دنیا کی نمبر ون ٹیم کو غیر متوقع طور پر شکست دینے کے بعد پاکستانی ٹیم سکھ کا سانس لے سکتی ہے۔
ٹورنامنٹ کی فیورٹ ٹیم انگلینڈ کو ہرانا واقعی شاندار کارنامہ تھا۔ اب یہی قابلیت جمعہ کو برسٹل میں سری لنکا کے خلاف میچ میں بھی بروئے کار لانا چاہیے تاکہ پاکستان اپنی پوزیشن مزید مستحکم کر سکے۔
کرکٹ کے عالمی افق پر ایک بار پھر سے چھا جانے کے نئے جذبے سے سرشار ویسٹ انڈیز سے بری طرح پٹنے کے بعد گرین شرٹس کے لیے آسان نہ تھا کہ وہ دنیا کی سب سے بہترین ٹیم کو شکست دے دیں۔
تاہم پاکستان نے غیر معمولی جذبے کا مظاہرہ کیا اور مایوس شائقین کرکٹ کو ایک بار پھر سے نئی امید دلا دی۔
پاکستان کی شاندار فتح نے ہر خاص و عام کو حیران کر دیا اور اس کے ساتھ ہی کرکٹ کے حلقوں میں خطرے کی گھنٹیاں بج گئیں۔
کسے خبر کہ پاکستان، جس نے ایک بار فتح کا مزہ چکھ لیا ہے، اب سب سے طاقتور اور خطرناک ٹیم بن جائے۔
وہ 1992 ورلڈ کپ اور 2017 چیمپئنز ٹرافی میں اس سے کہیں بری حالت میں تھی لیکن دونوں مرتبہ پاکستان ٹورنامنٹ کی فاتح قرار پائی۔
اب انگلینڈ کے خلاف میچ کے بعد پاکستانی کیمپ زیادہ پر اعتماد ہے کہ ان کا اگلا مقابلہ 1996 کی عالمی چیمپئن سے ہے۔
سری لنکا کی موجودہ کمزور ٹیم اپنے شاندار ماضی کا عشر عشیر بھی نہیں رہی۔
سری لنکا اپنے عظیم کھلاڑیوں مثلا اروندا ڈی سلوا، رانا ٹنگے، کمار سنگا کارا، مہیلا جے وردھنے اور متہایا مرلی دھرن کی ریٹائرمنٹ کے بعد اب دوبارہ سے تنظیم کے عمل سے گزر رہی ہے۔
سری لنکا میں جیتنے کا تسلسل نہیں ہے، تاہم اس میں مالنگا جیسے خطرناک بولر اور سابق کپتان اینجلو میتھیوز جیسےعمدہ بلے باز شامل ہیں۔
ملنگا کی رفتار کچھ کم ضرور ہوئی ہے لیکن وہ اب بھی اپنی ٹیم کو میچ جتوانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جیسا کہ انہوں نے افغانستان کے ساتھ میچ میں ثابت کیا۔
ان کے کپتان دیموتھ کورانارتنے، کشال مینڈس اور لہیرو تھریمانے اچھے بلے باز جبکہ سرنگا لکمل اور نوان پرادیپ اچھے تیز بولر ہیں۔
سری لنکا کے پاس ہمیشہ سے اچھے سپنر رہے ہیں۔ دراصل سری لنکن ابھی تک سنگاکارا، جے وردھنے اور مرلی دھرن کی ریٹائرمنٹ کے بعد سنبھل نہیں پائے۔
ان کے کرکٹ بورڈ میں بھی سیاست چل رہی ہے جس سے ٹیم کی کارکردگی پر لازمی منفی اثر پڑ رہا ہے اس لیے کھلاڑیوں میں اتحاد نظر نہیں آ رہا۔
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اگر پاکستانی ٹیم اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر تو یہ سری لنکا کو ہرا سکتی ہے۔ جب پاکستانیوں کی توجہ مرکوز نہ رہے تو وہ آسانی سے ہار جاتے ہیں۔
پاکستان کو رن ریٹ بڑھانے کا بھی سوچنا ہوگا جو ویسٹ انڈیز کے خلاف 105 کے سکور پر آؤٹ ہو جانے کے باعث ابھی تک کافی خسارے میں ہے۔ رن ریٹ کے اعتبار سے پاکستان ابھی تک تقریباً سب سے نیچے ہے۔
انگلینڈ کے خلاف میچ میں پاکستانی کپتان ’ری ایکٹو ‘کے بجائے ’پروایکٹو‘ نظر آئے اور پاکستان کی جیت کی وجہ بھی یہی تھی۔
سرفراز کو اسی حکمت عملی پر کاربند رہنا چاہیے اور مجھے یقین ہے کہ جارحانہ طرزعمل سے وہ ہر مشکل پر قابو پا لیں گے۔
بولرز خصوصا شاداب خان، وہاب ریاض اور محمد عامر کو مخالف بلے بازوں کو آؤٹ کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔
سرفراز کواپنی حکمت عملی کے تحت فیلڈنگ سیٹ کرنی چاہیے نہ کہ روایتی انداز کی فیلڈ پلیسمنٹ پر بھروسہ کریں۔ جب سلپ، گلی اور 30 گز کے دائرے کے اندر زیادہ فیلڈر کھڑے ہوں گے تو بولرکو محسوس ہوتا ہے کہ کپتان ان پر بھروسہ کر رہا ہے اور وہ یقینا کپتان کو وکٹ دلواتا ہے۔
ایسی حکمت عملی میں سکور کی رفتار بڑھ سکتی ہے لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اس سے مخالف بلے باز کو آؤٹ کیا جا سکتا ہے جیسا کہ انگلینڈ کے خلاف میچ میں دیکھا گیا یعنی رسک با مقابلہ ریواڈ۔
مجھے خوشی ہوئی کہ سرفراز نے انگلینڈ کے خلاف میچ میں زیادہ تر پروایکٹو کردار ادا کیا اگرچہ اس دوران انہوں نے نئے بلے بازوں کو آسان سنگلز دیے جو نہیں ہونا چاہیے تھا، کیونکہ اس طرح بلے باز پر سے دباؤ ہٹ جاتا ہے۔
سری لنکا کے خلاف پاکستانی فیلڈنگ کوسخت کرنا پڑے گا تاکہ بلے بازوں کو رنز کے لیے کڑی محنت کرنی پڑے اور اس دوران وہ غلطی کریں۔
کسی بھی میچ میں کیچ اہم ہوتے ہیں۔ کوئی بھی بلے باز جب موقع دے تو اسے ضائع نہیں کیا جانا چاہیے۔
سری لنکا کے پاس چند بلے باز ہیں جو موقع ملنے پر بہت تیزی سے سکور بنا سکتے ہیں۔ اس لیے سرفراز کو ان پر نظر رکھنا ہو گی اور انہیں آؤٹ کرنے کی حکمت عملی بنانا ہو گی۔
کیچز کے ساتھ ساتھ گراؤنڈ فیلڈنگ بھی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اگر فیلڈرز نے اچھا کھیل پیش کیا اور بولروں کا بھرپور ساتھ دیا تو مجھے یقین ہے کہ پاکستان یقینی طور پر مطلوبہ نتائج حاصل کر لے گا۔
شاداب کے لیے میرا مشورہ ہے کہ وہ اگرچہ اچھا کھیل رہے ہیں لیکن اگر گیند کو75 سے 85 کلومیٹر کی رفتار سے پھینکیں اور شارٹ لگنے کے خوف سے آزاد ہو کر فلائٹڈ گیند کرائیں تو انہیں زیادہ کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔
بھارتی بولر وزویندر چہال ہوا میں سلوکینگ کرتے ہیں اور انہوں نے جنوبی افریقہ کی بدقسمت ٹیم کو پریشان کر کے رکھ دیا تھا۔
چہال نے بہت خوبصورتی سے بولنگ کرائی اور ہمیں یاد کرایا کہ سپن بولنگ کتنی اہمیت کی حامل ہے۔
شاداب بھی بہت باصلاحیت ہیں اور انہیں بھی ہوا میں آہستہ گیند کرانی چاہیے اور تیز گیند اچانک کرائی جائے تاکہ بلے باز کو حیران کیا جا سکے۔
اس سب کے باوجود شاداب نے انگینڈ کے خلاف اچھی بولنگ کی۔ اگر کپتان ایک سٹمپ مس نہ کرتے تو ان کی ایک اور وکٹ بھی ہوتی۔ اس لیے بہت زیادہ امکان ہے کہ شاداب سری لنکن ٹیم کو، جواس وقت فارم میں نہیں، مخمصے میں ڈال دیں گے۔
وہاب اور عامر کی تیز بولنگ اہمیت کی حامل ہو گی اور حسن علی کو اپنا حصہ ڈالنا ہوگا ورنہ اگلے میچ میں ان کی جگہ محمد حسنین یا شاہین آفریدی کو موقع ملنا چاہیے۔
پاکستانی ٹیم کی ہمیشہ سے بیٹنگ کمزور رہی ہے اور مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ہمیں کبھی ہماری بولنگ کی کمزوری کی وجہ سے شکست ہوئی ہو۔
بعض لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ میں نے ایسا کہہ کر بلے بازوں سے ناانصافی کی، لیکن جب میں 1954 کے فضل محمود سے لے کر 2019 کے وہاب، عامر اور ان کے ساتھی بولرز پر نظر ڈالتی ہوں تو ایک طویل فہرست ہے اور ان پر لکھنے کے لیے کئی صفحات درکار ہیں۔
پاکستان کے بولرز، بلے بازوں کے مقابلے میں زیادہ قابل بھروسہ رہے ہیں۔
سری لنکا کی ٹیم میں بھی اچھے تیز بولرز ہیں تاہم انہیں ان کی صلاحیت کے مطابق اہمیت نہیں دی جا رہی۔ لکمل، پرادیپ اور ملنگا خطرناک ہیں اور سپنرز برسٹل میں پاکستان کی بیٹنگ کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔
پاکستان کے لیے بہت ضروری ہے کہ چند وکٹیں جلدی گرنے کی صورت میں گھبرائیں نہیں کیونکہ پاکستان کی بیٹنگ اس وقت آٹھ اور نو نمبر تک جاتی ہے۔
بیٹنگ کرتے ہوئے پلان اے اور پلان بی ذہن میں ہونے چاہیے بے شک پہلے بیٹنگ کریں یا ہدف کا تعاقب۔
برسٹل کی پچ جہاں افغانستان۔ آسٹریلیا ٹاکرا ہوا، اس پر 300 رنز بننے کی توقع ہے، لیکن اس ورلڈ کپ میں ہمیں کئی بار حیرتوں کا سامنا کرنا پڑا۔
سبھی کا خیال تھا کہ ورلڈ کپ میں بولرز کو برا وقت دیکھنے کو ملے گا لیکن ان وکٹوں پر متوازن کھیل دیکھنے کو ملا اور بولرز نے اچھی بولنگ بھی کرائی۔
اس لیے پاکستان کو ریلیکس کرنا چاہیے کہ ان کے بولرز اچھی فارم میں ہیں اور انہیں جارحانہ طور سے استعمال کیا جانا چاہیے۔
اس کے ساتھ ساتھ بلے بازوں کو چاہیے کہ وہ دفاع کے لیے بولرز کو ایک اچھا سکور دیں-
تاہم امید رکھنی چاہیے کہ پاکستانی ٹیم ضرورت سے زیادہ اعتماد میں آ کر دھوکے میں نہ ماری جائے، اپنی پوری صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر کھیلے اور شائقین کو مایوس نہ کرے۔
مجھے توقع ہے کہ برسٹل کے میدان میں پاکستانی ٹیم کا سوئچ آن ہی رہے گا۔