پاکستان میں مذہبی سیاست کا مستقبل کیا ہے اور اس کی افادیت کتنی ہے؟ یہ کسی با معنی تبدیلی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے یا اس کے نازِ عروساں کی حقیقت بس اتنی سی ہے کہ تزویراتی میدان سے لے کر داخلی معاملات تک جب اور جہاں ضرورت پڑے اس کا استعمال کرلیا جائے؟
سیاست اقتدار کے حصول کے لیے کی جاتی ہے۔ کوئی چاہے تو برائے وزنِ بیت اس میں محض اتنا اضافہ کر سکتا ہے کہ وہ ادنیٰ مفادات کی خاطر نہیں بلکہ اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے اقتدار تک پہنچنا چاہتا ہے، لیکن ادنیٰ مفاد ہوں یا اعلیٰ مقاصد، سیاست کا مطلوب و مقصود حصول اقتدار ہی ہے۔ مذہبی سیاست کا معاملہ مگر یہ ہے کہ ایک ہزار سال تک بھی اس کے اقتدار میں آنے کا کوئی امکان نہیں ہے اور اس کی وجہ ’یہود و ہنود‘ کی سازش نہیں بلکہ مذہبی سیاست کے داخلی تضادات ہیں۔
سیاست پورے سماج کو اپنا مخاطب بناتی ہے لیکن مذہبی سیاست کا مخاطب کبھی بھی معاشرہ نہیں رہا۔ یہ ایک محدود مذہبی فکر کو مخاطب بناتی ہے۔ چنانچہ اس کی مقبولیت اس دائرے سے باہر نکل ہی نہیں پاتی۔ جے یو آئی دیوبندی مکتب فکر تک محدود ہے۔ جمعیت علمائے پاکستان اور تحریک لبیک بریلوی فہم اسلام کی نمائندہ ہیں۔ جمعیت اہل حدیث، نام ہی سے واضح ہے کہ اہل حدیث مکتب فکر کی نمائندہ ہے۔
گویا ان جماعتوں کی بنیاد ہی اجتماعیت کی بجائے تقسیم پر کھڑی ہے۔ چنانچہ کوئی جماعت مقبولیت کا آخری درجہ بھی چھو لے تو تب بھی وہ اپنے ہی مسلک تک محدود رہے گی۔ ایک مسلک، پورے کا پورا بھی، اپنی نمائندہ سیاسی جماعت کے پیچھے کھڑا ہو جائے تب بھی یہ ممکن نہیں کہ وہ جماعت سادہ اکثریت سے بھی اقتدارحاصل کرسکے۔
جماعت اسلامی وہ واحد مذہبی سیاسی جماعت ہے جس پر کسی خاص فقہ کا رنگ غالب نہیں، لیکن محدود رکنیت کے اصول نے اسے بھی ایک خاص دائرے میں قید کر رکھا ہے۔ مزید یہ کہ اب گاہے بگاہے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ یہ خود ایک نیا مکتب فکر بن کر سکڑ چکی ہے، چنانچہ اس کے ترجمان اخبارات و جرائد میں ’تحریکی گھرانوں کے رشتوں‘ کے اشتہارات اسی خدشے کی دلیل ہیں۔
کوئی ایک مذہبی جماعت بھی اس قابل نہیں کہ کسی ایک صوبے میں بھی حکومت بنا سکے۔
جمعیت اہل حدیث کی کل جمع پونجی میاں نواز شریف کے سیاسی مال غنیمت میں سے سینیٹ کی مبلغ ایک نشست ہے۔ جماعت اسلامی اپنی طبعی عمر گزار چکی اور اب انتخابی سیاست تو کیا، احتجاجی سیاست میں بھی اس کی بساط سے باہر کی بات معلوم ہوتی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام سے اس کا انتخابی اتحاد نہ ہو پایا تو امکان ہے کہ یہ مکمل طور پر ’غیر پارلیمانی‘ جماعت بن کر رہ جائے گی، جس کی پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں کوئی نمائندگی نہیں ہوگی۔
واحد مذہبی سیاسی جماعت جو اس وقت قومی سیاسی بیانیے میں پوری قوت کے ساتھ موجود ہے، جمعیت علمائے اسلام ہے۔ اس کی وجہ مولانا فضل الرحمٰن کی سیاسی بصیرت ہے۔ قطع نظر اس بات کے کہ جمہوریت کے بارے میں ان کا عمومی فقہی فہم کیا کہتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ ان کا بیانیہ اس وقت آئین اور جمہوریت کی ترجمانی کر رہا ہے۔ چنانچہ وہ پی ڈی ایم کے سربراہ ہیں۔ مولانا دیو بند کی سیاسی فکر کے وارث ہیں۔ دیو بند اصلاً ایک سیاسی تحریک تھی۔ مولانا کا معاملہ بھی ہے کہ ان کی جماعت کی شناخت مذہبی اور مسلکی ہے لیکن ان کی سیاست مذہبی نہیں ہے۔ وہ ایک سیکولر سیاست دان ہیں ۔ البتہ چونکہ ان کا ووٹ بینک مذہبی ہے تو اس ووٹ بینک کو ساتھ جوڑے رکھنے کے لیے ایک ضرورت کی حد تک وہ بھی ایک مذہبی سیاسی رہنما ہیں۔
مولانا کا جمہوری موقف جتنا بھی توانا کیوں نہ ہو، امر واقع یہ ہے کہ قومی سیاسی رہنما نہیں ہیں۔ وہ ایک خاص مکتب فکر کے سیاسی رہنما ہیں۔ باوجود اس کے کہ آئین اور جمہوریت کے لیے ان سے توانا آواز اس وقت ملک میں کسی کی نہیں ہے، ان کی سیاسی حیثیت کمزور ہے کیونکہ جوہری طور پر ان کا مخاطب پورا سماج نہیں، ان کا اپنا مکتب فکر ہے۔ وہ مقبولیت کے کمال کو پہنچ جائیں تب بھی وہ عمران خان، نواز شریف یا آصف زرداری کی طرح قومی سطح کے رہنما نہیں بن سکتے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ ان کے سامنے ان کے مذہبی حلقے میں حافظ حسین احمد اور مولانا شیرانی سمیت کسی اور کا چراغ نہ جل پائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مذہبی سیاست وہ صفر ہے جو کسی کے ساتھ لگا دیا جائے تو ایک کو دس کردیتا ہے۔ چنانچہ وطن عزیز میں اس صفر کا یہی استعمال ہوتا آیا ہے۔ کبھی اس کا تزویراتی مقاصد کے لیے استعمال ہوا اور کبھی داخلی سیاست میں۔ بھٹو کے خلاف تحریک چلی تو اس کا عنوان مذہبی تھا۔ جب مارشل لا آگیا تو یہ تحریک یوں گھروں کو لوٹ گئی جیسے مطلوب و مقصود ہی حق نہیں بلکہ ضیا الحق ہو۔
ضیا الحق کا دور ختم ہوا تو بے نظیر کا راستہ روکنے کے لیے اسلامی جمہوری اتحاد بنا دیا گیا۔ مذہبی کارکن کا استحصال کیا گیا کہ شریعت آئے گی لیکن شریعت کی جگہ نواز شریف صاحب آگئے اور پاکستان اسلامک فرنٹ کے نام سے انتخابی معرکے میں جملہ قائدین کرام کی ضمانتیں ضبط ہوگئیں۔
چند سال قبل ایک نئی مذہبی سیاسی جماعت سامنے آئی۔ حسن اتفاق دیکھیے کہ تحریک لبیک 22 لاکھ ووٹ لے کر بھی اس کے سوا کچھ نہ کر سکی کہ ن لیگ کا ووٹ بینک متاثر ہوا۔ اگلے انتخابات میں اگر اس کا کسی کے ساتھ اتحاد ہو جاتا ہے تو وہی معاملہ ہوگا کہ صفر ایک کو دس بنا دے گا، لیکن جیسے ہی علحدگی ہوگی، سب کچھ فعل ماضی ہو جائے گا۔
ایک سیاسی جماعت کے طور بلاشبہ اسلامک فرنٹ، مجلس عمل اور تحریک لبیک کا یہ حق تھا کہ وہ الیکشن اپنے انداز سے اپنے پالیسی کے تحت لڑیں، تاہم سیاسی فیصلوں کے اثرات و نتائج پر تجزیے ہوتے رہنا بھی سیاسی عمل کا حصہ ہے اور یہ تجزیے بتا رہے ہیں کہ فی نفسہ مذہبی سیاست کا کوئی مستقبل نہیں۔ سوائے اس کے کہ وہ کسی ضرورت کے تحت بروئے کار آئیں۔ ’شریکاں دی کندھ ڈھادیں‘ یا کسی کو بڑھ کر تھام لیں۔
ایک صورت البتہ یہ ہو سکتی ہے کہ اسلامی جمہوری اتحاد یا متحدہ مجلس عمل کی طرح کا کوئی نیا تجربہ کیا جائے، لیکن ایسا کوئی تجربہ مولانا فضل الرحمٰن کے بغیر کیا گیا تو اس کے نتائج ادھورے رہیں گے اور مولانا فضل الرحمٰن کے کندھے پر ان کے اپنے بیانیے کا بوجھ اتنا زیادہ ہے کہ ان کے لیے اب ایسے کسی اتحاد کا حصہ بننا آسان نہیں ہوگا۔
تو پھر پاکستان میں مذہبی سیاست کا مستقبل کیا ہے؟ یہ کسی با معنی تبدیلی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے یا اس کے نازِ عروساں کی حقیقت بس اتنی سی ہے کہ تزویراتی میدان سے لے کر داخلی معاملات تک جب اور جہاں ضرورت پڑے اس کا استعمال کرلیا جائے؟