشا....
نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔