بوسیدہ دروازوں اور ٹوٹی پھوٹی چاردیواری کے اندر مقید کراچی کے اس قبرستان میں کچھ قبریں تو عام قبروں جیسی لمبی ہیں مگر کچھ قبریں چوکور ہیں اور ان پر چھوٹا گنبد بنا ہوا ہے۔ نیم کے درختوں کے نیچے گھاس پھونس اور جھاڑیوں میں گھری سیمینٹ سے بنی ان قبروں پر سندھی، گجراتی اور ہندی میں مرنے والوں کے نام، موت کی تاریخ اور دیگر تفصیلات درج ہیں۔ پرانا گولیمار علاقے میں واقع یہ قبرستان شہر میں رہنے والے 'شیڈولڈ کاسٹ' یا نچلی ذات کے ہندوؤں کا سب سے بڑا قبرستان ہے۔
اس کے علاوہ کراچی میں ماڑی پور اور ڈرگ روڈ سمیت چار دوسرے مقامات پر ہندوؤں کے چھوٹے قبرستان ہیں۔
گولیمار کے اس قبرستان کے اندرونی دروازے کے دوسری طرف شاہوکار یا اونچی ذات والے ہندوؤں کا شمشان گھاٹ ہے، جسے گجر ہندو کریمیشن گراؤنڈ (شمشان گھاٹ) کے نام سے جانا جاتا ہے۔
قبرستان کی نسبت شمشان گھاٹ کی حالت کسی قدر بہتر نظر آتی ہے۔ بہت اونچی چھت والے چبوترے کے نیچے کچی زمین ہے جہاں کچھ جلی ہوئی لکڑیاں بکھری پڑی ہیں اور راکھ بھی نظر آ رہی ہے۔ اس جگہ پر مُردوں کو جلایا جاتا ہے۔ مرنے والے کے لواحقین کے لیے برابر میں ایک شیڈ کے نیچے لکڑی کے بینچ رکھے ہوئے ہیں جہاں وہ بیٹھ کر اپنے پیاروں کی چتا کو جلتا دیکھتے ہیں۔ اس شمشان کے آس پاس سنگ مرمر سے بنی قبر کی شکل کی کچھ یادگاریں بنی ہیں جن پر انگریزی زبان میں مرنے کے بعد شمشان گھاٹ میں اگنی سنسکار (آگ میں جلائے جانے والے) ہندوؤں کی تفصیلات درج ہیں۔ ماضی کے چند مشہور ہندوؤں کے پتھر اور تانبے کے مجسمے بھی بنے ہوئے ہیں۔ قبرستان اور شمشان گھاٹ کے درمیان والے دروازے پر کھڑے ہو کر دونوں جانب نظر دوڑانے سے قبروں میں بھی طبقاتی درجہ بندی دیکھی جا سکتی ہے۔
پاکستان کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہندوؤں کے بارے میں معلومات کی کمی اور پاکستان میں چلنے والی انڈین فلموں میں مُردوں کو جلائے جانے والے مناظر کی وجہ سے عام طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ بھارت کی طرح سارے پاکستانی ہندو بھی اپنے مُردوں کو دفنانے کے بجائے جلاتے ہوں گے۔ مگر پاکستانی ہندو جو زیادہ تر سندھ میں رہتے ہیں، ان کی اکثریت اپنے مُردوں کو جلانے کے بجائے دفناتی ہے۔ ہندوؤں کے مطابق وہ پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی اقلیتی برادری ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہندوں کی آبادی 55 لاکھ ہے، جبکہ ہندو تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ ملک میں ہندو آبادی 80 لاکھ سے بھی زائد ہے۔
پاکستانی ہندوؤں میں اکثریت غریب ذات کے ہندو ہیں جنھیں ریاست نے سرکاری طور پر ’شیڈولڈ کاسٹ‘ یا نچلی ذات کے ہندو قرار دیا ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے کل ہندو آبادی کا 80 فیصد ان نچلی ذات کے ہندوؤں پر مشتمل ہے۔ خیبر پختونخوا کے ضلع چترال میں موجود مذہبی اقلیت کیلاش برادری کو بھی شیڈولڈ کاسٹ میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان نچلی ذات کے ہندوؤں کی فہرست میں شامل تقریبا تمام ذاتیں اپنے مُردوں کو جلانے کے بجائے دفناتی ہیں۔ جنوبی یا زیریں سندھ کے حیدرآباد، بھنبھور اور میرپور خاص ڈویژنوں میں ہندوؤں کی اکثریت آباد ہے۔ ان ڈویژنوں کے ہر چھوٹے بڑے شہر یا گاؤں میں یا تو سب ہندوؤں کا مشترکہ بڑا قبرستان ہے یا ہر ذات کا الگ الگ چھوٹا قبرستان ہے۔
سندھ کے کئی شہروں میں حکومت سندھ کے جانب سے ہندوؤں کے قبرستان کے لیے زمیں بھی الاٹ کی جا چکی ہے اور محکمہ اقلیتی امُور سندھ ان قبرستانوں کی مرمت کے لیے ہر سال سندھ اسمبلی کے بجٹ میں ایک خطیر رقم مختص کرتا ہے۔ ہندو دھرم میں مرنے کے بعد آخری رسومات کے متعلق عقائد ہندو دھرم کے عقیدے میں مُکش، موکشا یا مکتی یعنی اخروی نجات کا تصور ہے جس کے تحت اگر انسان مرنے کے بعد اس کا جسم جن عناصر سے بنا ہے وہ اگر اپنی اصلیت کو نہ لوٹے تو وہ مُکتی یعنی ابدی سکون نہیں پا سکتا اور اس کی روح دنیا میں ہی بھٹکتی رہتی ہے۔ کراچی کے اوڈیرو لال مندر کے شیوادھاری اور پنڈت گوسوامی مہاراج وجے کے مطابق ہندو مذہب کے عقیدے کے تحت انسانی جسم پانچ چیزوں سے بنا ہے: مٹی، پانی، آگ، ہوا اور آکاش (آسمان)۔ وہ کہتے ہیں: ’انسانی جسم کو ان پانچ چیزوں سے بنا کر دنیا میں بھیجا گیا۔ مگرجب انسان کی موت ہوتی ہے تب ان چیزوں کو اپنی اصلیت کی طرف لوٹنا پڑتا ہے۔ اس لیے ہندو عقیدے میں مردے کو جلایا جاتا ہے کیونکہ مرنے کے بعد انسان کی روح آکاش یعنی آسمان کی طرف لوٹ جاتی ہے جبکہ مُردے کو جلانے سے اس جسم کے باقی چار عناصر میں سے آگ جلنے کے باعث آگ سے، دھواں ہوا سے اور راکھ کا کچھ حصہ مٹی سے مل جاتا ہے اور بعد میں جلی ہوئی ہڈیوں کو پانی میں بہا دیا جاتا ہے اس طرح وہ پانی سے بھی مل جاتا ہے۔‘ مہاراج وجے کے مطابق جب بھی کسی انسان کے مرنے کے بعد جلایا جاتا ہے تو بچی ہوئی ہڈیوں کا وزن اتنا ہوتا ہے جتنا جنم کے وقت اس کے جسم کا وزن تھا۔
اگنی سنسکار (مُردے کو جلانے) کے علاوہ ہندوؤں میں دیگر آخری رسومات کیا ہیں؟
اگنی سنسکار کے علاوہ ہندو دھرم کے عقیدے کے مطابق ’جل گھاٹ‘ یا جل ارپن یعنی مُردے کو بہتے پانی میں بہا دیا جاتا ہے۔ ’جل گھاٹ‘ بھی ہندو دھرم میں کریا کرم یعنی آخری رسومات کا ایک حصہ ہے۔ مہاراج وجے نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’مگر بھارت کی طرح پاکستان میں ندیوں کی بہتات نہیں ہے کہ یہ رسم ادا کی جائے۔ سندھو ندی ہی واحد بڑی ندی ہے مگر اس میں بھی پانی نہیں ہے۔ اس لیے پاکستان میں ’جل گھاٹ‘ یا ’جل ارپن‘ نہیں ہوتا۔ آخری بار یہ رسم میں نے دو سال پہلے دیکھی تھی جب سندھ کے شہر ٹنڈوآدم میں مرنے والے ایک ہندو کی وصیت پر اس کے جسم کو سکھر میں سادھو بیلا کے مقام پر دریائے سندھ میں بہا دیا گیا تھا۔ مگر یہ رسم سندھ میں کم ہی ادا کی جاتی ہے۔‘
کراچی کے تاریخی مندر شری پنچ مکھی ہنومان مندر کے گدی نشین مہاراج رام ناتھ مشرا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہندو دھرم میں اگنی سنسار ہی اُتم طریقہ ہے اس کے بغیر آتما (روح) کو مُکتی نہیں ملے گے۔ بقول ان کے: ’اس کے علاوہ اگر کوئی سنت یا مہاتما (بہت عبادت کرنے والا فرد) ہو تو اسے سمادھی دی جاتی ہے یا اگر کسی کی وصیت ہو تو اسے جل گھاٹ یعنی پانی میں بہا دیا جاتا ہے۔ دفنانا تو ہندو دھرم میں کہیں بھی نہیں ہے۔‘ سمادھی کے لیے مُردے کو پالتی مار کر بٹھا دیا جاتا ہے اور اسے حالت میں دفنایا جاتا ہے اور سمادھی لینے والے کی قبر عام قبروں جیسی لمبی بنانے کے بجائے چوکور بنائی جاتی ہے اور قبر کے اوپر ایک چھوٹا سا گنبد نما بنادیا جاتا ہے۔ اگر مرنے والا شیر خوار یا چھوٹا بچہ ہو تو بھی اسے دفنایا جاتا ہے۔
نچلی ذات کے غریب ہندو اپنے مُردوں کو جلانے کے بجائے دفناتے کیوں ہیں؟
ہندو دھرم میں ذات پات پر مبنی نظام تین ہزار برس سے زائد عرصے سے رائج ہے جو طبقاتی تقسیم کی سب سے پرانی صورت ہےاور اس نظام کے تحت ہندوؤں کو ان کے کرما (کام) اور دھرما (فرض) کی بنیاد پر مختلف سماجی گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جہاں ان میں کچھ لوگ اونچی ذات ہیں کے وہیں اکثریت کو نچلی ذاتوں میں شامل کیا گیا ہے۔ پاکستان میں ہندوؤں کے اس ذات پات کے نظام کو سرکاری حیثیت دی گئی تھی جو آج بھی رائج ہے۔ سماجی کارکن ڈاکٹر سونو کھنگھرانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ قیام پاکستان کے بعد ملک کے پہلے وزیر قانون جوگندر لال منڈل، جو ایک بنگالی ہندو تھے اور ان کا تعلق ہندوؤں کی ایک ایسی ذات تھا جو ہندو دھرم میں ذات پات پر مبنی نظام سے باہر تھی، ان کی خواہش تھی کہ پاکستان میں ان کو ذات پات پر مبنی نظام میں شامل کیا جائے۔ منڈل پہلا آئین پاکستان 1956 بنانے والی کمیٹی میں تھے اور انھوں نے پاکستانی ہندوؤں کی اکثریت کو، جو انتہائی غریب تھے، شیڈولڈ کاسٹ والی فہرست میں ڈال دیا جو آج بھی سرکاری سطح پر رائج ہے۔
ڈاکٹر سونو کھنگھرانی کے مطابق: ’آج پاکستان میں موجود ہندوؤں کی کل آبادی کا 80 فیصد شیڈولڈ کاسٹ ہیں جن کے لیے سرکاری نوکریوں میں کوٹا بھی مختص کیا گیا ہے۔ اور یہ سب شیڈولڈ کاسٹ ہندو پاکستانی ہندوؤں کا 80 فیصد ہیں اپنے مُردوں کو جلانے کے بجائے دفناتے ہیں۔‘ مہاراج وجے کے مطابق ذات پات پر مبنی نظام میں پنڈت اونچے درجے سے ہوتے ہیں اور ماضی میں اکثر پنڈت ان نچلے ذات کے ہندوؤں کے مذہبی رسومات میں نہیں جاتے تھے اس لیے مجبوری میں وہ لوگ مُردوں کو جلانے کے بجائے دفنانے لگے۔
بعد میں ان میں سے کچھ لوگ پنڈت بن گئے مگر پھر بھی دفنانے والا عمل جاری رہا۔ صحرائے تھر سے تعلق رکھنے والے90 سال عمر کے نچلی ذات ہندوؤں کے پنڈت مہاراج نہال چند گیان چندانی نے بتایا کہ پاکستان میں موجود نچلی ذات کے ہندو آج کسی بھی جگہ رہتے ہوں ان کا بنیادی تعلق صحرائے تھر سے ہے جہاں قحط سالی کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ مہاراج نہال چند نے بتایا: ’مُردوں کو جلانے یا دفنانے کی تاریخ کا مجھے پتہ نہیں مگر میں نے جو اپنے بچپن میں سنا تھا کہ عیسوی سن 1899 کو جب بکرمی کیلنڈر کا سال 1956 تھا تب تھر میں ریکارڈ شدہ تاریخ کا بدترین قحط آیا تھا جسے لوگ بکرمی سال 1956 کے باعث ’چھپنو‘ قحط کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اس خشک سالی میں روزانہ درجنوں لوگ مرتے تھے جنھیں اجتماعی قبر میں دفنایا جاتا تھا جس کے بعد سے اب تک دفناتے آ رہے ہیں۔‘
اس کے علاوہ شدید خشک سالی کے باعث درخت ختم ہو گئے تھے، شاید اسی وجہ سے جلانے کے بجائے دفنایا جانے لگا۔ بقول مہاراج نہال چند، دفنانے سے پہلے مردے کی جسم کی کسی حصے کو اگربتی سے تھوڑا جلا دیا جاتا ہے جس سے اگنی سنسکار والی رسم بھی پوری ہو جاتی ہے۔
مُردے نہ جلا پانے کا ایک سبب غربت:
اگنی سنسکار والی رسم کے لیے اَوسطاً 15سے 20 ہزار روپے کا خرچہ آتا ہے کیوں کہ اس رسم کے لیے دس سے 12 من مہنگی لکڑی درکار ہوتی ہے۔ ماضی میں صندل کی لکڑی استعمال کی جاتی تھی مگر اب عام لکڑی بھی استعمال کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ گھی، کافور، ناریل، تل اور اگر بتی بھی جلانے کی رسم میں درکار ہوتی ہیں۔ مہاراج نہال چند کے مطابق اگنی سنسکار کے لیے آنے والا خرچہ بھی ایک اور سبب ہے جس کے باعث غریب لوگ دفنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ مُردے کو جلانے کے بعد اس کی ہڈیاں جمع کی جاتی ہیں جسے بعد میں گنگا ندی میں بہانا بھی ضروری ہوتا ہے۔ پاکستان اور بھارت میں مسلسل رہنے والے سفارتی کشیدگی میں ایک عام شہری کے لیے ویزا لینا بھی مشکل تر ہو گیا ہے اس لیے مردے کی راکھ کو بھارت لے جا کر گنگا ندی میں بہانا ایک اور مسئلہ ہے۔
کراچی کے شمشان گھاٹ کے ایک کمرے میں لال کپڑے کی پوٹلیوں، ڈبوں اور برنیوں میں رکھی انسانی ہڈیاں کئی سالوں سے ویزے کے انتظار میں ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت جانے کے لیے سفری اخراجات اور وقت دینا بھی دشوار ہوتا ہے جو ایک اور بڑی وجہ ہے کہ سندھ کے ہندوؤں کی اکثریت غریب ہندو مُردوں کو جلاتے نہیں بلکہ دفناتے ہیں۔