دو دہائیوں کی قربانیوں، وسائل کے استعمال، پریشانی اور خون خرابے کے باوجود دہشت گردی سے متعلق چیلنجز بظاہر جوں کے توں موجود ہیں۔
ٹانک میں پچھلے ہفتے پولیو کی ٹیم پر حملہ اور اس کے نتیجے میں پولیس کی حفاظتی ٹیم کے ایک رکن کی ہلاکت کہنے کو تو ایک عام سا واقعہ لگتا ہے مگر اس طرح کے واقعات نے پچھلے چھ ماہ میں سینکڑوں سپوتوں کو ہمارے درمیان سے رخصت کر دیا ہے۔ بدقسمتی سے خبر درجنوں ہلاکتوں کے بغیر صفحہ اول پر آتی نہیں ہے لیکن اجتماعی طور پر دہشت گردی کے پھیلے ہوئے اس نیٹ ورک نے امن کے دنوں میں بھی ملک کو ناقابل تلافی جانی نقصان سے دوچار کیا ہے۔
ٹانک کے واقعے کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ اس کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اپنے سر لیا۔ بالکل اس بیان کی طرح جس میں ان کے ایک نمائندے نے خود کو اسلامک سٹیٹ نامی بین الاقوامی گروپ کی پاکستان میں ایک شاخ قرار دیا۔
حکومت کی طرف سے اس تنظم کے ساتھ خفیہ بات چیت کے نتیجے میں جس ایک ماہ کی جنگ بندی کا چرچا تھا اب وہ ختم ہو چکی ہے۔ کمال امر یہ ہے کہ اس خاتمے کا اعلان بھی اسی تنظیم کی جانب سے ایک پریس ریلیز کی صورت میں کیا گیا۔
اسی پریس ریلیز میں ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ حکومت اور اس گروپ کے درمیان طے شدہ معاملات کیا تھے۔ ملاقاتیں کہاں اور کتنی ہوئیں، کتنی کمیٹیاں بنیں، دونوں فریقین کی ذمہ داریاں اور وعدے کیا تھے، اس گروپ کے کتنے لوگوں کو رہا کیا جانا تھا، اگلے مراحل میں کیا ہونا تھا، افغانستان میں طالبان اس تمام معاملے میں کیا کردار ادا کر رہے تھے، وغیرہ وغیرہ۔
اصولاً یہ تمام معاملات حکومت کے نمائندگان کو قوم کے سامنے خود سے رکھنا چاہیے تھے۔ کہنے کو ہمارا نظام جمہوری ہے جس میں شفافیت کا عنصر غالب ہونا چاہیے اور دوسری طرف ایک کالعدم تنظیم ہے جس کو اسرار و رموز کی دنیا میں رہ کر چھپ چھپاتے کام کرنا چاہیے۔ یہاں پر گنتی الٹی ہے۔
جمہوری حکومت ہمیں کچھ بتاتی نہیں اور کالعدم تنظیمیں کچا چٹھا کھول کر سامنے رکھ دیتی ہیں۔ بہرحال اس جنگ بندی کے بعد خیال یہ کیا جا رہا تھا کہ ہم اس گروپ کے ساتھ معاملات کو خوش اسلوبی سے طے کر پائیں گے۔ مگر پچھلے سالوں کی دوسری امیدوں کی طرح یہ امید بھی دم توڑ گئی۔
اب یہ گروپ دوبارہ پاکستان کے خلاف اعلانیہ کارروائیاں کر رہا ہے۔ ہمیں بہرحال علم نہیں ہے کہ حکومت کی پالیسی اس سلسلے میں کیا ہے۔ قوم کو ابھی بھی جنگ بندی کے درمیان دیے گئے سرکاری بیانات کے خمار میں مبتلا رکھا ہوا ہے۔
تب قوم کو یہ بتایا گیا تھا کہ بات چیت کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ تحریک طالبان کے بھٹکے ہوئے لوگوں کو آئین کی تعلیم دے کر ملک کا وفادار بنانا ہی ہماری پالیسی کا مقصد ہے۔ اس وقت ہم نے طالبان کی تعریف میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
ہم نے ان کے تدبر، پاکستان دوستی کی قسمیں کھائی تھیں اور کہا تھا کہ کیسے انہوں نے مشکل حالات میں ہمارا ساتھ دیا اور تحریک طالبان کو پاکستان کے خلاف محاذ بنانے سے روک دیا۔ اب جنگ بندی ختم ہو گئی، یہ گروپ دوبارہ سے متحرک ہو گیا۔
طالبان کے نمائندگان نے اس معاملے کو پاکستان کا اندرونی مسئلہ قرار دیا اور اس طرح یہ کہہ کر ثالثی کی ذمہ داری کو دونوں فریقین کی جانب منتقل کر دیا۔ اس گروپ کی بظاہر وزیرستان سے ویڈیوز کا اجرا بھی پچھلے ہفتے ہوا، جن میں آپ کو تیس، چالیس کا گروپ بیٹھا اپنے مقامی لیڈران کی باتوں کو سننے میں منہمک نظر آتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سے آپ کو پتہ چلتا ہے کہ آمدورفت، وسائل، پلاننگ سب کچھ جاری و ساری ہے۔ پریشانی یہ ہے کہ ان علاقوں میں ایک نہیں درجنوں بڑے اور سینکڑوں چھوٹے آپریشنز اور کارروائیاں کرکے بیسیوں مرتبہ ہمیں کامیابی کی خبریں سنائی جا چکی ہیں۔ کامیابیوں کی اس داستان کے ہر حصے کا اختتام اس دعوے پر ہوتا ہے کہ ہم نے سرزمین پاکستان کو فتنے سے پاک کر دیا، اس کے بعد یہاں پر ریاست کی رٹ کا راج شروع ہو گیا ہے، ٹورازم کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا چاہا ہے اور امن اور آشتی اب یہاں کا مقدر بن گئی ہے۔
نجانے کیوں ان داستانوں کے ساتھ ساتھ فساد اور فتنہ تواتر سے کارروائیاں کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ وہ ریاست جو اس فتنے کی سرکوبی کو اپنا سر کا تاج بنا کر پیش کرتی ہے، خفیہ بات چیت کرکے وقتی معاہدے کرنے کو اپنی مجبوری کے طور پر بیان بھی کرتی ہے۔ یہ سلسلہ نجانے کب ختم ہو گا۔ نجانے یہ علاقے کب اس خلفشار سے نجات پائیں گے۔
افغانستان میں غنی حکومت کے گرنے سے پہلے ہمیں بتایا جاتا تھا کہ پاکستان کی سرحد کے اس طرف دشمن قوتیں بیٹھ کر فتنہ پروری کرتی ہیں، کابل اور دہلی کی خفیہ تنظیمیں مبینہ طور پر بیرونی قوتوں کے ساتھ مل کر ہمیں سکھ کا سانس نہیں لینے دیتیں۔ اب طالبان کے انتظام کو لاگو ہوئے مہینوں ہو گئے، اشرف غنی اور اس کے حواری بھاگ گئے، پاکستان طالبان اور دوست قوتوں کے ہاتھ میں آ گیا۔ سرحد کی دوسری طرف سے سازشوں کے اڈے نیست و نابود ہو گئے، مگر ہمارے ہاں کچھ زیادہ تبدیل نہیں ہوا۔
ہم ابھی بھی انہی مسائل سے دوچار ہیں جن کا سامنا ہمیں پہلے تھا۔ وہی فتنہ، وہی فساد، وہی علاقے، وہی کارروائیاں، وہی لوگ ویسے ہی کام کرتے ہوئے دیکھے جا رہے ہیں۔ کچھ بھی نہیں بدلا۔ دہشت گردی جاری ہے، حتمی امن کا دور دور تک نشان نظر نہیں آتا۔ کیا عجب معاجرہ ہے، کیا حیرت انگیز کامیابی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی آرا پر مبنی ہے۔ ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔