فروری 2019 میں پاکستان میں بالاکوٹ کے مقام پر ہونے والے مبینہ ’سرجیکل سٹرائیک‘ سے پاکستان اور بھارت کی دو ایٹمی قوتیں جنگ کے دہانے پر پہنچ گئی تھیں۔
اس حملے کے مرکزی کردار جنرل بپن راوت تھے جو اس وقت بھارتی فوج کے سربراہ تھے۔ اس سے قبل ستمبر 2016 میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہونے والے ایک اور مبینہ ’سرجیکل سٹرائیک‘ کے وقت وہ نائب آرمی چیف تھے۔ پاکستان نے ایسے کسی حملے کی تردید کی تھی۔
یہی نہیں بلکہ اس سے قبل وہ منی پور میں بھارتی فوج پر ہونے والے حملے کے بعد میانمار میں بھارتی فوج کے ’سرجیکل سٹرائیک‘ کے مرکزی کرداروں میں سے بھی ایک تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں ابھی تین ہفتے پہلے ہی بطور نائب آرمی چیف عہدہ سنبھالا تھا۔
اخبار ’اکنامک ٹائمز، انڈیا ٹائمز‘ نے اسی وقت بپن راوت کو ’ماسٹر آف سرجیکل سٹرائیک‘ کا خطاب دے دیا تھا۔
جنرل بپن راوت بھارت کے پہلے چیف آف ڈیفنس سٹاف تھے۔ اس سے پہلے وہ بھارتی چیف آف آرمی سٹاف تھے اور 2019 میں انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد اس عہدے پر فائز کرنے کا فیصلہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کیا تھا۔
پاکستان مخالف بیانیہ
ماضی میں بپن راوت پاکستان کے حوالے سے کئی مرتبہ خبروں میں رہے اور انہیں اس کے لیے پاکستان میں بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔
ستمبر 2020 میں انہوں نے بیان دیا تھا کہ بھارتی فوج کے پاس پاکستان اور چین کے ساتھ دو محاذوں پر لڑنے کی صلاحیت ہے اور اگر پاکستان نے بھارت میں کسی ’مس ایڈونچر‘ کی کوشش کی تو پاکستان کو ’بھاری نقصان‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس بیان پر پاکستانی دفتر خارجہ نے ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ جنرل بپن راوت ’پاکستان مخالف بیان بازی سے کیریئر بنانے کے بجائے اپنے پیشہ ورانہ امور پر توجہ دیں۔‘
بپن راوت ستمبر 2019 میں یہ بھی کہہ چکے ہی کہ بھارتی فوج پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں ایکشن کرنے کے لیے تیار ہے اور صرف حکومتی اجازت کا انتظار ہے۔
بپن راوت پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے ذریعے بلیک لسٹ کرنے کا مطالبہ بھی کر چکے ہیں۔
جنرل بپن راوت کی بھارتی فوج کی حالیہ تاریخ میں نہایت اہمیت رہی ہے۔ بالاکوٹ واقعے کے وقت وہ بھارت کے آرمی چیف تھے جب کہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں ترقی دے کر ایک نیا عہدہ قائم کیا گیا تھا۔ جنرل بپن راوت کو اسی حوالے سے تنقید کا بھی سامنا کرتے رہے ہیں۔ ان پر ’ہندوتوا‘ کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہونے کا الزام بھی لگتا رہا ہے۔
نومبر 2018 میں انہوں نے پاکستان کے حوالے سے کہا تھا کہ اگر پاکستان کو بھارت سے دوستی کے لیے پاکستان کو سیکیولر ریاست بننا پڑے گا۔ ان کا یہ بیان وزیراعظم عمران خان کے بھارت سے دوستی کے حوالے سے بیان پر آیا تھا۔
جنوری 2018 میں بپن راوت، جو کہ اس وقت آرمی چیف تھے، نے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے بیان دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا ’حکومت اگر حکم دے تو بھارتی فوج پاکستان کی جانب سے ایٹمی دھمکی (nuclear bluff) کی پروا کیے بغیر سرحد پار کر کے کسی بھی کارروائی کے لیے تیار ہے۔‘
جنرل بپن راوت حال ہی میں ایک اور تنازع کا شکار ہوئے تھے جب ان کی اپنے ہی ایئر چیف کے ساتھ اختلافات سامنے آئے تھے۔ جنرل بپن راوت نے کہا تھا کہ بھارتی فضائیہ بری افواج کو مدد فراہم کرتی ہے جب کہ اس کے جواب میں بھارتی ائیر چیف مارشل راکیش کمار نے کہا تھا کا فضائیہ کا کام صرف اعانت نہیں بلکہ فضائی طاقت جنگ کا ایک اہم حصہ ہے۔
جنرل بپن راوت نے ایک ماہ قبل پاکستان اور چین کا بھارت کے لیے تقابل کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت کا سب سے بڑا دشمن پاکستان نہیں بلکہ چین ہے۔
کئی نسلوں سے فوجی
اخبار ’انڈیا ٹوڈے‘ کے مطابق بپن راوت بھارتی ریاست اترکھنڈ کے ضلع پاوری میں 16 مارچ 1958 کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق ایک ایسے خاندان سے تھا جو کئی نسلوں سے فوج میں شمولیت اختیار کرتا رہا۔
بھارتی اخبار بزنس سٹینڈرڈ کے مطابق جنرل بپن راوت بھارتی فوج کے پہلے چیف آف ڈیفنس سٹاف تھے۔ وہ 17 دسمبر 2016 سے بھارتی فوج کے 27ویں چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیے گئے تھے۔ 30 دسمبر 2019 کو ان کی ریٹائرمنٹ کے فوری بعد انہیں 31 دسمبر 2019 سے بھارتی فوج کا سی ڈی ایس مقرر کر دیا گیا تھا۔
جنرل بپن راوت کے لیے یہ عہدہ تخلیق کرنے کے علاوہ بھارتی حکومت نے فوجی سربراہ کے لیے ریٹائرمنٹ کی حد عمر بھی 62 سال سے بڑھا کر 65 سال کر دی تھی۔
بھارتی حکومت نے سی ڈی ایس کے عہدے کو تخلیق کرنے کی وجہ عسکری امور پر حکومت کے لیے ’ون پوائنٹ ایڈوائزر‘ مقرر کرنا بتائی تھی۔ اس عہدے کا مقصد تینوں مسلح افواج سے متعلقہ امور کو ایک فرد واحد کے ذریعے نمٹانا تھا۔
بھارت کے مشکل علاقوں میں کمانڈ
بھارت کی نیشنل ڈیفنس اکیڈمی (این ڈی اے) اور انڈین ملٹری اکیڈمی ڈیرہ دون (آئی ایم اے) سے تربیت حاصل کرنے والے بپن راوت دسمبر 1978 میں بھارتی فوج میں شامل ہوئے تھے۔ انہیں ان کے والد کی طرح ہی 11 گورکھا رائفلز میں کمیشن دیا گیا تھا۔
گلف نیوز کے مطابق آئی ایم اے میں اپنی تربیت ختم کرنے پر جنرل بپن راوت کو (شمشیرِ اعزاز) ’سورڈ آف آنر‘ سے بھی نوازا گیا تھا۔ انہوں نے بھارت چین سرحد پر لائن آف ایکچوئل کنڑول کے ساتھ انفٹری بٹالین کی کمانڈر بھی کی تھی۔
بپن راوت نے جموں و کشمیر میں بھارتی فوج کی راشٹریہ رائفلز یونٹ کے سیکٹر کمانڈر کے طور پر عسکریت پسندی کے خلاف کارروائیوں کی کمانڈ بھی کی تھی۔ جب کہ وہ اڑی سیکٹر میں بھی میں انفنٹری ڈویژن کی کمانڈ کر چکے تھے۔
بزنس سٹینڈرڈ کے مطابق جنرل بپن راوت کو عسکریت پسندی کے خلاف ایک تجربہ کار آفسر مانا جاتا تھا اور انہوں نے بھارت کے مشکل ترین علاقوں میں کمانڈ کی تھی جن میں شمالی اور مشرقی سرحدی علاقے شامل ہیں۔
بھارتی فوج میں اپنی چار دہائیوں پر مبنی ملازمت میں بپن راوت نے بریگیڈئیر کمانڈر، جنرل آفیسر کمانڈنگ ان چیف سدرن کمانڈ، جنرل سٹاف آفیسر گریڈ ٹو اور کرنل ملٹری سیکرٹری اور ڈپٹی ملٹری سیکریٹری کے عہدوں پر فائز رہے۔ اس کے علاوہ جنرل بپن راوت ڈیموکریٹک رپبلک آف کانگو میں اقوام متحدہ کی امن قائم رکھنے کے لیے تعینات افواج کا حصہ بھی رہے۔
اپنی ملازمت کے دوران جنرل راوت کو پرم وشیشت سیوا میڈل، اتم یدھ سیوا میڈل، اتی وشیشت سیوا میڈل، وشیشت سیوا میڈل، یدھ سیوا میڈل اور سینا میڈل سے نوازا گیا۔