ہیٹی میں ایک ٹینکر میں ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تدفین جاری ہے۔ حکام کے مطابق اب تک حادثے میں 75 افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جن میں سے بیشتر کو اجتماعی قبر میں دفنا دیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کیریبین جزائر میں واقع ملک ہیٹی کے دوسرے سب سے بڑے شہر کیپ ہیٹیئن میں منگل (14 دسمبر) کی صبح ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں درجنوں افراد زخمی بھی ہیں۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب ایندھن سے بھرے ایک ٹینکر کو حادثہ پیش آیا اور لوگ اس میں سے پیٹرول جمع کرنے کے لیے جمع ہوئے۔ اس دوران ایک زوردار دھماکہ ہوا اور موقعے پر موجود بیشتر لوگ جھلس گئے۔
دھماکے سے آس پاس کے گھروں کو بھی شدید نقصان پہنچا۔
کیپ ہیٹین کے نائب میئر پیٹرک المونور نے اس خوفناک منظر کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے درجنوں لوگوں کو ’زندہ جلتے‘ دیکھا ہے اور یہ کہ ’ان کی شناخت کرنا ناممکن ہے۔‘
پیٹرک المونور نے بتایا کہ ٹینکر کے ڈرائیور نے موٹرسائیکل ٹیکسی سے ٹکرانے سے بچنے کے لیے ٹینکر کا رخ موڑ دیا، جس کی وجہ سے وہ کنٹرول کھو بیٹھا، اور پھر ٹینکر الٹ گیا۔
نیشنل نیٹ ورک فار ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی ایک کارکن میری روزی آگسٹ ڈوسینا نے اے ایف پی کو بتایا: ’ڈرائیور نے فوری طور پر لوگوں کو خطرے کے بارے میں بتایا لیکن انہوں نے اس کی بات نہیں سنی اور اس کے برعکس وہ ٹینکر میں سوراخ کرنے اور پیٹرول نکالنے کے لیے ہتھوڑے اور دوسرے اوزار تلاش کرنے لگے۔‘
انہوں نے کہا: ’لوگوں میں تعلیم کی شدید کمی ہے، جو سمجھتے ہیں کہ وہ کسی بھی طرح سے پیٹرولیم مصنوعات کو سنبھال سکتے ہیں۔‘
میری روزی آگسٹ ڈوسینا نے کہا: ’یہی چیز تھی جس نے لوگوں کو باہر جانے اور ٹینکر سے پیٹرول جمع کرنے پر اکسایا۔ انہوں نے سوچا کہ وہ ایندھن کو دوبارہ بیچ سکتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
غربت کے شکار ملک ہیٹی میں پیٹرول ایک نایاب چیز ہے جبکہ تیل کے ٹرمینلز تک رسائی کو روکنے والے پرتشدد گروہوں کی وجہ سے بھی ایندھن کی قلت بڑھ گئی ہے۔
عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟
نیلی جوزف بھی ان افراد میں شامل ہیں، جن کے گھر اس دھماکے میں تباہ ہوئے۔
انہوں نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کو بتایا کہ پیر کو رات گئے انہوں نے ایک زوردار آواز سنی اور وہ بستر سے اٹھ گئیں۔
انہوں نے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ایک ایندھن لے جانے والے ٹرک میں دھماکہ ہوگیا ہے، جس کے بعد انہوں نے اپنا شناختی کارڈ لیا اور باہر نکل گئیں، جہاں ان کے کچھ پڑوسی قیمتی پیٹرول جمع کر رہے تھے۔
جوزف کے مطابق اس دوران پہلا دھماکہ ہوا، جس پر ان کے 36 سالہ بیٹے جوسو جونیئر جولیمس نے اپنے دو بچوں کو محفوظ مقام پر پہنچا دیا اور پھر وہ گھر سے اپنا شناختی کارڈ لینے واپس آیا۔
لیکن اسی وقت ایک بہت زوردار دھماکہ ہوا اور ان کے تین کمروں پر مشتمل گھر تباہ ہوگیا۔ اس کی دیواریں سیاہ ہو گئیں اور چھت اڑ گئی۔
انہوں نے بتایا کہ ان کا بیٹا مکمل طور پر جھلس گیا، جس کی ہسپتال میں موت واقع ہوگئی جبکہ ان کی بہو اور 14 سالہ پوتی اس وقت ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔
جوزف نے آنسوؤں کے درمیان بتایا: ’وہ بہت اچھا تھا۔ میں جب بھی بیمار ہوتی تھی تو وہ میرا ہسپتال کا خرچہ اٹھاتا تھا لیکن اب جب میں مروں گی تو مجھے دفنانے والا بھی کوئی نہیں ہوگا۔‘
دوسری جانب وزیر اعظم ایریل ہنری نے سانحے کے مقام کا دورہ کیا اور کہا کہ مقامی ہسپتال میں درجنوں زخمیوں سے ملاقات کے بعد ان کا ’دل ٹوٹ گیا ہے۔‘
شہری تحفظ کے ڈائریکٹر جیری چینڈلر نے اے ایف پی کو بتایا کہ بدھ کی شام تک 59 جھلسے ہوئے افراد ہسپتال میں زیر علاج تھے، جن میں سے زیادہ تر کی حالت نازک ہے۔
انہوں نے کہا: ’ہم فی الحال اپنے مقامی صحت کے بنیادی ڈھانچے کو دوبارہ فعال کرنے کی کوششوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ایک مقامی جم میں ایک فیلڈ ہسپتال تقریباً تیار ہے۔
چینڈلر نے کہا کہ توقع ہے کہ یہ ہسپتال اگلے سات سے 10 دنوں تک کام کرے گا، جسے عالمی ادارہ صحت اور ملک کی وزارت صحت کے ذریعے تعینات عہدیداروں کی مدد حاصل ہے۔
پوپ فرانسس نے بھی حادثے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ہلاک اور زخمی ہونے والوں کے لیے خصوصی دعا کی۔
دائمی طور پر غیر مستحکم ملک ہیٹی جولائی میں اس وقت ایک نئے بحران میں ڈوب گیا تھا جب صدر جوونیل موئس کو ایک پراسرار سازش میں قتل کر دیا گیا تھا۔