گلگت بلتستان میں پی ٹی آئی حکومت کا پہلا سال کیسا رہا؟

گلگت بلتستان میں جہاں عوام اور سیاستی حلقوں نے مہنگائی کی شکایات کا انبار لگایا وہیں، حکومتی نمائندے، وزیر خزانہ جاوید علی منوا نے وعدہ کیا کہ حکومت جلد ہی عوام کو ریلیف فراہم کرے گی۔

علی آباد میں ایک ٹرک ڈرائیور اور دیگر دکانداروں نے مہنگائی اور اہم اشیائے خورد و نوش کی بڑھتی قیمتوں پر حکومت پر برہمی کا اظہار کیا(تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

گذشتہ سال 15 نومبر کو گلگت بلتستان کے 24 حقلوں میں ہونے والے الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے میدان مار لیا اور آزاد امیدواروں کی مدد سے اکثریتی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی تھی۔

وزیر اعظم عمران خان نے اپریل میں گلگت بلتستان کے لیے 370 ارب روپے کے مالیاتی پیکج کا اعلان کیا تھا جو پی ٹی آئی حکومت کے پہلے ہی سال میں اہم کامیابی تھی۔ البتہ ان منصوبوں میں سے کسی ایک پر بھی کام کا آغاز تاحال نہ ہوسکا سوائے گلگت شندور روڑ کے۔

ایک سال میں حکومت کی کارکردی کیسی رہی؟ عوام کو ثمرات ملنا شروع ہوئے اور ترقیاتی منصوبے شروع ہوئے؟ 

یہ جاننے کے لیے حکومتی نمائندے، عوام اور گلگت بلتستان کے سیاسی رہنماؤں سے بات چیت کی گئی۔

 

جہاں عوام اور سیاستی حلقوں نے مہنگائی کی شکایات کا انبار لگایا وہیں، حکومتی نمائندے، وزیر خزانہ جاوید علی منوا نے وعدہ کیا کہ حکومت جلد ہی عوام کو ریلیف فراہم کرے گی۔

علی آباد میں ایک ٹرک ڈرائیور اور دیگر دکانداروں نے مہنگائی اور اہم اشیائے خورد و نوش کی بڑھتی قیمتوں پر حکومت پر برہمی کا اظہار کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک شہری سے جب بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کا سب سے بڑا مسئلہ لوڈ شیڈنگ کے ساتھ ساتھ گندے پانی کا ہے جسے پینے سے شہریوں میں بیماریاں پھیل رہی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا: ’بڑھتی آبادی سے سیوریج کا مسئلہ بھی ہے جس پر کسی حکومت نے توجہ نہیں دی ہے اور اگر دی بھی ہے تو منصوبے پائے تکمیل تک نہیں پہنچے۔‘

سیاسی حلقون میں بھی ہلچل رہی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما اور گلگت بلتستان اسمبلی میں قائد حزب اختلاف امجد حسین ایڈووکیٹ نے موجودہ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا: ’یہاں تحریک انصاف اور ن لیگ کا الحاق ہے اور دونوں جماعتوں کی گٹھ جوڑ سے ہی فیصلے کیے جارہے ہیں۔‘

 اپوزیشن لیڈر نے کہا: ’ایک سال میں کسی ایک شعبے میں ترقی نہیں ہوئی۔ موجودہ حکومت کے آنے کے بعد جتنے کام ہوئے سب دھرنوں اور احتجاج کی بدولت ہوئے۔‘

ان کے بقول اپوزیشن کی جانب سے تیار کردہ قانونی مسودے سپیکر کے دفتر سے اسمبلی ہال تک بھی نہیں پہنچ پاتے۔

سابقہ حکومت میں اقتدار میں رہنے والی جماعت ن لیگ نے بھی چند روز قبل گلگت بلتستان حکومت کی ایک سالہ کارکردگی پر وائٹ پیپر شائع کیا جس میں حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا گیا۔

دوسری جانب وزیر خزانہ جاوید علی منوا کا کہنا تھا کہ تنقید تب حق بجانب ہوتی اگر گذشتہ حکومت اپنے پانچ سالہ دور میں 70 سے 500 میگاواٹ بجلی پیدا کر چکی ہوتی۔

انہوں نے اپوزیشن سے سوال کیا کہ بتایا جائے کون سے منصوبے موجودہ حکومت کی جانب سے روکے گئے ہیں۔

 ان کا مزید کہنا تھا کہ ماضی کے برعکس گلگت بلتستان میں پہلی مرتبہ غیر روایتی ترجیحات رکھی گئی ہیں۔ ان کے بقول تحریک انصاف حکومت کی اولین ترجیح یہ ہے کہ اس خطے کو اس کی تمام تر صلاحیت کے مطابق بہتری کی طرف گامزن کیا جائے۔

ان سے سوال کیا گیا کہ گذشتہ ایک سال میں قانون سازی کا عمل کیسا رہا تو وزیر خزانہ نے کہا کہ یہاں موافق قانون سازی کی ضرورت ہے جس میں دیر سویر ضرور ہو سکتی ہے۔

مہنگائی کے سوال پر جاوید علی منوا نے کہا کرونا کی وبا نے پوری دنیا کو متاثر کر رکھا ہے اور گلگت بلتستان بھی متاثر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو جلد ریلیف افراہم کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ آئندہ موسم گرما سے خطے کے لوگوں کو ثمرات ملنا شروع ہوجائیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان