کچھ روز قبل صوبہ پنجاب کے شہر نارووال میں ایک آدمی نے اپنی والدہ کی معاونت سے اپنی حاملہ بیوی کو اپنی تیسری بیٹی کی پیدائش سے دو دن قبل قتل کر دیا۔ ڈان اخبار کی خبر کے مطابق مقتولہ کے بھائی نے پولیس کو بتایا کہ ان کی بہن کو ان کی ساس اور شوہر بیٹیاں پیدا کرنے پر طعنے دیتے تھے اور تنگ کرتے تھے۔
انہوں نے پولیس کو بتایا کہ ان کے بہنوئی اس سے قبل بیٹی کا علم ہونے پر ان کی بہن کے دو حمل بھی ضائع کروا چکے ہیں۔
پولیس نے ملزمان کے خلاف کیس درج کر لیا ہے۔
خاتون یا ان کے جنازے پر روتی ہوئی ان کی بیٹیوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر نہیں آئی ہیں تو وہاں جسٹس فار۔۔۔ کا ٹرینڈ نہیں چل رہا۔
میڈیا نے بھی اسی حساب سے اسے کور کیا ہے۔ جس ادارے کے رپورٹر نے خبر فائل کر دی اس نے خبر چھاپ دی۔ جس نے نہیں کی اس نے نظر انداز کر دی۔
بالکل ویسے جیسے مقتولہ اور ان کے گھر والوں نے اس سے پہلے ہر بات اور ہر ظلم کو نظر انداز کیا ہوا تھا۔
اچھے دنوں اور ان کے بدلنے کی امید میں۔
شاید کہیں سے کوئی وظیفہ یا تعویذ بھی لا کر آزمایا ہو۔
شاید کبھی کسی کو ان سے بات کرنے کا بھی کہا ہو۔
ہو سکتا ہے انہیں ان کوششوں کے بدلے میں کبھی اچھے دن بھی دیکھنے کو ملے ہوں۔
وہ دن جب ان کے شوہر اور ساس کا رویہ ان کے اور ان کی بیٹیوں کے ساتھ اچھا ہوتا ہو لیکن ایسا کتنے دن رہتا ہو گا؟
اچھے دن گزرتے ہوں گے اور پھر برے دن آ جاتے ہوں گے۔
دنوں کی بری بات یہی ہے کہ وہ بدل جاتے ہیں لیکن انسان نہیں بدلتے۔
انسان چاہے اپنے اوپر جتنے پردے ڈال لے، ایک دن وہ خود اپنے اوپر پڑے پردوں کو اتار پھینکتا ہے اور اپنی اصل پر آ جاتا ہے۔
پھر ایک چکر شروع ہوتا ہے۔ ظلم کا چکر جس کی نہ کہیں شروعات ہوتی ہے اور نہ کہیں اختتام ہوتا ہے۔ وہ بس چلتا رہتا ہے۔
یہ چکر بہرحال ٹوٹتا ضرور ہے۔
افسوس کہ ہمارے معاشرے میں اسے اکثر ظالم ہی توڑتا ہے۔
مظلوم ظلم سہہ سہہ کر نہیں تھکتا۔ ظالم ظلم کر کر کے تھک جاتا ہے۔ پھر وہ اپنا آخری وار کرتا ہے اور چکر توڑ کر باہر نکل جاتا ہے۔
تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ جیسے اس کیس میں ہو چکی ہے۔
خاتون کا خاندان اب جو قدم اٹھا رہا ہے اگر انہوں نے وہی قدم تب اٹھایا ہوتا جب خاتون کو پہلی بار بیٹی کی پیدائش پر طعنہ سننے کو ملا تھا تو شاید وہ خاتون آج زندہ ہوتیں۔
لیکن وہ قدم کیسے اٹھاتے؟
ہم نے ان کے قدم اٹھانے کے لیے کوئی جگہ ہی نہیں چھوڑی۔
ہم نے عورت کی زندگی اس کی شادی کو ہی سمجھ رکھا ہے۔
شادی کرے، جلد کرے اور پھر اس شادی میں ہونے والے ہر ظلم کو سہتی سہتی مر جائے۔
ہم ایسی عورت کو مثالی عورت سمجھتے ہیں۔
آج کل ایسی ایک مثالی عورت کا کردار ماہرہ خان ’ہم کہاں کے سچے تھے‘ میں نبھا رہی ہیں۔ ڈرامے کے شروع میں ان کا کردار کافی مضبوط تھا لیکن شادی کے بعد بیچارہ سا ہو گیا ہے۔
شادی سے پہلے وہ ہر طعنے کا جواب تنک کر دیا کرتی تھیں۔ کزن ان کے سامنے سے گاڑی نکال کر لے جاتی ہے۔ یہ بس کی چھت پر بیٹھ کر کالج جاتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کزن تھپڑ مارنے کے لیے ہاتھ اٹھاتی ہے تو یہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے خبردار کرتی ہیں۔ شادی کے بعد شوہر ان پر فضول پابندیاں لگاتا ہے تو یہ چپ چاپ اس کے سامنے سر جھکا لیتی ہیں۔
وہ کہتا ہے تم گھر سے باہر نہیں جاؤ گی۔ کسی سے میل جول نہیں رکھو گی۔ فون نہیں اٹھاؤ گی۔ آگے نہیں پڑھو گی۔ نئی چیزیں نہیں خریدو گی۔ پیسے استعمال نہیں کرو گی۔
یہ ہر پابندی کو اپنی قسمت اور نصیب کا لکھا ہوا سمجھ کر قبول کر لیتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ آہستہ آہستہ نفسیاتی مریضہ بنتی جا رہی ہیں۔
مثالی عورت کے اس تصور سے ہمیں اتنی محبت ہے کہ ہم نے نہ معاشرتی طور پر عورتوں کے لیے کوئی سپورٹ سسٹم بنایا ہے نہ ہی حکومتی سطح پر ان کے لیے کچھ کیا ہے جس کا سہارا لے کر وہ ظلم کے ان چکروں کو توڑ سکیں۔
وہ اپنے اپنے چکروں میں ظلم سہنے پر مجبور ہیں۔
ہمیں ان کے لیے یہ چکر توڑنے ہیں۔
اس کے لیے ہم اپنی انفرادی سطح پر جو کچھ کر سکیں ہمیں کرنا چاہیے۔ اب چاہے وہ دوسروں کے معاملے میں اپنا منہ بند رکھنا ہو یا لوگوں کو ان کے منہ پر ان کے غلط ہونے کا احساس دلانا ہو یا معاشرتی سوچ میں تبدیلی کے لیے مارچ کرنا ہو یا حکومت کی توجہ خواتین کے خلاف ہونے والے مظالم کی طرف مرکوز کروانا ہو۔
ہم جب تک اپنی انفرادی حیثیت میں ان چکروں کو توڑنے کی بات نہیں کریں گے تب تک ہماری عورتیں ان چکروں میں پھنسی ظلم سہتی رہیں گی اور ہم ان کے لیے سوائے افسوس کرنے کے کچھ نہیں کر سکیں گے۔