گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات کے غیرحتمی و غیر سرکاری نتائج آنے کا سلسلہ جاری ہے جن کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کو برتری حاصل ہے۔
اب تک کے غیرحتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کو نو نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
صحافی قاسم شاہ کے مطابق اس کے علاوہ کل 23 نسشتوں میں سے سات آزاد امیدوار، تین پاکستان پیپلز پارٹی، دو مسلم لیگ ن، ایک مجلس وحدت مسلمین اور ایک پر جے یو آئی ف کے امیدوار نے کامیابی حاصل کی ہے۔
گلگت بلتستان کی دستور ساز اسمبلی کے 24 میں سے 23 حلقوں پر اتوار کو ووٹنگ ہوئی، جہاں کم و بیش دس سیاسی جماعتوں کے امیدواروں سمیت کُل 330 امیدواروں نے اپنی قسمت آزمائی۔
ایک سیٹ یعنی گلگت حلقہ تین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سید جعفر شاہ کے انتقال کی وجہ سے خالی ہوئی (جو کرونا وائرس کا شکار ہوگئے تھے)۔ اس ایک نشست پر انتخاب 22 نومبر کو ہوگا۔
پنجاب اور وفاق کی طرح سادہ اکثریت نہ ملنے کے باوجودتمھیں بیساکھیاں فراہم کر کےحکومت تو بنوا دی جائے گی لیکن اس آئینے میں اپنا چہرہ ضرور دیکھو جو گلگت بلتستان کے عوام نے تمہیں دکھایا ہے۔
— Maryam Nawaz Sharif (@MaryamNSharif) November 16, 2020
جیسے جیسے غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج آتے جا رہے ہیں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور قائدین کی جانب سے بیانات کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے بھی اس حوالے سے ایک ٹویٹ کے ذریعے کہا کہ ’پنجاب اور وفاق کی طرح سادہ اکثریت نہ ملنے کے باوجود تمہیں بیساکھیاں فراہم کر کے حکومت تو بنوا دی جائے گی لیکن اس آئینے میں اپنا چہرہ ضرور دیکھو جو گلگت بلتستان کے عوام نے تمہیں دکھایا ہے۔‘
اسی طرح لیگی رہنما شاہد خاقان عباسی نے پیر کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ انتخابات میں حکومتی مشینری کا استعمال کیا گیا اور دعویٰ کیا کہ انہیں ووٹ خریدے جانے کے حوالے سے مصدقہ رپورٹس بھی ملی ہیں۔
گلگت بلتستان الیکشن کے سلسلے میں اتوار کو پولنگ کا آغاز صبح آٹھ بجے ہوا اور بنا کسی وقفے کے شام پانچ بجے تک جاری رہی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پورے گلگت بلتستان میں 1234 پولنگ سٹیشنز بنائے گئے تھے، جہاں لوگوں نے اپنے اپنے امیدواروں کے حق میں ووٹ ڈالے۔
پولنگ سٹیشنز پر کرونا (کورونا) وائرس سے بچاؤ کے لیے ایس او پیز کا خاص خیال رکھا گیا تھا جبکہ کئی علاقوں میں برف باری اور شدید ٹھنڈ کے باوجود بھی اس بار ٹرن آؤٹ پچھلے انتخابات کی نسبت زیادہ نظر آیا۔
People following #COVID19 SOPs during #GilgitBaltistanElections2020 pic.twitter.com/Fy1hW92e7Z
— Alina Shigri (@alinashigri) November 15, 2020
مجموعی طور پر ووٹنگ کا عمل پر امن رہا اور کہیں سے بھی کسی قابل ذکر ناخوشگوار واقعے کی اطلاعات موصول نہیں ہوئیں، تاہم صحافی سکندر علی زرین کے مطابق بلتستان ڈویژن کے حلقوں روندو اور کھرمنگ سے چند پولنگ سٹیشنز پر ووٹرز کے ووٹ نزدیکی سٹیشن سے ہٹ کے دور پار سٹیشن میں رجسٹرڈ ہونے کی شکایتیں موصول ہوئیں۔
انتخابات کو پر امن بنانے کے لیے مختلف صوبوں سے چھ ہزار کے قریب پولیس اہلکاروں کو بھی الیکشن کے موقع پر تعینات کیا گیا تھا، جو برف باری اور شدید ٹھنڈ میں اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔
پولنگ سٹیشنز پر خواتین کی بھی بڑی تعداد اپنے ووٹ کے حق کے استعمال کے لیے موجود نظر آئی۔
Women at one of the polling stations in Hussainabad waiting for their turn to cast their votes in #GilgitBaltistanElections2020 pic.twitter.com/4LyUztefpN
— Alina Shigri (@alinashigri) November 15, 2020
گلگت بلتستان میں حکومت بنانے کے لیے کسی بھی جماعت کو 13 سیٹیں درکار ہوں گی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق تاریخی حوالوں سے گلگت بلتستان کے لوگ نظریاتی اور عمومی طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف جھکاؤ اور لگاؤ رکھتے ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) نے بھی یہاں کافی اچھا کام کیا اور کئی ترقیاتی منصوبے اس علاقے کو دیے ہیں، تاہم بہت بڑی تعداد میں لوگ وفاقی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور آزاد امیدواروں کے بھی حامی ہیں۔