بھارت میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پہلی مرتبہ مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اعداد و شمار سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کی دوسری سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں شرح پیدائش میں بھی کمی آئی ہے۔
بھارت میں والدین نے تاریخی طور پر بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح دی ہے، جنہیں شادی میں جہیز کی روایت کی وجہ سے اکثر بوجھ سمجھا جاتا ہے۔
بھارت میں انتخابی جنس کے لیے اسقاط حمل کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا ہے لیکن یہ عمل برقرار ہے۔
وزارت صحت کی طرف سے بدھ کو جاری تازہ ترین قومی خاندانی اور صحت سروے میں دو سال کی تحقیق کے بعد فی 1000 مردوں پر 1,020 خواتین ریکارڈ کی گئیں۔
1876 میں پہلی قومی مردم شماری ہوئی تھی جس کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب کسی بھی اہم سرکاری آبادی کے سروے میں بھارت میں مردوں سے زیادہ خواتین کو دکھایا گیا ہے۔
پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا (پی ایف آئی) کے ہیلتھ سائنس دان سنگھمترا سنگھ نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’کُل جنسی تناسب میں بہتری مثبت اور درست سمت میں ایک قدم ہے لیکن صنفی مساوات کے لیے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔‘
مردوں سے زیادہ خواتین ہونے کی وجہ خواتین کی طویل عمر ہے حالانکہ ملک میں لڑکیوں کے مقابلے میں اب بھی زیادہ لڑکے پیدا ہوتے ہیں یعنیٰ ہر 929 خواتین کے لیے 1,000 مرد۔
اعداد و شمار سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی شرح پیدائش فی عورت دو بچے رہ گئی ہے، جو کہ 2015-16 کے آخری سروے میں 2.2 سے کم ہے۔
ان اعداد و شمار کو ’ملک کے خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام کے لیے ایک اہم کارنامہ‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
دی ہندو پر پوسٹ ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کا پانچویں ایڈیشن ملک میں آبادیاتی تبدیلی کے آثار کی تصدیق کرتا ہے۔
NFHS-5 سے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں (UTs) میں مردوں سے زیادہ خواتین تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ جن ریاستوں میں مردوں کے مقابلے خواتین کی تعداد کم تھی ان میں گجرات، مہاراشٹر، اروناچل پردیش، ہریانہ، مدھیہ پردیش، پنجاب اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں جیسے جموں و کشمیر، چندی گڑھ، دہلی، انڈمان اور نکوبار جزائر، دادرا اور نگر حویلی اور لداخ شامل ہیں۔
تاہم ان تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں نے خواتین کی آبادی میں اضافے میں بہتری دکھائی ہے۔
بھارت تقریباً 1.3 ارب لوگوں کا گھر ہے اور اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق اس دہائی کے آخر میں ملک کی آبادی چین سے آگے نکل جائے گی۔
اقوام متحدہ کے آبادی کے ڈویژن کی پیش گوئی کے مطابق بھارت کی آبادی 2040-2050 کے دوران 1.6 سے 1.8 ارب کو چھو جائے گی۔